حبِ رسول کے تقاضے اور ہماری ذمہ داریاں
محمد سبطین رضا محشر مصباحی کشن گنج بہار
بلاشک و شبہ ماہ ربیع الاول محبت رسول اور اصلاحِ اعمال کا مہینہ ہے اس مہینے میں پیارے آقاصلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی آپ کی تشریف آوری بھٹکتی انسانیت کے لیے فلاح کی راہ ہے تاریخِ میں انسانیت کی چمنِ موسمِ خزاں میں فخرِ دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے بڑھ کر کوئی بہارِ نو نہیں آئی اس مبارک مہینے میں عالمِ اسلام حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں عاشقانِ مصطفیٰ مجالس و محافل منعقد کرکے آقا علیہ السلام کی شان و عظمت فضائل و محامد کا تذکرہ کرتے ہیں کہ حبِ رسول کمالِ ایمان کی لازمی شرط ہے مسلمانوں کے لیے ایمان و یقین کا سرچشمہ ہے _
کمالِ محبت کی اقتضا اور اصل یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم ماں باپ اولاد اور اپنی جانوں سے بھی زیاہ محبوب ہوں کیوں کہ حضور سے محبت شرطِ ایمان ہے ، جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں : "تم میں سے کوئی اس وقت تک کمالِ ایمان کو نہیں پہنچ سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں_” ( بخاری شریف)
صحابۂ کرام کرام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بے پناہ محبت کی بے نظیر مثالیں موجود ہے جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان سے جس محبت کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ زندگی کے انفرادی و اجتماعی دونوں حصوں میں ہے حقوق اللہ ، حقوق العباد ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے آپ کی سیرت ، طرزِ زندگی کو اپنے دامنِ عمل سے پیوست رکھا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب اپنے اپنے وقت میں رفعت و بلندیوں کی عظیم منزل پر فائز ہوئے ، چناں چہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صداقت کے بلند معیار پر فائز ہوئے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ عدالت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ عنہ پیکرِ سخاوت بن کر چمکے حضرت علی رضی اللہ عنہ شجاعت و بہادری کے بلند منصب پر فائز ہوئے ، معلوم ہوا کہ ماہ ربیع الاول کا صریح اقتضا یہ ہے جس سے پتا چلے کہ ہمارے اندر تعلیماتِ رسول کا عملی حصہ کتنا ہے ہماری عشق کی گواہی ہمارا عمل کتنا فراہم کررہا ہے_
حبِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مقتضیات یہ ہے کہ ہماری زندگیاں احکامِ الہی کے تابع ہوجائیں ، ہماری طرزِ زندگی کی ہر ادا اسوۂ رسول کے سانچے میں ڈھل جائیں ، اطاعتِ رسول میں جذبۂ عمل کی شدت ہوں ، یعنی کہ حبِ رسول کا پہلا مطالبہ عمل ہی ہے تاکہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے اندر احکامِ خداودی کی بجاآوری ، اطاعتِ رسول کی فرماں برداری ، خلوص و پرہیز گاری ، سچائی و امانت داری ، برائیوں سے کنارہ کشی ، گناہوں سے بیزاری ، مسلمانوں کے حقوقِ باہمی ، صوم و صلواۃ کی پابندی ، رشتہ داروں اور پڑسیوں کی غم خواری وغیرہ کی شان پیدا ہو_
صرف زبانی محبت کا دعویٰ اور بے عملی کی زندگی وہ قابل قبول نہیں کیوں کہ پھر وہ اس کاغذی پھول کی مانند ہے جو اندر سے کھوکھلا تو ہو ہی اور اس سے حصولِ خوشبو کی امید بالکل بھی نہ ہو کیوں کہ حبِ رسول رسمی اظہارِ محبت اور جذباتی وابستگی سے عبارت نہیں بلکہ دل و زبان اور اعمال سے حبِ رسول کا اظہار ہے جب کہ بے عملی کی زندگی موجبِ غصب الہی اور باعثِ رسوائی ہے _
ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ دین اسلام ہمیشہ اپنے ماننے والوں کے لیے فکر مند ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرے لیکن موجودہ قومِ مسلم کے حالات انھیں کی بد عملی اور بے عملی کا نتیجہ ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بد لیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں عملی میدان میں اپنی کارکردگی کا باریکی سے جائزہ لیں اسلام کے بتائے گئے احکامات پر کاربند رہیں ہمہ وقت احتسابی کیفیت میں سرشار رہے اگر ابھی ہی سے غور نہ کیا گیا تو بروز محشر سخت پکڑ ہوں گی یہی کمالِ محبت کی اقتضا ہے اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تقاضے ہیں_
محمد سبطین رضا محشر مصباحی کشن گنج بہار
ریسرچ اسکالر البرکات
تاریخ ٢٢ اکتوبر