آمدسرکاراورموسم بہار
از:مفتی محمدعبدالرحیم نشترؔفاروقی
ایڈیٹرماہنامہ سنی ومفتی مرکزی دارالافتا،بریلی شریف
بہار کاموسم دراصل سرسبز وشادابی، رونق وتازگی، فرحت وانبساط، کیف وسرور، اور جوش وولولہ کامظہرہے، اس موسم میں ہرشئے اپنی نکھارسے ’’بہار‘‘ کی موجودگی کا خوبصورت احساس دلاتی ہے، اس وقت ہرشئے اپنی جوانی اورشباب کی منزلیں طےکرتی ہوئی نظرآتی ہے اورجوان وتواناچیزیں تازگی وملاحت آفرینی سے وجدکناں دکھتی ہیں، حتیٰ کہ عمررسیدہ اشیابھی اپنی جاذب نظر رنگت سے اس موسم کے برکات کی شہادت دیتی ہیں۔
چار موسموں میں سے ایک موسم بہار شمالی نصف کرہ میں مارچ اور اپریل کو آتا ہے جبکہ جنوبی نصف کرہ میں ستمبراور اکتوبر کے مہینوں میں آتا ہے، یہ نہ زیادہ گرم ہوتا ہے نہ زیادہ سرد! خزاں کے سبب اپنے پیرہن سے محروم ہوچکےپیڑ، پودے موسم بہارمیں نیا لباس بدلتے ہیں، جن کےخوب صورت، تروتازہ اورصاف وشفاف سبزہ زار پتّوں کا پیراہن آنکھوں کو طراوت بخشتا ہےاور قلب و جگر کو تازگی کاتحفہ دیتا ہے۔
موسم بہار اہل جہاں کو تازگی وتوانائی کا احساس دلاتا ہے، یہ انسانی،حیوانی اور نباتی صحت کےلئے انتہائی فائدہ مند ہوتا ہے،انسانی چہروں پر شگفتگی، مسکراہٹ اور نکھار نظر لاتا ہے، حیوانات کے اندر بہت سی خو ش گوارتبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، نباتات میں تو یہ موسم حقیقی بہار لاتا ہے، باغوں، پودوں اور جنگلات میں صدہا قسم کے پھل دار یا پھولدار پودوں کے چھوٹے چھوٹے شگوفوں اور کونپلوں کاوجودفضا میں بھینی بھینی خوشبوبسادیتاہے، پھولدار پودوں میں تو یہ سماں اور بھی زیادہ دلکش اور قابل دید ہوتا ہے، ان میں پتوں کے سبزہ زار کے ساتھ ساتھ قدرت کا ودیعت کردہ خوش نما پھول بھی ان کی رونق کو دوبالا کردیتا ہے۔
انسانی بچے بھی پھولوں کی طرح نرم و نازک ہوتے ہیں، یہ موسم انھیں بھی بھرپور مستفیض کرتا ہے، ان کے جسم میں چستی، پھرتی، چالاکی اور توانائی پیدا ہوتی ہے، جسمانی نشوونما کے لحاظ سے یہ موسم ان کےلئے بہت مفید ہوتا ہے، جس طرح باغوں میں پھول روز افزوں دلکش اور خوبصورت ہوتےجاتے ہیں اسی طرح بچوں میں بھی خوبصورتی اور رعنائی بڑھتی رہتی ہے اور وہ دن بدن ہشاش بشاش رہنے لگتے ہیں۔
یہ موسم ایساجانفزاکیوں ہے؟کیوں کہ اس موسم بہار میں’’جان بہار‘‘اور’’مظہرشان پروردگار‘‘کی تشریف آوری ہوئی ہے، جس کے آنے سے اس کائنات کے مردہ وجود میں حیات نوکی تازگی دوڑگئی، باغات سبزہ زار ہو گئے اورچمن کی کلیوں میں چٹکنے کاشعور پیدا ہو گیا، پھول کھلنے اورمہک نے لگے، کھیت کھلیان کی فصلیں لہلہانے لگیں، پیڑپودے ثمربار ہوگئے، بلکہ یہ کہنابے جانہ ہوگا کہ یہ ساری چمک دمک اور رعنائیاں انھیں کے انوارکی چھینٹیں ہیں جو تمام موجودات ومشاہدات میں اپنی نورانیت بکھیر رہی ہیں، اعلیٰ حضرت امام احمدرضاقادری بریلوی اس کی یوں ترجمانی فرمارہے ہیں ؎
انھیں کی بومایۂ سمن ہے، انھیں کاجلوہ چمن چمن ہے
انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں انھیں کی رنگت گلاب میں ہے
ربیع کالغوی معنی ’’فصل بہار‘‘کے ہیں اور اوّل بمعنی ’’پہلا‘‘ اس طرح ’’ربیع الاوّل‘‘کامعنی ہوا’’پہلی فصل بہار‘‘یا’’ پہلا موسم بہار‘‘ سیرت کی کتابوں میں آیاہے کہ صبح شب ولادت کائنات کے ذرّے ذرّے میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے انوار کا مشاہدہ کیا گیا، آپ کے فیضان کا ظہور نظر آیا، فضا مشکبار اور فرحت فزا ہوگئی، مکہ کی گلیاں بقعۂ نوربن گئیں، لاغرو ناتواں جانور فربہ اورطاقتور ہوگئے، جن کادودھ ختم ہو گیا تھا دودھ دینے لگے، جن درختوں کے پتے خشک ہوچکے تھے ان پر سبز و شاداب پتے ہواؤں سے اٹھکھیلیاں کرنے لگے، پھولوں پر غضب کا نکھار آگیا، فرط مسرت میں عالم کا ذرہ ذرہ نغمہ سرا ہوگیا۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماہ ولادت پرسعادت کو’’ربیع الاوّل ‘‘کہا جاتا ہے، بعض صاحبان دل اوراہل محبت و معرفت ’’ربیع الاوّل‘‘ کو ’’ربیع النور‘‘ بھی کہتے ہیں اور حق کہتے ہیں کہ ’’ربیع‘‘ یعنی بہار تو ایک مختصر موسمی سماں کا استعارہ ہے جو کئی اعتبار سے ناقص ہے، بہار آتی ہے اور چلی جاتی ہے، موسم بہار میں اگر ہریالی آتی بھی ہے تو محدود ساعتوں کے لئے، خنکی کا اثر بھی آب وہوا تک ہی محدود رہتا ہے، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ظہور تو انوار کی صبح بہاراں ہے، ابدی فیوضات کا سرمدی موسم ہے، نبض ہستی کی حرکت و حرارت کا باعث ہے، ولادت رسول صرف بہاروں کا پیغام نہیں بلکہ دائمی انوار و فیوضات کا سرچشمہ ہے جسے قیامت تک نوربار رہنا ہے اور یہ انوار و فیوضات کسی ایک عالم کے لئے نہیں بلکہ عالم جن و انس کے لئے بھی ہیں، عالم نباتات و جمادات کے لئے بھی اورعالم چرند و پرند کے لئے بھی حتی کہ عالم لاہوت و ملکوت کے لئے بھی ہیں۔
یقیناً موسم بہار چند ایام وشہور کا مہمان ہوتا ہے پھر ساری شادابیاں، رعنائیاں اور رنگینیاں رفتہ رفتہ اپنی جاذبیت و مقناطیسیت کھو دیتی ہیں لیکن بانیٔ اسلام کے صدقے اس فرش گیتی پر چھانے والی بہار چند روزہ نہیں بلکہ دوام و ہمیشگی والی ہے، اس کا فیضان عالم گیر و ہمہ گیر ہے، فرش زمین پر موجود جملہ مخلوق اس کے باران رحمت سے سیراب و شادکام ہے۔
ربیع النور کے صدقے انسانیت پر ایسی بہار چھائی کہ قیام قیامت تک کے لئے انسانوں کے حقوق محفوظ ہوگئے، عورتوں پر اس موسم کی ایسی کرم فرمائی ہوئی کہ جس سماج میں عورت کا کوئی مقام ومرتبہ نہیں تھا، جنھیں پیدا ہوتے ہی مار دیاجاتا تھا ،وہاں اس کے لیے باقاعدہ حقوق مرتب کئے گئے، اس کے تمام رشتوں کو عزت واحترام کا مستحق قرار دیاگیا، یہاں تک کہ ایک ماں کی حیثیت سے اس کے قدموں میں جنت جیسی نعمت رکھ دی گئی، 12 ربیع النور کو افق عالم پر طلوع ہونے والے آفتاب وماہتاب نے ایسا جام محبت پلایا کہ آپس میں ہولناک جنگ کرنے والے اخوت کے پاکیزہ رشتے میں بندھ گئے اور صدیوں سے ایک دوسرے پر خون آشام تلواریں چلانے والے آپس میں شیر وشکر ہوگئے ،یہاں تک کہ اپنے اپنے مال وأسباب اور زمین وجائداد کا نصف حصہ مہاجرین کو دے دیا، جانوروں پر اس بہار کا ایسا ابرکرم برسا کہ انھیں بھی رحم وکرم کا مستحق قرار دے کر ان سے کام لینےکا ضابطہ متعین کردیا گیا، نباتات پر بھی اس موسم بہار کی یہ کرم فرمائیاں ہوئیں کہ وقت پر ان کی مناسب آبیاری کی تحدید اور بلا وجہ ان کی شاخیں توڑنے پر زجر و توبیخ کی گئی، یہاں تک کہ مسواک کے لئے بھی شاخیں توڑنے کی ایک حد متعین کی گئی، غرض کہ عالم میں موجود ہر شئے پر 12 ربیع النور کا فیضان جھماجھم برسا اور قیامت تک برسے گا۔
نباتات و جمادات میں احساس وادارک کی صفت نہیں ہوتی لیکن نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ادنیٰ ساتعلق بھی وہ اثر رکھتاہے کہ ایک خشک تنے کوبھی ہوش و خرد، احساس وادراک اور عشق ومحبت کے لطیف جذبے سےسرشارکر دیتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ تمام تر قلبی، ذہنی اور حسی صلاحیتیں رکھتے ہوئے بھی بے حس، بے کیف اور محروم ہیں، کیا ہم ان پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوگئے ہیں جو قربت مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے فیض پاکر حیات جاوداں پاگئے؟ ہم تونبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماننے والے، آپ پر ایمان رکھنے والے اور آپ کی اطاعت وفرماں برداری کا دم بھرنے والے ہیں، آج کیوں ہم اپنے رب سے، اپنے رسول سے اور اپنی عاقبت سے بے خبر ہیں، ہمارے سینوں کے اندر دل دھڑکتے ضرور ہیں لیکن ان دھڑکنوں میں فانی دنیا کی محبتیں رچ بس گئی ہیں، دل کی تختیاں غفلت شعاری اور شامت اعمال سے سیاہ ہو چکی ہیں، ذلت ورسوائی ہمارا مقدر بنتی جارہی ہے، ہمیں کوئی بھی، کہیں بھی، کبھی بھی پیٹ پیٹ کر مار ڈالتا ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اللہ رب العزت نے ہمیں عزت وعظمت والے ممتاز نبی کی غیرت مند اور ممتاز امت میں پیدا فرمایا ہے لیکن ہم نے اپنی شرافت و صداقت اور غیرت و حمیت کو کہیں گروی رکھ دی ہے، ورنہ آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا، اگر اب بھی ہم نے اپنے ماضی کی روش کی تجدید کر لی تو یقیناً ہمارا مستقبل روشن و تابناک ہوتے دیر نہیں لگے گی، ہمارا وقار و اعتبار بحال ہوتے وقت نہیں لگے گا، کیوںکہ ؎
طریق مصطفےٰ کو چھوڑنا ہے وجہ بربادی
اسی سے قوم دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی
ہمیں کرنی ہے شہنشاہ بطحا کی رضا جوئی
وہ اپنے ہوگئے تو رحمت پروردگار اپنی
آئیے اپنے آقا کی اطاعت کے لئے خود کو تیار کر لیں، اپنے آپ کو حرص و ہوس اور خواہشات نفسانی سے کنارہ کش کر لیں، مساجد کو اپنے سجدوں سے آباد کر دیں، مصطفےٰ جان رحمت کی اطاعت و فرماں برداری، وفاداری و جاں نثاری سے آپ کے سچے امتی ہونے کا ثبوت پیش کریں، مولیٰ تعالیٰ ہمیں آپ کے اسوۂ حسنہ کو اپنا جادہ راہ بنانے کا جذبۂ صادق عطا فرمائے، آمین۔