تو جو مؤمن ہے تو پھر۔۔۔!!
تحریر ✍️ مظہر قادری (کوڈرما) جھارکھنڈ
آج جنگ بدر عزم و یقین کے ان گنت چراغ روشن کر رہا ہے ۔ جس سے روشنی پا کر کفار و مشرکین اور فرقہ پرستوں کے سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے ۔ اور اسلام کی قصر رفیع کی حفاظت کی جا سکتی ہے ۔
۱۷ رمضان المبارک ۲ھ ۱۳ مارچ ۶۲۴ ء کو سرزمین برد پر کفار قریش سے جو مڑ بھیڑ ہوئ اسے محض ایک جنگ ، ایک لڑائ ، ایک معرکہ ، نہ سمجھا جائے بلکہ وہ انسانی تاریخ میں احقاق حق اور ابطال باطل کی نہایت عظیم الشان درسگاہ تھی ،
جہاں خدائ قوت اور باطل پرستوں کا مقابلہ تھا ۔
آدم و ابلیس ، ابراھیم و نمرود ، کلیم و فرعون ، سے ہوتی ہوئی جو داستان حق آگے بڑھ رہی تھی وہ خاتم المرسلین فداہ امی و ابی علیہ الصلاۃ والسلام کے ذریعے اس جہاد سرفروشی کی تاریخ کا آخری باب وہاں سے شروع ہوا
جس کے ذریعے اسلام کو بالآخر فاتح عالم بننا تھا ۔
* رسول خدا خاتم النبیین اور محبوب رب العالمین ہونے کے باوجود غم و الم تکالیف و مشاکل سے آپ بھی بری نہیں ۔
پیغمبر اسلام اور مختار کل ہوتے ہوئے حضور نے وسائل حیات کے ہر موقع پر نہایت جتن سے اہتمام فرمایا تاکہ ہمارے لئے نمونۂ عمل مرتب ہو ۔ حالانکہ زمین و آسمان اور شجر و حجر سب آپ کے حکم کے غلام تھے ۔
بالآخر ۲ ھ رمضان المبارک کی ۱۷ تاریخ جمعہ کے مقدس دن کی صبح صادق آقا نے اپنے محبوب غلاموں کو الصلاۃ خیر من النوم کے پیارے جملے سے پکارا ۔ وہ جو خدا کے سلائے بڑی گھری نیند سو رہے تھے بلاشبہ ان کا سونہ بھی عبادت تھا انہوں نے آقا کی ایک آواز سنی تو ایسے اٹھے جیسے سوئے ہی نہ تھے ضرورت سے فارغ ہو کر صف بستہ رسول کے دربار میں حاضر ہو گئے اور خدا تک پہنچنے والے رسول نے اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ اپنے غلاموں کو رب حقیقی کے دربار میں حاضر کر دیا ۔۔
نماز فجر ہوئ ،
کیا عجیب نماز ہوگی یہ کہ سجدے کرنے والے سجدوں ہی کی حفاظت کے لئے سر پہ کفن باندھے کھڑے ہیں ،
کتنی محبت ہے ۔ ان کو سجدوں سے کہ جھکنے والے سروں کو کٹانے کے لئے تیار ہیں تاکہ قیامت تک سجدے ہوتے رہے، آج ہمارا کیا حال ہم بھی اسی نبی کے کلمہ پڑھنے والے ہیں ہم بھی اسی بنی کی ناموس پہ مر مٹنے والے ہیں لیکن ہمارا ذوق شہادت کہاں غائب ہو گیا آج ہمیں مسجدوں سے آتی صدائیں کیوں بیدار نہیں کرتی ہے ۔۔۔۔
افسوس ہم نے کیا کیا ؟
خیر نماز ہوئ دعاء ہوئ سب نے مل کر رو رو کر وہ مانگا جس کی آج سب سے زیادہ ضرورت تھی ۔ جو مانگ رہے تھے اس کا وعدہ پہلے ہی ہو چکا تھا ۔ رسول تو یہ بھی بتا چکے تھے کہ کون کہاں مرے گا ۔ لیکن پھر بھی دعاء کی اور خوب کی کہ مانگتے رہنا عبدیت کی شان ہے ۔ معبود مانگنے والوں سے بہت خوش رہتا ہے اس کے دربار میں بھیکاریوں ہی کی عظمت حاصل ہے ۔۔
نماز سے فارغ ہو کر آقا نے غلاموں پہ ایک ایسی مشفقانہ نظر ڈالی کہ ہر عاشق متوالا ہو گیا اور پھر آپ نے اسلام میں جہاد کی ضرورت مجاہدین کی فضیلت بیان فرماتے ہوئے شہید ہونے والوں کو ابدی زندگی اور یقینی جنت کا مژدہ سنایا تو ہر ایک ایسا بیتاب و بے چین نظر آ رہے تھے جیسے جنت نظروں کے سامنے ہے ۔۔۔ اللہ اکبر ۔
بالآخر ۔۔ اصول جنگ کے مطابق حضور علیہ السلام نے اپنے مختصر و باوقار نورانی لشکر کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا ۔ بعدہ آپ نے لشکر اسلام کو صفیں بنانے کا حکم دیا ۔
دونوں لشکر ایک دوسرے سے قریب ہوئے تاریخ اسلام میں حق و باطل کے سامنے یہ پہلا موقع اور عجب منظر تھا مسلمان خدا کا شکر ادا کر رہے تھے کہ پندرہ سال کی قلیل مدت میں خدا نے ان کو اتنی ہمت جرآت عطا فرما دی کہ آج وہ ظالموں سے آنکھیں ملائے ان کا سر کچلنے کے لئے تیار کھڑے ہیں اب نہ کسی کا رعب ہے نہ ڈر
یہ کل تین سو تیرہ ہی تھے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور باطل کا سر کچلنے کی قوت رکھتے تھے ۔
لیکن آج ہم کروڑوں ہیں باطل قسم قسم کے منصوبے قائم کر چکے ہیں دن بدن ہمیں آزادی سے غلامی کی جانب کفار کھینچ کر لے جا رہے ہیں لیکن ہم اپنے گھروں میں بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ غیبی مدد ہم پہ کی جائے گی ۔
تاریخ آپ کے سامنے ہے خیال رہے ۔۔ غیبی مدد نہ اسپین کے وقت آئی, نہ خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لئے آئی, نہ اسرائیل کا قیام روکنے کے لئے آئی, نہ بابری مسجد کے وقت آئی, نہ عراق اور شام کے وقت آئی, نہ میانمار کے وقت آئی, نہ گجرات کے وقت آئی، نہ کشمیر کے لئے آئی۔
پھر بھی گھروں اور مسجدوں میں بیٹھ کر غیبی مدد کی صدا ؟
غیبی مدد جنگ بدر میں آئی۔ جب 1000 کے مقابلے میں 313 میدانِ جنگ میں اُترے۔
غیبی مدد جنگ خندق میں آئی جب اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پّیٹ پر 2 پتھر باندھے اور خود خندق کھودی اور میدانِ جنگ میں اُترے
غیبی مدد افغانستان میں آئی۔ جب بھوکے پیاسے مسلمان بے سرو سامانی کے عالم میں میدانِ جنگ میں اُترے۔
دنیا کا قیمتی لباس پہن کر, مال و زر جمع کر کے, لگژری ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر, جُھک جُھک کر لوگوں کے ہاتھ چومنے کی خواہش لے کر, لوگوں کی واہ واہ کی ہنکار کی خواہشات لئے مسجدوں کے ممبروں پر بیٹھ کر بد دعائیں کر کے غیبی مدد کے منتظر ؟
طاغوت کے نظام پر راضی اور پھر غیبی مدد کے منتظر ؟
اللہ کی زمین پر اللہ اور اُس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے بجائے صرف نعت خوانی, محفلِ میلاد یا تسبیح کے دانوں کو دس لاکھ بیس لاکھ گھما کر غیبی مدد کے منتظر ؟
آفاقی دین کو چند جزئیاتِ عبادت میں محصور و مقید کر کے غیبی مدد کے منتظر ؟
مسلمانوں کو مجاہد کے بجائے مجاور بنا دینے کے بعد غیبی مدد کے منتظر ؟
جہاد فی سبیل اللہ اور جذبہ شہادت سے دُور رہ کر اور دُور رکھ کر مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و جبر اور مصائب و مشکلات دیکھ کر
اللہ دشمن کو غرق کر دے.
اللہ دشمن کو تباہ و برباد کر دے.
یا اللہ مظلوموں کی مدد فرما.
یا اللہ دشمنوں کو ہدایت عطا فرما دے اور اگر اُن کے نصیب میں ہدایت نہیں تو انہیں غرق کر دے.
جیسی بددعاؤں پر اکتفاء کر کے سکوت اختیار کر لینے اور سکون سے نوالہ حلق سے نیچے اُتار کر پیٹ بھر بھر کر گہری نیند سونے والے غیبی مدد کے منتظر ؟
یعنی سب کچھ اللہ کے ذمہ لگا کر اور خود کنارہ کشی اختیار کر کے غیبی مدد کے منتظر ؟
بالآخر کفار قریش یہ منظر دیکھ کر ہی جلے بھنے جا رہے تھے ۔ کہ کل انہوں نے جن کی گردنیں دبا رکھی تھی آج وہ ان کے سینوں پر سوار ہونے والے ہیں ۔ کل تک جو مظلوم تھے آج وہ قیامت تک کے لیے مظلوموں کا سہارا بن کر ظالموں کے مقابلہ پر ڈٹے ہوئے ہیں
کیا عجب منظر تھا جب حضرت ابو بکر نے اپنے بیٹے عبد الرحمن کو دیکھا تو تلوار تان کر آگے بڑھے ۔ حضرت حذیفہ نے اپنے باپ عتبہ کو دیکھا تو سر قلم کرنے کے لئے بے تاب ہو گئے ۔
بھائ ۔ بھائ کا قتل کر دینے کے لئے تیار کھڑا تھا ۔
اس منظر کو دیکھنے والوں یہ نہ سوچنا کہ اسلام نے بھائ کو بھائ سے باپ کو بیٹے سے جدا کر دیا ۔ ایک قبیلہ ایک رنگ ۔ ایک زبان کے لوگوں کو باہم ٹکرا دیا ۔
نہیں ایسا نہیں بلکہ اسلام نے تو صلا رحمی کی بے حد تاکید فرمائی ۔ قاطع رحمی کو جہنم قرار دیا ۔
بس اتنی بات ہے کہ اسلام تمام تعلقات کا مرکز و سر چشمہ اللہ و رسول کو قرار دیتا ہے ۔ وہ سب بھائ ہیں جس کا تعلق اللہ و رسول سے ہے ایک قبیلہ کے ہوں یا مختلف قبائل کے ایک رنگ یا مختلف رنگ ہوں ایک زبان یا مختلف زبانیں بولتے ہوں ۔ اسلام نے عصبیت کے تمام بتوں کو چکنا چور کر ڈالا اسی لئے جسکا تعلق اسلام سے نہ ہو اہل اسلام کا اس سے کوئ رستہ نہیں ۔ جو خدا کا باغی ہے وہ مسلمان کا ساتھی کب ہو سکتا ہے وہ غلام رسول کا دوست کب ہو سکتا ہے ۔ یہ منظر تو بدر میں دیکھایا گیا ۔ کہ ابو بکر ایک حبشی غلام بلال کو تو گلے لگاتے ہیں مگر اپنے جگر گوشے کو دیکھ سر قلم کرنے کو بے چین ہو جاتے ہیں ۔۔۔
جنگ ہوتی رہی ۔ ایک ایک پھر دو دو پھر تین تین ۔ بالآخر کفار نے نظام جنگ توڑ دیا تھا ضوابط و اصول کی پابندی ختم کر دی اور اب جدھر سے چاہتے جہاں سے چاہتے حملہ کرتے تیر برساتے تلواریں لہراتے ۔ بالآخر کفار کو شکست کا سامنا منہ لگا اور اسلام کو فتح و نصرت ہاتھ آئی ۔ اور یہ اللہ کا وعدہ بھی تھا ۔۔
دیکھا آپ نے 1000کے مقابلے میں محض تین سو تیرہ ہی تھے اور کفار جنگ کے اسلحے سے بھی مزین تھے جب کے اسلامی لشکر کے پاس گنے چنے ہتھیار ۔
لیکن ان کے پاس اللہ و رسول کا یقین تھا پختہ ایمان تھا ۔
آج ہمیں مٹانے کی سازشیں چل رہی ہے جب کہ آج ہماری تعداد حد شمار سے باہر ہے لیکن ہمیں اللہ و رسول پہ یقین کامل نہیں میرا ایمان پختہ نہیں ۔۔۔
آج بھی ہو گر ابراھیم سا ایماں پیدا ۔۔۔
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا ۔۔۔۔
جاگو مسلمانوں جاگو ۔۔۔۔۔۔۔
تم اپنے ماضی کو پڑھو ۔۔
تو جو مؤمن ہے تو پھر کثرت باطل سے نہ ڈر
بدر میں جس نے مدد کی وہ خدا آج بھی ہے
الرضا نیٹ ورک کو دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ (۲)جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں:
جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!! تحریر:جاوید اختر… Read More
۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا… Read More
عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان… Read More
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں! از:مفتی مبارک حسین مصباحی استاذ جامعہ… Read More
انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت انسانی زندگی خوشی اور غم کے احساسات… Read More
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!! ڈاکٹر ساحل شہسرامی کی رحلت پر تعزیتی تحریر آج… Read More