’’کیوں تیرے غم میں یوں ہلکان ہوا جاتاہوں‘‘
آہ! قبلہ امیرالمجاہدین
بلا شبہ ہم سب اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ کل شام سوشل میڈیا کے ذریعے جو اطلاعات موصول ہوئیں وہ بے قرار اور مضطرب کرنے والی ہیں۔ گھنٹوں تک ان کا سراپا نگاہوں کے سامنے گردش کرتا رہا،بے یقینی کی کیفیت میں مختلف ویب سائٹس کھنگالتا رہا ، آخر کار معتمد ذرائع سے خبر کنفرم ہوئی کہ ناموس رسالت کے ایک عظیم محافظ و پہریدارقبلہ امیرالمجاہدین نے سرائے فانی سے کوچ فرمایا۔ سال ۲۰۲۰ء نے بہت صدمات دیے ہیں ، ابھی اور نہ جانے کتنے باقی ہیں۔
ویسے تو عالم کی رحلت ایک عالم اور عہد کی موت ہوتی ہے لیکن قبلہ امیرالمجاہدین کی رحلت کئی معنوں میں ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ جنہوں نے ان کو دیکھا ، ان کی صحبت پائی انہوںنے عشق رسول کو مجسم دیکھا، بڑے زمانے کے بعد ایک ایسا شخص بر صغیر میں لوگوں کو اپنی طرف یہ کہہ کر متوجہ کرنے میں کامیاب ہوا کہ میں اس عہد میں ناموس رسالت کا سچا محافظ اور پہریدار ہوں۔ زبانی جمع خرچ سے ہٹ کر عملی میدان میں ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے نہ صرف اترا بلکہ معذوری کے باوجود قیدو بند کی صوبتیں بھی برداشت کیں، لاٹھیاں کھائیں، آنسو گیس کے گولے کھائے اور اپنی آخری سانس تک دنیائے یہود ونصاریٰ کو للکارتارہا، ان کا آخری دھرنا بھی فرانسیسی گستاخانہ خاکوں کی پرزور مخالفت میںہی تھا۔ شدید ٹھنڈ میں مسلسل تین روز بیٹھے رہے، حکومت سے کامیاب مذاکرے کے بعد دھرنا ختم تو کردیا لیکن سرد ہوائیں جان لیوا ثابت ہوئیں،بیمار ہوئے پھر جانبر نہ ہوسکے۔
مجاہد سنیت، شیر اہلسنت، محافظ سنیت وغیرہ القاب سن سن کر جہاں روز کان پکتے رہتے ہیں، وہیں ان القاب کا مجسم پیکر اگر کوئی تھا تو وہ اس عہد میں علامہ موصوف کی ذات تھی۔اعلیٰ حضرت کا عشق رسول ہم سب نے کتابوں میں پڑھا لیکن علامہ کی کا عشق ہم نے ان کی گفتگو میں دیکھا،کبھی کبھی لگتا تھا کہ اعلیٰ حضرت بھی عشق رسالت پر ایسے ہی گفتگو فرماتے رہے ہوں گے۔ اور کیوں نہ لگے کہ گفتگو کا آغاز بھی اعلیٰ حضرت کے عشقیہ اشعارسے ، دوران گفتگو بھی اعلیٰ حضرت کے پچاسوں اشعار اور انجام گفتگو بھی انہی کے اشعار پر ہوتا تھا۔ بات بات پر اعلیٰ حضرت کے اشعار ایسے پڑھا کرتے تھے مانو حدائق بخشش پی لیا تھا۔ حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث بھی بکثرت یاد تھے۔ خوش شکل، خوش لباس ، خوش اطوار، چہرہ ایسا تابناک کہ دیکھتے ہی خدا یاد آئے۔ زمانے کی نرم گرم ہواؤں نے کبھی چہرہ کو مضمحل نہ ہونے دیا، قید وبند کی صعوبتوں کے باوجود بھی کبھی پائے ثبات میں لغزش نہ آئی، جب بھی پیغمبر امن وامان کے ناموس پر حملہ ہوا ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے۔
حضرت کی رحلت بلاشبہ دنیائے سنیت کے لیے ایک ایسا خسارہ ہے جس کی تلافی مستقبل قریب میں تو نظر آتی البتہ خدائے وحدہ بہترین بدل عطا کرنے والا ہے، یقینا پھر کوئی نہ کوئی آئے گا جو قافلہ حیات کو پھر سے رواں دواں کرے گا، لیکن ان کی رحلت نے مملکت خداداد میں محافظین ناموس رسالت کی فہرست سے ایک عظیم سپہ سالار کا نام تو فی الحال ضرور ہٹا دیا ہے۔
والدین نے پتہ نہیں کیا سوچ کر خادم نام رکھا تھا، لیکن ایسا اسم بامسمیٰ روئے زمین پر بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے، پوری زندگی دین متین کی صرف خدمت ہی کی اور کچھ نہ کیا، میری نظر میں اس وقت ان سے بڑا بے باک، نڈر اور شیردل عالم دین پورے بر صغیر کوئی نہ تھا۔دوچارہی اگر اور پیدا ہوجائیں تو عظمت رفتہ کو حاصل کرنے میں کوئی اور چیز حائل نہ ہوگی۔ لیکن یہاں تو عالم کا لغوی معنی چھوڑ کر سب کچھ بدل چکا ہے، بڑاعالم مطلب اچھے اور چمکدار کپڑے، مسند، اگالدان، قلمدان، صوفہ،جبہ ودستار،تسبیح، مصلیٰ اور سپر اسٹار جیسا پروٹوکول۔ہم عالم ہیں مطلب ہمیں دنیا وی معاملات سے کیا مطلب، بس پنج وقتہ نماز( کہیں تو وہ بھی نہیں) کبھی خلوت تو کبھی اسٹیج پر تبرکا دوچار نصیحتیں اور لمبی چوڑی رقت انگیز دعائیں (وہ بھی حصول برکت کے لیے)۔یہی سب کرکے عالمانہ فرض ادا کیا جارہا ہے۔
صدہا سلام اس شیر دل عالم دین کو جس نے عالم ہونے کا صحیح مطلب سمجھایا، بھلا وہ عالم کیسے ہوسکتا ہے جو اپنے عہد کے امت مسلمہ کے حالت زار سے سروکار نہ رکھتا ہوبلکہ اس میں پڑنا اپنے عالمانہ وقار کی تذلیل سمجھتا ہو۔صرف تسبیح ومصلیٰ جس کی کل کائنات ہو بھلا وہ امت کی امامت اور قیادت کا کیسے حقدار ہوسکتا ہے، بس یہی وجہ ہے کہ پچھلی ایک صدی میں علمائے اسلام بڑی تیزی سے امت کی قیادت اور سرپرستی سے محروم ہوتے چلے گئے۔ اور جہلا ان پر مسلط ہوکر ان کے علم کی تحقیر کرنے لگے اور عضو معطل بنادیا۔سیات اور حکمرانی کا نام لو تو جیسے سانپ سونگھ جاتاہے، زبان سے فوراً استغفار جاری ہوجاتے ہیںیہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا کے چار ہزار مربع میل سے زیادہ خطے پر حکمرانی کرنے والے وہ عظیم سیاست داں عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کے امام تھے۔
طبیعت میں اکثر شدت کی شکایت کی جاتی رہی لیکن کبھی کسی نے یہ دیکھنے کی کوشش نہ کی کہ وہ عشق عرفان کے کس منزل پر فائز تھے۔ جس دل میں غیرت ایمانی زندہ ہوگی وہاں غصہ آنا فطری بات ہے۔ لبرلوں نے اپنی بے غیرتی اور بزدلی کو لبرلزم اور مصلحت کا لبادہ پہنا کر ہمیشہ ان پر لعن طعن کیا لیکن اس سپہ سالار نے کبھی للکارنا نہ چھوڑا ،نہ ہی میدان عمل سے پیچھے ہٹا۔ اگر توہین رسالت پر کسی کو غصہ نہیں آتا تو وہ اپنی بیماری کا علاج کرائے بجائے اس کے کہ وہ غصہ کرنے والوں کو متشدد کہے۔
حضرت قبلہ امیرالمجاہدین کی اچانک رحلت سے ان کے مصاحبین، معتقدین ، احباب ومتعلقین میں شدید صدمہ اور سکتے کی کیفیت ہے، میں ان سب سے تعزیت کرتاہوں اور اپیل کرتاہوں کہ ان کو صحیح خراج عقیدت یہی ہے کہ ان کے مشن اور ان کی تحریک کو اسی آب وتاب کے ساتھ رواں دواں رکھا جائے اور اسی جوش وجذبے کے ساتھ ان کے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش ہوتی رہے۔ پسماندگان بالخصوص ان کے دونوں صاحبزادگان کو اللہ سبحانہ صبرو شکر کی توفیق بخشے اور اس پر اجر عظیم سے نوازے۔
سرحدی فاصلوں کی وجہ سے علامہ موصوف کے بہت سے گوشہ ہائے حیات اور دینی خدمات کے دائروں کی وسعت سے واقف نہیں ہوں تاہم اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ عشق رسول کا مجسمہ تھے، وہ ایک فرد نہیں انجمن تھے، صدیاں گزرتی ہیں تب جاکر کہیں کوئی ایسا مرد میدان پیدا ہوتا ہے۔ مولیٰ تعالیٰ سے دعاہے کہ ان کو ان کے خدمات دینیہ کا صلہ ملے اور اللہ ہمیں جلد ان کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین
تجھ سے کب خون کا رشتہ یا قرابت ہے کوئی
کیوں تیرے غم میں یوں ہلکان ہوا جاتاہوں
سوگوار
احمدرضا صابری
مدیر مجلہ الرضا انٹر نیشنل، پٹنہ، بہار (انڈیا)