ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ: ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺴﮑﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﺭﻭﺍﺑﻂ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﻻﺯﻣﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻗﻮﻡ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ ﮨﻮ۔ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺧﺎﺹ ﻗﻮﻡ ﯾﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻧﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﯾﺎ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ،ایک پاکیزہ معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ اس میں رہنے والے افراد کا وہ رویہ اور طرزِ عمل ہوتا ہے، جس میں اعتدال و توازن، ہمدردی، بھائی چارگی، اخوت و محبت ،انسانی حقوق کی پاسداری، اور بالخصوص جان مال عزّت و عصمت کا تحفظ یقینی پایا جائے ۔ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہونے والے ایک صالح معاشرے کا ترقی پذیر ہونا ایک عقلی تقاضا ہے کیوں کہ جس معیشت ،معاشرت ،اور قانون و ثقافت ،تہذیب و تمدن کی اساس حقوق و فرائض کی ادائیگی پر منحصر ہوگی، وہ پس ماندہ مفلس اور اخلاقی بیماریوں دھوکا دہی جھوٹ فریب ،مکاری، عیاری چوری، بے حیائی اور فحاشی کا مرکز نہیں ہو سکتا ۔امربالمعروف بر، خیر ، فلاح ،حیا، نیکی، ایفائے عہد، معاشی اخلاقی اور قانونی پیمانوں کا احترام لازم و ضروری ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے باوجود صدیوں تک مسلم معاشرہ اپنی اخلاقی برتری ، ذمہ دارانہ طرزِ عمل ، حیا اور ایمان داری کے لیے مثال بنا رہا۔ اگست 1947ء/ میں سیاسی آزادی کے حصول سے قبل بازار میں اگر کبھی کسی مسلمان گراہک نے ایک ہندو ساہوکار سے کہا کہ ’فلاں دوکان پر اس شئی کی قیمت اتنی کم ہے تو اس نے جواب میں صرف ایک ہی بات کہی ، میاں آپ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہو گا آپ اسی قیمت پر یہ چیز لے سکتے ہیں۔ گویا مسلمان کی پہچان سچائی اور امانت داری سے منسلک تھی، جیسا کہ حدیثِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے واضح و تابناک ہے کہ ’’جس میں امانت نہیں ، اس میں ایمان نہیں، (مسند احمد، 4/271، حدیث:12386)
لیکن یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی و جغرافیائی آزادی کے حصول کے ساتھ ہی ہم نے اپنے روایتی رویوں اور طرزِ عمل سے بھی، جو ہماری پہچان تھے،آزادی حاصل کر لی اور گذشتہ دو دہائیوں میں اس کے زہریلے پھل ہمارے سامنے آنے لگے ، ملک کے ہر حصے میں بچوں کے ساتھ زیادتی ، خواتین کی بے حُرمتی ، خودکشی، قتل و غارت گری، ظلم و تشدد اور نشہ آور اشیا کے کاروبار اور بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ شیطانی مافیاؤں کا وجود پکار پکار کر ہمارے قومی ضمیر سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس غیر ذمے دارانہ بلکہ مجرمانہ غفلت کا انفرادی و اجتماعی احتساب کرتے ہوئے ان اسباب کو دُور کیا جائے، جو ان شرمناک واقعات کے پیچھے کار فرما ہیں ۔ویسے تو آج ہمارے معاشرے میں بربادی کے کئی اسباب و عامل کار فرما ہیں، مگر میرے مطالعے کی روشنی میں ان میں سب سے اہم اور خاص اسباب اور اسکے عوامل مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) گھر اور خاندان •
ان اسباب میں سب سے اوّلین چیز والدین کی غفلت اور ذمہ داری سے فرار ہے۔ معاشی دوڑ میں گرفتار شوہر اور بیوی اپنے آپ کو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان (دادا، دادی، چچا ، تایا ، نانا، ماموں ، خالہ و دیگر )سے پہلے ہی آزاد کر چکے ہیں۔ پھر دو تنخواہوں کی طلب میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ سکون کے ساتھ موقع اور محل کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں یا ان کے ساتھ کچھ وقت چہل قدمی کرتے ہوئے یا انھیں کسی قریبی مسجد تک لے جاتے ہوئے یہ پوچھ سکیں کہ انھوں نے اپنے سکول یا کالج میں دن کیسے گزارا،دوستوں سے کیا بات چیت کی؟ کلاس میں ان کا درجہ اوّلین پانچ طلبہ میں ہے یا وہ سب سے آخری درجے پر ہیں؟ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اخلاقی نصیحت تو ایک طرف، اُن معاملات پر بھی بات کا وقت نہیں ملتا کہ جن پر والدین اپنی محنت کی کمائی صَرف کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر رہے ہیں ۔ خاندان کا نظام سکڑ کر ماں، باپ اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے اور ان برکتوں سے محروم ہو چکا ہے، جو گھر میں دادا، دادی ،نانا نانی اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے دن رات رابطے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا تھا ۔
(2) تعلیم گاہ •
جو تعلیمی نظام ہم نے ورثے میں انگریز سامراج سے پایا تھا اور جس کا مقصد ہی ہماری نئی نسلوں کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کاٹ کر مغرب کی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا، آزادی ملنے کے باوجود نہ صرف اسے جاری رکھا ہے بلکہ اسے بہت زیادہ بگاڑ بھی لیا ہے، حالانکہ اُسے درست کر کے اسلامی، تہذیبی،قومی اور عصری ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔چنانچہ یہ تعلیمی ادارے ایک دانشور کے الفاظ میں تعلیم گاہوں سے زیادہ قتل گاہیں ثابت ہو رہے ہیں۔ اسکولوں کے نصاب میں مغرب سے مستعار لی گئیں کتب جو لادینی ذہن پیدا کرتی ہیں، ہم نے ان کی متبادل کتب تیار کرنے کی کوئی فکر نہیں کی، نہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، نہ طلبہ و طالبات کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ اخلاقی رویوں سے روشناس کرایا اور یہ سمجھ لیا کہ ہر پیدائشی مسلمان ایمان داری، ایفائے عہد ، شرم وحیا اور صداقت و امانت پر خود بہ خود عمل کرنے والا ہو جائے گا۔ایک غلط مفروضے پر قائم توقعات کا نتیجہ کرپشن ،بے ایمان، بے شرم، امانت میں خیانت کرنے والا، دھوکا دہی ،اپنے مال کو ناجائز استعمال کرنے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا؟
(3) ابلاغ عامہ سوشل میڈیا •
یہی شکل ہمارے ابلاغ عامہ کی ہے، خصوصیت سے گذشتہ 10/ برسوں میں آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے نام پر جس طرح تھوک کے بھاؤ ٹی وی چینل، سوشل میڈیا، یوٹوبر کاروباری بنیادوں پر حکومت اور سرمایہ داروں کی سرپرستی میں قائم ہوئے اور انھوں نے ہر جانب سے مغربی اور ہندو تہذیب و ثقافت، الحاد و دہریت اور جنسی مساوات کے نام پر جنسی اخلاقیات کی پامالی کو اپنا مقصد قرار دے کر نوجوانوں بچوں و بچیوں کو اپنا ہدف بنایا۔ اور ٹک ٹاک سے لے کر فیس بک پر رقص کرنا، جسم کی نمائش کرنا یہ صرف تفریح کے پروگراموں ہی کا خاصہ نہیں، بلکہ دُکھ کی بات یہ ہے ان کی لپیٹ میں پورا معاشرہ آچکا ہے، نوجوان بچے بچیاں ٹک ٹاک، ریلز بناکر کامیابی کے شارٹ کٹ راستے پر چل رہے ہیں، ہمارے نوجوان، رات دن گیم پب جی، فری فائر وغیرہ کھیل کر گذار رہے ہیں، ڈراموں میں مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط ، جسم کے خدوخال کی نمائش اور اشتہارات میں عورت کا تجارتی استحصال ہر ٹی وی چینل، ویڈیو کی ضرورت بن گیا ہے۔اس ماحول میں اگر ایک شخص خود کو پڑھا لکھا ، نیم مسلم معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے وابستہ سمجھتے ہوئے، کسی ایسے ہی طبقے کی خاتون سے غیر اخلاقی تعلقات قائم کرتا ہے اور پھر اس خاتون کو اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیتا ہے، تو جہاں وہ اس گھناؤنے جرم کا
ذمیدار ہے، وہاں دوسری طرف ان تمام عوامل پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جو اس شخص کو اخلاقی بے راہ روی کی طرف لے جانے پر اُکساتے رہتے ہیں،یعنی تعلیم ، والدین کی عدم توجہی ، ابلاغِ عامہ اور خصوصاً علما، مشائخ اور اساتذہ کی طرف سے عصری مسائل و معاملات پر خاموشی۔ قرآن کریم نے بنی اسرائیل اور نصاریٰ کی گمراہی و فحاشی میں مبتلا ہونے کا ایک سبب ان کے علماء اور راہبوں کو قرار دیا، جنھوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ لوگ حرام کھا رہے ہیں ، حرام کا ارتکاب کررہے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا ہیں ، مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی اور اس طرح عملاً بُرے اعمال میں ان کی مدد کی۔
(4) بچوں میں دینی تعلیم و تربیت کا فقدان•
اِن دنوں ہم عصری تعلیم کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں کہ بچوں اور بچیوں کو بالغ ہونے کے باوجود اس لئے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کروایا جاتا، روزہ نہیں رکھوایا جاتا اور قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرائی جاتی کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحان کی تیاری کرنی ہے وغیرہ وغیرہ، یعنی دنیاوی تعلیم کے لئے ہر طرح کی جان ومال اور وقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ جو طلبہ عصری درس گاہوں سے پڑھ کر نکل رہے ہیں اُن میں سے ایک بڑی تعداد دین کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتی ہے۔ یقیناً ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر بنائیں لیکن سب سے قبل ان کو مسلمان بنائیں۔ لہٰذا اسلام کے بنیادی ارکان کی ضروری معلومات کے ساتھ حضوراکرمﷺکی سیرت اور اسلامی تاریخ سے ان کو ضرور بالضرور روشناس کرائیں۔ اگر ہمارا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر یا لیکچرار بنا لیکن شریعت اسلامیہ کے بنیادی احکام سے ناواقف ہے تو کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمیں جواب دینا ہوگا۔قرآن و حدیث میں علم کی اہمیت پر بار بار تاکید فرمائی گئی ہے، حتی کہ پہلی وحی کا پہلا لفظ "اقرأ” بھی اسی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ مگر عصر حاضر میں ہم نے اِن تمام آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ کا تعلق عملی طور پر خالص دنیاوی تعلیم یعنی عصری سے جوڑ دیا ہے حالانکہ قرآن و حدیث میں جہاں جہاں بھی علم کا ذکر آیا ہے، وہاں وضاحت موجود ہے کہ اُسی علم سے دونوں جہاں میں بلند واعلیٰ مقام ملے گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو، جو تقدیر پر ایمان کی تعلیم دیتا ہو اور جس کے ذریعہ انسان اپنے حقیقی خالق و مالک و رازق کو پہچانے ،اور ظاہر ہے کہ یہ کیفیت قرآن و حدیث اور اِن دونوں علوم سے ماخوذ علم سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
(5) بے پردہ خواتین و بچیاں•
موجودہ دور میں انتہائی چست لباس کا استعمال اور سر کو مکمل نہ ڈھانپنا سینہ پر چادر کا نہ ہونا گناہ کو براہ راست دعوت دینے اور شیطان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے برابر ہے۔ پردہ ہر دور میں عورت کے لئے مکمل تحفظ اور مکمل کامیابی کی ضمانت رہا ہے عورت کے لئے اپنے سر اور چہرہ کو چادر میں چھپانا لازم ہے آج کے جدید دور میں پردہ کی بہت سی اقسام مثلاََ برقع، اسکارف، موزے،دستانے اور دیگر لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ان تمام صورتوں میں عورت کی سہولت کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے۔ اپنی بچیوں کو زیب و زینت کے ساتھ بے پردہ گھومنے کی اجازت نہ دی جائے ، [عَنْ عَائِشَة رَضِیَ اﷲُ عَنْها قَالَتْ کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ مُحْرِمَاتٌ فَاِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ اِحْدَانَا جِلْبَابَھَا مِنْ رَأْسِھَا عَلٰی وَجْھِھَا فَاِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ] (سنن ابی داود:۱۸۳۳)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے’وہ فرماتی ہیں کہ(حج کے دوران) قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں، پس جب وہ ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم اپنے جلباب اپنے سر سے اپنے چہرے پر لٹکالیتی تھیں اور جب وہ قافلے آگے گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے کو کھول دیتی تھیں۔”
حالانکہ حالت احرام میں چہرہ کا کھولنا واجب ہے لیکن ایک عمومی واجب پر عمل کرنے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی احرام کے واجب کو ترک کردیتی تھیں، ورنہ اگر چہرہ کا پردہ عام حالت میں صرف مستحب ہوتا تو استحباب کے لئے صحابیات اور خاص طور سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ترک واجب نہ ترک کرتیں۔ لہذا معاشرے کی بہتری اور اسلام کی سربلندی کیلئے ہم سب کو اپنی اپنی جگہ پر اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ والدین بچوں کے لباس اور گفتگو پر خصوصی توجہ دیں تو کافی حد تک ان مسائل کاحل ممکن ہے۔
(6) رشوت خوری •
اپنے جائز یا ناجائز مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اہل منصب کو روپئے یا کوئی دوسری چیز پیش کرنا رشوت کہلاتا ہے۔موجودہ دور میں اس لین دین کو ہدیہ یا نذرانہ کاخوبصورت نام دیا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ رشوت ہے رشوت کی مذمت اور اس کے لینے اور دینے والوں پر اللہ کے رسولﷺنے بڑی سخت وعیدیں کی ہیں، چنانچہ فرمان رسول ہے
عَن عَبدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ . حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے شوت لینے اوردینے والے پر لعنت فرمائی ہے(سنن أبو داود :3580 ، القضاء – سنن الترمذي :1337، الأحكام – سنن ابن ماجه :2313 ، الأحكام) دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔(الطبرانی الکبیر – مجمع الزوائد :4/199، بروایت ابن عمرو )
اسلام کی نظر میں جس طرح رشوت لینے اور دینے والا ملعون اور دوزخی ہے اسی طرح اس معاملہ کی دلالی کرنے والا بھی حدیث رسول ﷺکی روشنی میں ملعون ہے۔صحابی رسول حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے رشوت لینے اور دینے والے اور رشوت کی دلالی کرنے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ قاضی کا کسی سے رشوت لے کر اس کے حق میں فیصلہ کرنا کفر کے برابر ہے، اور عام لوگوں کا ایک دوسرے سے رشوت لینا حرام ناپاک کمائی ہے۔ ،رشوت دینے کی گنجائش کب ہو سکتی ہے؟ ایک شخص کاحق ہے کہ جو اسے ملنا چاہیے،رشوت دیئے بغیر نہیں ملے گا،یا اتنی دیر سے ملے گاجس میں اسے غیر معمولی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔اسی طرح اس کے اوپر کسی فرد کی طرف سے ظالمانہ مطالبات عائد ہوگئے ہیں اور رشوت دیئے بغیر ان سے خلاصی مشکل ہے تو امید ہے کہ رشوت دینے والا شخص گناہگارنہ ہوگا،البتہ دیانت شرط ہے جس کی ذمہ داری خود اس پر ہوگی۔
(7) سود یعنی انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ•
سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، جس کے حرام ہونے پر پوری امت مسلمہ متفق ہے۔ سب سے پہلے سمجھیں کہ سود کیا ہے؟وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپئے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو "ربا” اور "سود”کہلاتا ہے۔جس وقت قرآن کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین عام ،متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لئے قرض لے رہا ہو یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لئے 100/ روپئے بطور قرض اس شرط پر دئے کہ وہ 125/ روپئے واپس کرے، تو یہ سود ہے۔بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے وہ بھی سود ہے آج کل سود پر رقم دینا عام ہوگیا ہے اور اس کی حرمت سے عوام بلکہ خاص مسلمان بھی چشم پوشی کر رہے ہیں،بعض لوگ اس کو منافع کے نام پر وصول کر رہے ہیں ،بہر حال فی زمانہ سود کا چلن بھی عام ہو گیا ہے اور اب اس کو لعنت یا حرام نہیں سمجھا جارہا ہے بلکہ مختلف بہانوں سے اور مختلف نام دے کر اس کا استعمال ہو رہا ہے۔
(8 حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی •
عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: ” إن المفلس من امتي ياتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، وياتي قد شتم هذا، وقذف هذا، واكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل ان يقضى ما عليه اخذ من خطاياهم، فطرحت عليه ثم طرح في النار:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (ان حقوق کے بقدر)
والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔( سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2418]
جن کبیرہ گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، مثلاً نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی، ان میں کوتاہی کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پراللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا، (ان شاء اللہ)لیکن اگر گناہوں کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا یا کسی شخص کو تکلیف دی یا کسی کو گالی دی یا کسی شخص کا حق مارا تو قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا حق ہے، اس کا حق ادا کیا جائے یا اس سے حق معاف کروایا جائے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے لئے رجوع کیا جائے۔
(9) معاشرے کے ہر ایک فرد کا کردار
عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” الدين النصيحة ” ثلاث مرار، قالوا: يا رسول الله، لمن؟ قال: ” لله، ولكتابه، ولائمة المسلمين، وعامتهم:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”دین سراپا خیر خواہی ہے“، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں) اور عام مسلمانوں کے لیے“۔
(سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1926]
عربی میں نصیحہ سے صرف خیرخو اہی ہی مراد نہیں بلکہ صحیح بنیادوں پر تعلق استوار کرنا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی کتاب اور اس کے رسول سے خیرخواہی کے معنی ان پر حقیقی ایمان، ان سے گہرا تعلق، اور اس ایمان اور تعلق کے تقاضوں کی صحیح ادائیگی ہے۔ یہ ہر فرد کے لیے لازم ہے جو مسلمان ہونے کا دعوے دار ہے۔ سب سے بنیادی چیز اللہ کی ہدایت اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں خود سادہ زندگی گزارنا اور معاشرے اور زندگی کے پورے نظام کی اس کے مطابق تشکیل کو اپنی زندگی کا مقصد اور سعی و جہد کا محور بنانا ہے۔ قیادت سے خیرخواہی جہاں حق بات اُن تک پہنچانے، صحیح مشورہ دینے، معروف میں اطاعت کرنے پر مشتمل ہے، وہیں اصلاحِ احوال کے لیے ان میں غلطی اور ناروا رویے پر تنقید و احتساب بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ اور عامۃ الناس کے لیے خیر خواہی امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے تاکہ معاشرہ اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہوسکے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد، دُنیا اور آخرت میں ہر شخص کے لیے اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہی کا اصول مقرر فرماتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت صحت مند احتساب، قانون کی حکمرانی، بے لاگ انصاف، خیر کی حوصلہ افزائی اور شر کی سرکوبی ہے۔ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے اس ارشاد میں اُمت کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے:قَالَ : اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ،فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَّھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰٓی اَھْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْھُمْ ، وَالْخَادِمُ فِیْ مَالِ سَیِّدِہٖ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ اَلَا فَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ (بخاری، کتاب الاستقراض، باب العبد، راعٍ فی مال سیدہ، حدیث:۲۳۰۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! کہ تم میں سے ہر شخص چرواہا ہے،اور تم میں سے ہر ایک شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں باز پُرس ہوگی۔ وہ امام جو لوگوں پر نگران ہے، اس سے رعیت کے متعلق بازپُرس ہوگی، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگران ہے، اس (عورت) سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے تو اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ سن لو کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔
قارئین کرام : یہ تو چند چیزیں ہم نے ذکر کی ہیں، اگر تفصیل سے معاشرے کی بربادی پر نظر کی جائے تو دفتر کے دفتر تیار ہوجائیں۔