کیا اس وقت قوم کو غیر ضروری مدارس و مساجد کی تعمیر سے زیادہ اسکول،کالج اور ہاسپیٹل کی ضرورت نہیں؟؟

کیا اس وقت قوم کو غیر ضروری مدارس و مساجد کی تعمیر سے زیادہ اسکول،کالج اور ہاسپیٹل کی ضرورت نہیں؟؟

کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ علماء صدقہ جاریہ کی تشریح میں مدارس ومساجد سے آگے بڑھ کر اسکول، کالج، ہاسپٹل اور تجارتی مراکز  کی تعمیر کو بھی شامل کریں!! 

موجودہ زمینی حقائق پر مبنی ایک پرسوز آپ بیتی!!

مشتاق نوری
۱۰؍دسمبر۲۰۲۰


میرا ایک ۱۳ سالا بھتیجا ہے جسے حافظ بننے کا بڑا شوق تھا میں اس کے جذبے و لگن کو دیکھ کر اسے قاری صاحب کہنے لگا تھا۔دینی تعلیم کی طرف اس کے جھکاؤ کو دیکھتے ہوئے اپنے ہی علاقے کے ایک درگاہی مدرسے میں داخلہ کرا دیا گیا۔مگر مدرسین کی بے جا سختی و جلادانہ رویے کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ کر بھاگ آیا۔اب لاکھ سمجھانے بجھانے کے باوجود وہ مدرسہ جانے کو تیار نہیں تھا۔تھک ہار کے اسے اسکول بھیجنے کا سوچا۔میرے بھیا مالی اعتبار سے مضبوط تھے اس لیے آر ایس ایس آپریٹیڈ ایک مہنگے اسکول میں اس کا داخلہ کرا دیا گیا اور ہاسٹل میں رہ کر تین سال تک پڑھائی کرتا رہا۔
تین سال کے بعد اس لڑکے سے جب میں ملا تو حیرت انگیز طور پر اس کے behavior سے دھچکا لگا کہ جو لڑکا ہر وقت مدرسہ، قرآن، نماز کی بات کرتا تھا اب اس کے منہ سے بات بات میں صرف ہندوانہ جملے اور شرکیہ بھجن نکل رہے ہیں۔پہلے بنا پانی کے استنجا کو نہیں جاتا تھا اب تو کھڑے کھڑے پیشاب کرنے کو اسکول کا فیشن بتا رہا ہے۔اس رویے پر میں نے سخت ڈانٹ پلائی تو کچھ بدلاؤ بھی آیا۔

ایک صبح تڑکے ہی میں نیند سے بیدار ہوا تو کہیں سے بھجن بجنے کی آواز آرہی تھی۔جس میں شکشا کی دیوی سرسوتی( ہندو عقائد میں) سے آرتی وندنا کی گئی تھی۔اس سے مدد اور سکشا و شانتی کی ونتی کی جارہی تھی۔جب اس کے بستر کے قریب گیا تو دیکھ رہا ہوں کہ اسی کے سادہ موبائل فون میں بھجن بج رہا ہے۔مین نے پوچھا صبح صبح اللہ و رسول کا نام لینے کے بجاۓ یہ کیا بجا رہے ہو؟ کہنے لگا ہمارے اسکول کا پرارتھنا گیت ہے۔یہ سارے بچوں کے موبائل میں ملے گا۔ سب کو یاد کرنا ہوتا ہے۔

اب آپ کو اور حیرت ہوگی کہ میرا بھتیجا جس شہر کے اسکول میں پڑھتا تھا وہاں کی ۸۰ فیصد آبادی مسلم ہے۔تو واجبی طور پر اس اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت بھی مسلم رہی ہوگی۔اب آپ سوچیں کہ اس علاقے کے مسلم بچوں کے عقائد اور معمولات کس قدر بھیانک روپ لے چکے ہوں گے جہاں ہندوستان بھر کی بڑی بڑی خانقاہوں کے بڑے بڑے پیروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں پچھلے تین مہینے سے لگ بھگ ایک درجن خانقاہوں کے دو درجن جبہ پوش بابائیں و پیران مغاں کسی نہ کسی بزرگ کا فیضان بانٹنے کے نام پر پیری مریدی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔جی ہاں! میں سیمانچل کے ضلع کشن گنج کے اسمبلی حلقہ ٹھاکر گنج کی بات کر رہا ہوں۔وہی ٹھاکر گنج جہاں اسکول کے نام پر یا تو آر ایس ایس کے ادارے ششو مندر، بال مندر ملیں گے یا پھر عیسائی مشنری کے مشن اسکولس۔

آج تک ایک چھوٹا سا بھی اسکول ہم وجود میں نہیں لاسکے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پیران کرام و علماۓ اسلام جب بھی پروچن دیتے ہیں تو صرف یہی کہ مدرسہ کھولو،فلاں مدرسے کو چندہ بھیجو۔فلاں بابا کا مزار بنواؤ۔فلاں خانقاہ کی تعمیر میں حصہ لو، لے دے کے بس یہی۔آج تک کسی نے اسکول و کالج بنانے کی تلقین نہیں کی۔لگتا ہے کوئی اس کی ضرورت و اہمیت سمجھتا ہی نہیں۔"عن أبی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَمَلُہٗ اِلَّامِنْ ثَلٰثٍ ، صَدَقَۃٌ جَارِیَّۃٌ ، أوْ عِلْمٌ یُنْتَفَعُبِہٖ ، أوْ وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُوْ لَہٗ”

ہمارے علما و صوفیا اکثر محافل میں خاص کر ایصال ثواب کی محفلوں میں اس حدیث کو کوٹ کرتے ہیں۔اس کا ترجمہ تو کرتے ہیں مگر اس کی تشریح و توضیح کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔حضور کی حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فرمان نبوت صرف مخصوص زمانے لیے تھا بلکہ آپ کی حدیث کے انطباق کا مسئلہ جب جب درپیش ہوگا اس کے بین السطور میں زمانے کے بدلاؤ اور اس کے تقاضوں کا لحاظ بہر حال رہے گا۔اور ہم آج بھی وہی مفہوم سمجھا رہے ہیں جو آؤٹ آف ٹائم ہوچکا ہے۔

صدقۂ جاریہ میں مقررین و خطبا ببانگ دہل بیان کرتے ہیں کہ کنواں کھودوا دینا،مسافروں کے لیے سراۓ بنا دینا۔مدرسہ بنوا دینا۔مسجد بنانا یا اس میں حصہ لینا۔وغیرہ ۔جب کہ آج کے ڈیٹ میں کنواں کھودوانے کی بات عجیب سی لگتی ہے۔مسافروں کے لیے سراۓ بنانے کا کام آج سرکاریں حکومتیں کرتی ہیں یہ کام آپ کے لیے ہے ہی نہیں۔اور نہ ہی آج کے ڈیٹ میں مسافر خانے کا تصور ویسا ہوپاۓ گا جیسا ۱۴ سو سال پہلے کا تھا۔زمانہ بالکل بدل گیا ہے۔پھر بھی انہی چیزوں پر گپے ہانکنا ایک طرح کا مذہبی جبر ہے۔
رہی مسجد و مدرسے بنانے یا تعمیر میں حصہ لینے کی بات۔تو آج کے حالات کے مد نظر کیا یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے اسکول نہ ہونے کی وجہ سے قوم و ملت کے بچے شرک و ارتداد اور لادینیت کی طرف مائل ہوں اور آپ صرف مسجد اور مدرسے کی بات کرتے رہیں؟

اور یہ بھی کہ مذکورہ حدیث میں جس علم نافع کی بات کی گئی ہے اسے صرف دین کی تعلیم تک محدود رکھنا، عصریات کو خارج کر دینا حدیث کے مفہوم میں تحریف کرنے جیسا جرم نہیں ہے؟ ولد صالح کے جملہ خصائص و اوصاف صرف مولوی صاحب پر ہی صادق آتے ہوں یہ بھی بڑا عجیب لگتا ہے۔کیا کوئی سوٹیڈ بوٹیڈ آدمی ولد صالح نہیں ہوسکتا جو اپنے والدین کے لیے صدقۂ جاریہ ہوسکے۔مگر افسوس!کوئی حدیث کی گہرائی میں اترنا ہی نہیں چاہتا۔خیال رہے آج آپ مذکورہ بالا حدیث کی اپڈیٹ تشریح و توضیح کریں یہ وقت کی مانگ ہے۔

ایک بات بڑی چالاکی سے خطبا جلسوں میں اور پیر حضرات اپنی نجی محفلوں میں بیان کرتے ہیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے اور مدرسہ رسول اللہ کا۔اس طرح کی بات کر کر کے ہم نے پوری قوم کو نا صرف گمراہ کیا ہے بلکہ ان کے دین و دنیا کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا ہے۔میں کہتا ہوں کہ بھارت  جیسے ملک میں اب اور مدارس کی کوئی ضرورت نہیں۔اب قوم کے غیور و جسور افراد کو چاہیے کہ صدقۂ جاریہ کے مفہوم میں اسکول، کالج اور ہاسپیٹل و دیگر کو بھی شامل کر لیں۔خدا کے لیے انہی چیزوں پر زور دیں۔اور کب تک آر ایس ایس اور کرسچن اسکولوں کے محتاجی رہے گی؟

آپ میری یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ اگر دین کا کام صرف روایتی مولویوں، پونجی پتی پیروں، نذرانہ خور بدعتی باباؤں پر چھوڑ دیا جاۓ تو آپ کی اگلی نسلوں کو دین سے بس اتنا ہی مطلب رہے گا جتنا بالی ووڈ کے خان برادران کو ہے۔مذہبی لباس کے مذکورہ تینوں درجے کے فرشتہ لباس لوگ فہم دین و تقاضاۓ دین سے بالکل ہی بے بہرہ ہیں۔اگر کچھ ہے بھی تو لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔سب کو اپنے پیٹ کی پڑی ہے۔

ستم تو یہ کہ اس مسلم سماج کا بھی عجیب معاملہ ہے مولویوں کی کوئی نہیں سنتا۔پیروں کی سننا چاہتا ہے مگر پیر سناتے نہیں۔اور سناۓ بھی کیوں جب مفت میں وی آئی پی ٹریٹمنٹ مل رہا ہے۔ لوگ انہیں ماورائی ہستی سمجھ کر زمین پر خدائی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ اور باباؤں کو تعویذ گنڈے سے فرصت کہاں۔
ایسے میں اگر ہمارے آپ کے بچوں کے سادہ لوح اذہان پر شرک و ارتداد کا سبق نقش کر دیا جاۓ یا اسلام سے بغاوت کا زہر پروسا جاۓ تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ مستقبل میں اس کے کتنے بھیانک نتائج سامنے آئیں گےاور اس کا ذمہ دار صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ کے سماج سے جڑے وہ سارے لوگ ہوں گے جن کی آپ کے سماج پر گرفت مضبوط ہے۔جو آپ کو اپنی تقدیس و تبرک کے جھانسے میں رکھ کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں۔

مشتاق نوری
۱۰؍دسمبر ۲۰۲۰


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

  • Posts not found

alrazanetwork

Recent Posts

جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور  خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!!

جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور  خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!! تحریر:جاوید اختر… Read More

12 گھنٹے ago

نعت خوانی کے شرعی آداب

۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا… Read More

4 دن ago

نفرت کا بھنڈارا

عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان… Read More

3 ہفتے ago

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں!

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں! از:مفتی مبارک حسین مصباحی استاذ جامعہ… Read More

3 ہفتے ago

انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت

انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت انسانی زندگی خوشی اور غم کے احساسات… Read More

1 مہینہ ago

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!!

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!! ڈاکٹر ساحل شہسرامی کی رحلت پر تعزیتی تحریر آج… Read More

4 مہینے ago