این آرسی پر حکومت کا آمرانہ رویہ

شہریت ترمیمی بِل کے ذریعے غیرمسلم دراندازوں کو شہریت دینے کی غیر دستوری

مولانا غلام مصطفیٰ نعیمی :مدیراعلیٰ السواد الاعظم دہلی

لیجیے! بلی تھیلے سے باہر آگئی۔جس این آر سی کا مدعا چوپال سے لیکر چوراہوں اور چائے خانوں تک چھایا ہوا ہے۔اسی پر بولتے ہوئے ملک کے وزیر داخلہ امِت شاہ نے کولکاتہ کی ایک انتخابی ریلی میں ہندو گُھس پیٹھیوں کو بھارتی شہریت دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ہندو شرنارتھی(گُھس پیٹھیے)کو ملک چھوڑنا نہیں پڑے گا،مودی حکومت ایسے لوگوں کو شہریت ترمیمی بل (Citizenship Amendment Bill) کے ذریعے بھارت کی شہریت دلائے گی اور کسی بھی ہندو،بودھ،سِکھ،جین پارسی اور عیسائی کو ملک چھوڑنے کی نوبت نہیں آئے گی،خصوصاً کسی بھی ہندو شرنارتھی(گُھس پیٹھیے) کو بھارت چھوڑنا نہیں پڑے گا۔
وزیر داخلہ کو یہ بیان اور یقین دہانی اس لیے کرانا پڑی کہ پچھلے دنوں جب آسام این آر سی کے فائنل ڈرافٹ کی لسٹ آئی تو "بنگلہ دیشی مسلمانوں” کا نام لیکر دراندازی کا ہوّا کھڑا کرنے والوں کے پیروں سے زمین کھسک گئی کیوں کہ ملکی شہریت کے رجسٹر سے باہر ہوجانے والے 19 لاکھ افراد میں سے 13 لاکھ افراد ہندو نکلے جبکہ مسلمانوں کی تعداد محض 6 لاکھ ہی نکلی. پہلے شرپسند یہ افواہ پھیلاتے تھے کہ آسام میں 70 لاکھ سے زیادہ بنگلہ دیشی درانداز موجود ہیں لیکن حقیقت سامنے آتے ہی پروپیگنڈا گینگ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکا ہے ۔اب تو حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ آسام بی جے پی کے کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ میں یہ درخواست لگائی ہے کہ این آر سی پروگرام کو یکلخت منسوخ کردیا جائے۔این آرسی پر منہ کی کھانے کے بعد حکومت نے دوسرے منصوبے پر کام شروع کیا جس کے تحت شہریت ترمیمی بِل کا راستہ نکالا گیا۔
اصل میں اس معاملے پر حکومت کے پاس پہلے ہی سےپلان اے اور پلان بی دو منصوبے تھے:
پلان اے(A) این آرسی۔
پلان بی(B) شہریت ترمیمی بل۔
پلان اے(A) کے تحت طے کیا گیا کہ این آرسی کے فائنل ڈرافٹ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد بھارتی شہریت سے خارج ہو جائے ۔جوکہ تمام تر سازشوں کے باوجود نہیں ہوسکی۔
پلان بی(B) کے تحت شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہنے یا گھس پیٹھ کرکے داخل ہونے والے ہندوؤں کو شہریت کے قانون” میں ترمیم کرکے شہریت دی جائے۔ وزیر داخلہ کا حالیہ بیان اسی پلان بی کاحصہ ہے۔
این آر سی معاملے میں منہ کی کھانے کے بعد جب ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم ہندوؤں میں خوف وہراس پھیلا توحکومت نے اپنے پلان بی(B) پرکام شروع کیا۔پلان (B) شہریت قانو ن میں ترمیم کرکے غیرملکی دراندازوں کو بھارتی شہریت دینا تھا۔اسی منصوبے کے تحت 2016ء میں Citizenship Amendment Bill یعنی شہریت ترمیمی بِل کو پارلیمینٹ میں پیش کیا گیا اور اپنی اکثریت کی بنیاد پر پاس بھی کرا لیا گیا۔لیکن یہ بِل راجیہ سبھا میں منظور نہیں ہوسکا اور کالعدم ہو گیا۔دوبارہ اقتدار ملنے کے بعد 8؍ جنوری 2019ء کو ایک بار پھر یہ بِل لوک سبھا میں پیش کیا اور منظور بھی کرا لیا. لیکن ابھی راجیہ سبھا میں پیش نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ راجیہ سبھا میں ابھی بی جے پی اقلیت میں ہے اور بغیر دیگر پارٹیوں کو سادھے راجیہ سبھا میں منظوری مشکل ہے۔
کیا ہے این آرسی؟
این آرسی(National Register of Citizens) کا مخفف ہے جس کا مطلب ہوتاہے قومی رجسٹر برائے شہری۔
این آرسی کا سلسلہ راجیو گاندھی حکومت کے زمانے میں آسام کے لیےمتعارف کرایا گیا تھا۔آسام میں ایک شدت پسند تنظیم آسو (AASU) آل آسام اسٹوڈینٹس یونین(All Asam Students Union) سے راجیوگاندھی حکومت نے 1985ء میں ایک معاہدہ کیا تھا۔اس معاہدے کے تحت یہ طے پایا کہ ایک نیشنل رجسٹر تیار کرایا جائے گا۔ جن افراد کے نام اس رجسٹر میں درج ہوں گے وہی آسامی اور ہندوستانی شہری تسلیم کیے جائیں گے اور جن افراد کے نام اس رجسٹر میں درج نہیں ہوں گے وہ غیر ملکی مانے جائیں گے۔اسی معاہدہ کو آسام معاہدہ کہا جاتا ہے۔جسے مین اسٹریم میڈیا آسام ایکارڈ کے نام سے یاد کرتا ہے۔اس طرح پورے ملک میں پہلی بار شہریوں کی شناخت کے لیے کسی قومی رجسٹر کا آغاز کیا گیا۔لمبی جدوجہد کے بعد جب 2018ء میں اس کی لسٹ آئی تو اس میں 40 لاکھ لوگوں کے نام ملکی شہریت سے خارج قرار دئے گئے۔جس پر کافی ہنگامہ برپا ہوا۔اس وقت بی جے پی اور دیگر شدت پسندوں نے یہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایاکہ 40 لاکھ میں قریب 35 لاکھ مسلمان ہیں لیکن 2019ء میں جب فائنل لسٹ آئی تو منظر بالکل الگ تھا۔کل 19 ؍لاکھ لوگوں میں سے 13؍لاکھ ہندو، بھارتی شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے اور شرپسندوں کو منہ کی کھانا پڑی۔
شہریت ترمیمی بِل کیا ہے؟
یہ بِل بھارت کے شہریت قانون 1955ء میں ترمیم کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔اس قانون کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
اس بل کے تحت31؍ دسمبر 2014ء تک پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے 6؍ مذاہب کے لوگوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔وہ 6؍ مذاہب یہ ہیں:
1؍ہندو۔2؍جین۔3؍بودھ۔4؍سِکھ۔5؍پارسی۔6؍عیسائی۔ اس فہرست سے صرف مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔
پہلے بھارتی شہریت کے لیے ملک میں 12 ؍سال گزارنا ضروری تھا لیکن اس قانون میں یہ مدت محض6 سال کردی گئی ہے۔
بھارتی شہریت کے لیے ان لوگوں کے پاس قانونی دستاویز ہونا بھی ضروری نہیں، اگر وہ غیر قانونی طریقے سے بھی ملک میں داخل ہوئے ہیں تب بھی انہیں شہریت دی جائے گی۔
ان لوگوں کو شہریت دینے کے لیے مذہب کو بنیاد بنایا گیا ہے اس سے پہلے ملک میں شہریت کے لیے مذہب شرط نہیں تھا۔
شہریت ترمیمی بل پر غورکریں تو حکومت نے نہایت بد دیانتی اور مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس بِل پر کئی اعتراض وارد ہوتے ہیں:
اس بل میں شہریت کی بنیاد مذہب پر رکھی گئی ہے جو ملک کےسیکولر دستور کے سراسر خلاف ہے۔
دستور کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کے تحت آرٹیکل14؍(قانون کے نزدیک برابری کا حق) اور آرٹیکل 15؍(حکومت مذہب، نسل، ذات، صنف،زبان اور علاقے کی بنیاد پر شہریوں میں کوئی فرق نہیں کرے گی) کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
شہریت ترمیمی بل آسام معاہدہ کے بھی خلاف ہے جس میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ 24؍ مارچ 1971ء کے بعد ملک میں داخل ہونے والوں کوشہریت نہیں دی جائے گی۔
اس بل میں تین مسلم ممالک پاکستان افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والوں کے لئے شہریت کا التزام ہے۔اگر حکومت مظلوموں کی ہمدرد ہے تو اس فہرست میں برما،سری لنکا اور نیپال کو شامل کیوں نہیں کیا؟
شاید اس لیے کہ مسلم ملکوں کے مفروضہ ظلم وستم کا پروپیگنڈا کرکے یہاں کے ہندوؤں کو آسانی سے بے وقوف بنایا جا سکتاہے برما ونیپال کے نام سے نفرت پھیلانا ممکن نہیں تھا۔
این ڈی ٹی وی کے مشہور اینکر رویش کمار کا کہنا ہے کہ گُھس پیٹھیا ،گُھس پیٹھیا ہوتاہے چاہے ہندو ہو یامسلم، لیکن بی جے پی حکومت مسلم گُھس پیٹھیے کو تو گُھس پیٹھیا مانتی ہے لیکن ہندو گُھس پیٹھیے کو گُھس پیٹھیا ماننے تیار نہیں ہے ۔یہ تو ایسا ہی ہوا کہ اگر آپ کے گھر کوئی ڈاکو گھس آیا اور وہ مسلم ہوا تو آپ اسے جیل بھیجیں گے اور اگر وہ ڈاکو ہندو نکلا تو اسے اپنی جائداد کا وارث بنائیں گے۔
شہریت کے سلسلے میں ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل بھی مذہب نہیں بلکہ متعلقہ ملک میں پیدائش کو ضروری قرار دیتے تھے ،مینک یادو، دی پرنٹ پر اپنے کالم میں لکھتے ہیں:
دستورساز اسمبلی میں ہوئی چرچا میں حصہ لیتے ہوئے سردار پٹیل کہتے ہیں:
جدید دنیا میں نیشنلٹی کے بارے میں دو خیال پائے جاتے ہیں ایک وسیع النظری پر مبنی اور دوسرا تنگ نظری پر مشتمل۔ہم ساؤتھ افریقہ میں پیدا ہونے والے بھارتیوں کے لیے وہاں کی شہریت کا دعوی کرتے ہیں۔اس معاملے میں تنگ نظری درست نہیں ہے۔سردار پٹیل کی اس بات پر دستور ساز کمیٹی کے رکن راجیندر پرساد نے کہا تھا:
ہم وہاں کی شہریت کا دعوی پیدائش نہیں بلکہ وہاں بسنے کی بنیاد پر کرتے ہیں”
ان دونوں لیڈران کی باتوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے نزدیک شہریت کا معیار پیدائش اور رہائش ہے مذہب ہرگز نہیں۔مذہبی بنیاد پر شہریت کو سردار پٹیل نے تنگ نظری سے تعبیر کیا ہے لیکن موجودہ حکومت سردار پٹیل کو رول ماڈل ماننے کے باوجود ان کے نظریے کی خلاف ورزی پر آمادہ ہے۔اگر دنیا کے دیگر ممالک بھی شہریت کی بنیاد مذہب کو قرار دے دیں تو باہری ممالک میں آباد بھارتیوں کے سامنے کس قدر مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
ملی قیادت کا رول:
ملی قیادت میں دیوبندی قیادت تو پہلے ہی حکومت کے چرنوں میں سرِ نیاز خم کرچکی ہے ۔جمیعۃ(م) کے ناظم عمومی مولانا محمود مدنی نے شہریت ترمیمی بِل پر ایک نہایت ہی منافقانہ اور چاپلوسانہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے:
’’اگر کوئی ہندو غیر ملک سے ہندوستان آیا ہے تو حکومت چاہے تو اسے ہندوستانی شہریت دے دے، لیکن اگر کسی بھی ملک سے کوئی مسلمان ہندوستان آیا ہے تو اسے ہم ہندوستان میں قبول کرنے کے ليے ہرگز تیار نہیں ہیں، کوئی بھی مسلمان اپنا ملک چھوڑ کر میرے ملک میں کیوں آئےگا؟ مجھے ہرگز قبول نہیں، مجھے کوئی بھی مسلمان نہیں چاہیے، اگر کوئی مسلمان "گُھس پیٹھیا” بن کر آیا ہے تو اسے ہم سب کو مل کر نکالنا چاہیے، باہر ملک کا کوئی بھی مسلمان ہمیں ہندوستان میں نہیں چاہیے”
قارئین کرام !!
غور کریں کہ ان کو مسلمان کو کسی طور پر بھی قبول نہیں ہیں۔حکومت ہندو گُھس پیٹھیے کو شہریت دے، انہیں منظور ہے لیکن مسلم کو شہریت ملنا مولانا کو قطعی منظور نہیں شاید مولانا خود کو امت شاہ سے بڑا "دیش بھکت” ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
ایک طرف حکومت ہندو گُھس پیٹھیوں کو شہریت دینے کے لیے دستور میں ترمیم کرنے پر آمادہ ہے لیکن حکومت کی خوشامد میں مولانا اپنے ہی بھائیوں کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔
مولانا مدنی کو اتنا بھی شعور نہیں کہ "مہاجرت” کی بنیاد پر اگر وہ کسی مسلمان کو شہری تسلیم
کرنے تیار نہیں ہیں اگر یہی فارمولہ حکومت نے اپنا لیا تو خود مولانا کو ملک چھوڑنا پڑ جائے گا،کیوں کہ مولانا خود کو سید کہلاتے ہیں اور سید بالاتفاق عربی النسل ہیں۔اسی طرح قوم شیوخ،قوم ترک،قوم پٹھان جو خود کو فخریہ عربی ترکی اور افغانی نسلوں سے جوڑتے ہیں اگر مہاجرت کی بنیاد پر حکومت نے ان سب کو نکالنے کافیصلہ کرلیاتو کیا ہوگا؟
مولاناشاید یہ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو حکومت کی حمایت کے طفیل کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،لیکن جناب!!
ملک کے دیگر مسلمانوں کا توخیال فرمائیں یامحض راجیہ سبھاکی سیٹ کی خاطر قوم کومکمل تباہ کرنے چاہتے ہیں؟
آپ شاید یہ فراموش کر چکے ہیں کہ شدت پسندوں کے نزدیک اس ملک میں صرف یہیں کے باشندگان کو رہنے کاحق حاصل ہے غیرملکی افراد کو نہیں اسی لیے وہ مسلمانوں کی بڑی تعداد کو "بدیشی” کہتے ہیں۔آریوں کے مشہور لیڈر اور کانگریس کے پرانے کارکن سوامی ستیہ دیو نے کہا تھا:
اس ملک کی چپہ چپہ زمین بتاتی ہے کہ اس ملک میں ہندو تہذیب ہے
(اخبار تیج مورخہ۲۰ ،جون ۱۹۲۴ء کو بحوالہ ہندو حکمرانی کا ہولناک تجربہ ص ۳ مولاناعبد الحامد قادری بدایونی مطبع جید برقی پریس دہلی)
اس سے پہلے مولانا موصوف کشمیر کے مسئلے پر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ حکومت کی غیردستوری اور ظالمانہ کاروائی کی حمایت کرچکے ہیں اور حکومت کے ذریعے جنیوا کانفرنس میں استعمال ہوکر اپنی قوم فروشی کا ثبوت دے چکے ہیں۔آنجناب کے ساتھ ہی علما و مشائخ بورڈ بھی کشمیر جیسے سنگین مسئلہ پر آنکھیں بند کرکے حکومت کی حمایت کرچکا ہے نیز جنیوا کانفرنس میں مولانا مدنی کے ساتھ بورڈ کے جوائنٹ سیکریٹری سلمان چشتی نے یہ جتانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی کہ حکومتی چاپلوسی میں وہ بھی دیوبندی قیادت سے زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔
طبقہ دیوبند اور حلقہ مجاوراں کے بعد سب کی نگاہیں سنی علما ومشائخ کی جانب ہیں لیکن سنی علما ومشائخ اپنے اسلاف کی تعلیمات کے برعکس پراسرار طریقے سے خاموش ہیں حالانکہ ان کی یہ خاموشی عوام میں بدگمانیاں پیدا کر رہی ہے۔
کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں خاموشی ان کی مجرمانہ ہے
قائدین اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ خاموشی مسائل کاحل نہیں ہے۔براہ کرم اپنی عشرت گاہوں سے نکلیے اور قیادت کاحق ادا کیجیے ورنہ کل بروز قیامت رب تعالیٰ کے حضور ماخوذ اور جواب دہ ہوں گے۔

مزید پڑھیں:سیاسی تعصبات اورہندوستانی مسلمان

مزید پڑھیں:بھارت میں سب سے بڑی اقلیت کا تنگ ہوتا دائرہ حیات

مزید پڑھیں:اگر آپ کی یادداشت کمزور ہے تو یہ ۹ طریقے اپنائیں اور حیرت انگیز نتیجہ پائیں

 

 

alrazanetwork

Recent Posts

___نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں !!

___نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں !! غلام مصطفےٰ نعیمیروشن مستقبل دہلی فی الحال… Read More

3 ہفتے ago

لیجیے! اب آستانہ غریب نواز پر مندر ہونے کا مقدمہ !!

سنبھل کے زخموں سے بہتا ہوا خون ابھی بند بھی نہیں ہوا ہے کہ اجمیر… Read More

3 ہفتے ago

__لہو لہان سنبھل____

اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سمیٹے سنبھل شہر کی گلیاں لہو لہان ہیں۔چاروں طرف… Read More

3 ہفتے ago

جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور  خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!!

جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور  خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!! تحریر:جاوید اختر… Read More

1 مہینہ ago

نعت خوانی کے شرعی آداب

۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا… Read More

1 مہینہ ago

نفرت کا بھنڈارا

عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان… Read More

2 مہینے ago