علمائے اہل سنت اورتحریک آزادی

علمائے اہل سنت اورتحریک آزادی

مولاناطارق انور مصباحی(کیرلا)


علمائے اہل سنت آغازامرسے ہی ہندوستان کوانگریزوں کے جال سے آزادکرانے کی کوشش میں تھے ۔پہلی جنگ آزادی: ۱۸۵۷؁ء سے قبل ہی علمائے اہل سنت بیدار ہوچکے تھے، اورنجی کوشش شروع کرچکے تھے۔ انگریزو ں نے مسلمانوںسے صرف حکومت ہی نہیںچھینا،بلکہ وہ مسلمانوںکے ایمان کے تباہ و برباد کرنے میں بھی بہت حدتک کامیاب رہے ۔جوایمان بچا،وہ علمائے اہل سنت کی سعی پیہم کانتیجہ ہے ۔ جس کی تقدیر میںگمرہی تھی ،وہ گمراہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مذہب حق کی نعمت گراںبہا عطا فرمایا، اس پررب تعالیٰ کی حمدبیکراں۔حضواقدس حبیب کبریاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت عطاہوئی جونجات کا پروانہ ہوا،اس پررب تعالیٰ کاشکر عظیم ۔
انگریزوںکے خلاف جہادکا فتویٰ۱۸۵۷؁ء:
(۱)عبدالشاہدخاںشروانی (م ۱۳۰۴؁ھ) نے لکھا۔’’بادشاہ سراسیمہ تھے۔شہزادوںکی لوٹ کھسوٹ اور تخت شاہی کی تمناؤںنے باہمی رقابت کا میدان گرم کررکھاتھا۔عمائد شہرمیں دوگروہ تھے ۔ایک بادشاہ کا ہمنوا ،اور دوسراحکومت کمپنی کابہی خواہ۔فوجوںمیں طمع اورلالچ نے گھرکرلیاتھا۔دوایک جماعتیں مقصداعلیٰ کو سامنے رکھے ہوئے تھیں ۔ ایک جماعت مجاہدین کی تھی،دوسری روہیلوںکی۔یہ جنرل بخت خاں کی سرداری میںداد شجاعت دے رہی تھی۔علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہونچے۔مشورہ کے بعدعلامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔بعدنمازجمعہ جامع مسجدمیں علماکے سامنے تقریر کی،استفتاپیش کیا ۔مفتی صدر الدین خاں آزردہ صدرالصدوردہلی،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اللہ دہلوی ،مولانافیض احمد بدایونی ،ڈاکٹر مولوی وزیرخا ں اکبر آبادی،سیدمبارک شاہ رامپوری نے دستخط کر دیئے۔اس فتوے کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شور ش بڑھ گئی ۔ دہلی میںنوے ہزارسپاہ جمع ہوگئی تھی ۔ جنرل بخت خاں کی اسکیموں میںمرزامغل آڑ ے آتے تھے۔مرزاالٰہی بخش نے بادشاہ سے سرکار میں معا فی کاخط بھی بھیجوادیاتھا۔کوئی سنوائی نہ ہوئی ۔ مرزا مغل کی وجہ سے فوج میںپھوٹ پڑگئی‘‘۔
(باغی ہندو ستا ن ص۲۱۴،۲۱۵-المجمع الاسلا می مبارکپور)
(۲)محمداسماعیل پانی پتی نے لکھا۔’’ہنگامہ ۱۸۵۷؁ء میںپورے جوش کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والے وہ سب کے سب علما شامل تھے،جوعقیدئہ حضرت سیداحمد اورحضرت شاہ اسماعیل کے شدید ترین دشمن تھے،اورجنہوںنے شاہ اسماعیل کے ردمیں بہت سی کتابیںلکھی ہیںاوراپنے شاگردوں کو لکھنے کی وصیت کی ہے‘‘۔(حاشیہ مقالات سرسید حصہ شانزدہم ص۳۵۲)
(۳)ڈاکٹرمہدی حسین نے لکھا۔’’اگرجیون لال کے بیان پراعتمادکیاجاسکتا ہے تومولوی فضل حق نے شاہی فوج کی کمان بھی کی ہے‘‘۔(بہادرشاہ حصہ دوم ص۳۹۱)
(۴)رئیس احمدجعفری نے لکھا۔’’مذکورہ سطورمیں ہم نے غدرکے جن ہیرؤوں کا ذکرکیاہے،ان میں صرف بخت خاں اورمولانافضل حق خیرآبادی دوایسی شخصیتیںہیں ، جنہوںنے دہلی کے محاربات غدر میں مرکز نشیں ہو کرحصہ لیاہے‘‘۔(بہادرشاہ ظفراوران کاعہد ص۸۳۴)
(۵)جنگ غدرکے وقت بہادرشاہ ظفرنے ایک کنگ کونسل بنائی تھی ،علامہ اس کے ایک اہم رکن تھے-ڈاکٹر سیدمعین الحق نے لکھا-’’سیدمبارک شاہ (جودوران غدر دہلی کاکوتوال رہاتھا)کابیان ہے کہ شاہ نے جنرل بخت خاں،مولوی سرفرازعلی اور مولوی فضل حق پرمشتمل ایک کنگ کونسل تشکیل دی تھی‘‘۔(The great revolution of 1857 p.182/183)
(۶)جب بخت خاں دہلی آیاتوبہادرشاہ ظفرنے اسے دہلی فوج کا سپہ سالاراورجنرل کاخطاب دیا۔انگریزو ں کاپٹھومرزاالٰہی بخش بادشاہ کواس کے خلاف ورغلایا،لیکن غدار مرزاکامیاب نہ ہوسکا۔اخیرکا ربادشاہ سے سفارش کرکے مرزاالٰہی بخش نے بادشاہ کے بیٹے مرزامغل کوبھی فوج کے اعلیٰ اختیارات دلانے میں کامیاب ہو گیا۔اب فوج دو قیادت کے درمیان پھنس کررہ گئی،اورجیتی ہوئی جنگ اب شکست میںبدلنے لگی۔مرزا مغل مرد میداںنہ تھاکہ فوج کوصحیح ڈھنگ سے لڑاسکے۔جنرل بخت خاں نے بادشاہ سے گذار ش کی کہ آپ لکھنوچلیں،وہاںکی جنگ جیت کرپھردہلی آئیںگے۔بادشاہ اس کے لیے راضی نہ ہوا،بلکہ مرزا الٰہی بخش کی دخل اندازی نے بادشاہ کی عقل پرپردہ ڈال دیا ۔ جنرل بخت خاںاپنی دس ہزارفوج لے کر رات کونکل گیا ۔مسلمانوںکواکثرغداروںکی وجہ سے نقصان اٹھاناپڑاہے۔ عشرت رحمانی نے لکھا۔’’بخت خاںدہلی سے روانہ ہو کر اودھ ہوتاہوا کسی ایسے مقام پرچلاگیا ،جہاں سے اس کا نشان بھی کسی کوپھرنہ ملا۔گمان غالب ہے کہ دہلی کی بے وقت اور غیرمتوقع شکست اورانگریزی کی نامبارک کامرانی نے اس کا دل توڑدیااورمغل عظمت کی تباہی دیکھنے کی تاب نہ لاکر اس نے قبائلی آزاد علاقہ کی پہاڑیوں میںمنہ چھپالیا۔اس کے بعد کسی نے نہ اس کانام سنا اورنہ نشان پایا‘‘۔ (خیال لاہور-سن ستاون نمبرص ۷۰ ۲ )
(۸)دہلی کی جنگ چارمہینہ تک جاری رہی۔۱۱/مئی ۱۸۵۷؁ء سے ۱۹/ستمبر۱۸۵۷؁ ء تک ہندوستانی فوجیوںنے انگریزو ں کا مقابلہ کیا ۔۱۹/ستمبرکوانگریزی فوج دہلی میںداخل ہوئی۔ بہادرشاہ کی گرفتاری ہوئی ۔ ہندوستا ن میںاسلامی سلطنت کانام ونشان مٹ گیا۔علامہ فضل حق خیرآبادی ۲۴/ستمبر۱۸۵۷؁ء کورات کے وقت چھپ کر دہلی سے نکل گئے ۔ عبدالشاہدخاںشروانی نے لکھا۔’’علامہ دہلی سے ۲۴/ستمبر کوروانہ ہو گئے۔ اس طرح ۱۷۵۷؁ء کی جنگ پلاسی اور ۱۷۹۷؁ء کی جنگ میسور کی طرح ۱۸۵۷؁ء کی یہ جنگ آزادی بھی ہندوستانیوںکی شکست اورانگریزوںکی فتح پرختم ہوئی‘‘۔(باغی ہندوستان ص۲۱۶)
(۹)فتح دہلی اورسقوط سلطنت مغلیہ کے بعدمسلمانوںپردہلی اوراطراف واکناف میں ظلم وبربریت کا وہ درد ناک سلسلہ شروع کیاگیا،جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔بے شمار مسلمانوںکوقتل کیاگیا،پھانسی پرلٹکایاگیا۔ جب یہ سلسلہ تھماتوجنگ غدرمیںشریک ہونے والے علما کے خلاف کاروائی کی گئی،مقدمہ ہوا۔علامہ فضل حق خیرآبادی،مفتی عنایت احمدکاکوروی ،وغیرہم علمائے اہل سنت کالا پانی کی سزاپائے۔علمائے اسلام نے جزیرہ انڈمان کودبستان علم وادب بناڈالا۔مفتی عنایت احمدنے ’’علم الصیغہ‘‘ اور’’تواریخ حبیب الٰہ ‘‘اسی جزیرہ میں تصنیف فرمائی۔علامہ خیرآبادی نے’’ الثورۃ الہندیہ‘‘ اور’’قصیدہ دا لیہ وقصیدہ ہمزیہ ‘‘جزیرہ انڈمان ہی میں تحریر فرمائے ۔ ڈاکٹر مسعود احمد پاکستانی نے لکھاکہ علامہ فضل حق خیرآبادی کو۱۴/مارچ ۱۸۵۹؁ء کولکھنوکورٹ سے حبس دوام بعبوردریائے شور اورتمام جائیداد کی ضبطی کاحکم سنایاگیا۔بحری جہازپرسوارہوکر ۸/اکتوبر۱۸۵۹؁ء کو پورٹ بلیر پہونچے۔نوماہ انیس دن سیاسی قیدی رہ کر۱۲/صفرالمظفر۱۲۷۸؁ھ ،۲۰/اگست ۱۸۶۱؁ء کوواصل الی اللہ ہوئے ۔ (جنگ آزادی میں علامہ فضل حق خیرآبادی کاکردار ص۱۰،۱۱ – نوری مشن مالیگا ؤں مہار ا شٹر )
(۱۰)عبدالشاہدخاںشروانی نے لکھا۔’’جنگ آزادی ۱۸۵۷؁ء میںمولانافضل حق نے حصہ لیا۔دہلی میںجنرل بخت خاںکے شریک رہے۔لکھنو میں بیگم حضرت محل کی کورٹ کے ممبررہے ۔آخرمیں گرفتارہوئے۔مقدمہ چلا اورحبس دوام بعبوردریائے شور کی سزاہوئی……انڈمان ونکوبارکے زمانہ قیام میںعلامہ خیرآبادی سے دوچیزیں یادگارہیں۔ الثور ۃ الہندیہ اورقصائدفتنۃ الہند۔یہ دونوںچیزیں تاریخی ہونے کے علاوہ ادب کابھی شاہکار ہیں… … یہ رسالہ اورقصیدے جنگ آزادی ۱۸۵۷؁ء کے حالات کے نہایت قابل قدمآخذہیں‘‘۔(باغی ہندوستان ص ۵ ۲۷)
(۱۱)حسین احمدٹانڈوی سابق شیخ الحدیث دیوبند نے لکھا۔’’مولانافضل حق صاحب خیرآبادی کوجوکہ تحریک کے بہت بڑے رکن تھے اور بریلی ،علی گڑھ اوراس کے ملحقہ اضلاع کے دوران تحریک میںگورنر تھے ۔آخران کوگھرسے گرفتارکیاگیا۔ جس مخبرنے ان کوگرفتارکرایاتھا،اس نے انکارکردیاکہ مجھے معلوم نہیں۔فتویٰ جہادپر جس نے دستخط کئے ہیں ، وہ یہ فضل حق ہیںیاکوئی اورہیں؟……مولانانے فرمایا۔’’مخبرنے پہلے جو رپورٹ لکھوائی تھی،وہ بالکل صحیح تھی کہ فتویٰ میراہے۔اب میری شکل وصورت سے مرعوب ہوکر یہ جھوٹ بول رہاہے‘‘۔قربان جایئے علامہ کی شان استقلال پر-خداشیرگرج کرکہہ رہاہے کہ ممیرااب بھی یہی فیصلہ ہے کہ انگریزغاصب ہے،اوراس کے خلاف جہادلڑنا فرض ہے۔ خداکے بندے ایسے ہی ہوا کر تے ہیں،وہ جان کی پرواہ کیے بغیرسربکف ہوکر میدان میںاترتے ہیںاورلومڑی کی طرح ہیرپھیرکرکے جان نہیںبچاتے ، بلکہ شیروںکی طرح جان دینے کو فخرسمجھتے ہیں‘‘۔ (تحریک ریشمی رومال ص۶۴)
(۱۲)حسین احمدٹانڈوی نے لکھا۔’’مولانانے اپنے اوپرجتنے الزام لئے تھے،ایک ایک کرکے سب رد کر دیئے ۔جس مخبرنے فتویٰ کی خبردی تھی،اس کے بیان کی تصدیق وتوثیق کی۔فرمایا۔ ’’پہلے اس گواہ نے سچ کہا تھااوررپورٹ بالکل صحیح لکھوائی تھی۔اب عدالت میںمیری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیااورجھوٹ بولا۔ وہ فتویٰ صحیح ہے ۔ میرا لکھاہواہے، اور آج اس وقت بھی میری رائے وہی ہے……جج باربارعلامہ کو روکتا تھا کہ آپ کیاکہہ رہے ہیں۔مخبرنے عدالت کارخ اورعلامہ کی بارعب وپروقارشکل دیکھ کر شناخت کرنے سے گریزکرتے ہوئے کہہ ہی دیاتھا۔یہ وہ مولانافضل حق نہیں،دوسرے تھے۔گواہ حسن صورت اورپاکیزگی سیرت سے بے انتہا متأثر ہو چکاتھا،مگرعلامہ کی شان استقلال کے قربان جایئے ،خداکا شیر گر ج کرکہتا ہے ۔ ’’وہ فتویٰ صحیح ہے،میرالکھاہواہے،اورآج اس وقت بھی میری رائے وہی ہے‘‘۔(نقش حیات ص۴۶۲)
(۱۳)عبدالشاہدخاںشروانی نے لکھا۔’’علامہ کو۳۰/جنوری ۱۸۵۹؁ء کوگرفتارکیاگیااورلکھنومیںمقدمہ چلایا گیا ۔گرفتاری سے تین ہفتے کے اندر کیپٹن ایف اے وی تھربرن کی عدالت میں ۲۱/فروری ۱۸۵۹؁ء کومقدمہ شروع ہوا۔استغاثہ اور صفائی کے پانچ پانچ گواہوںکے بیانات کے بعد ۲۸/فروری ۱۸۵۹؁ء کپتان تھربرن نے فردجرم مرتب کرکے مقدمہ جوڈیشیل کمشنر اودھ کی عدالت میںمنتقل کردیا۔جوڈیشیل کمشنر مسٹرجارج کیمبل اورمیجر باروقائم مقام کمشنرخیرآبادڈویزن کی مشترکہ عدالت سے ۴/مارچ ۱۸۵۹؁ء کوقتل پربرانگیخت اور بغاوت کے الزام میں بطورشاہی قیدی حین حیات حبس بعبوردریائے شور اورتمام جائیداد کی ضبطی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔ (باغی ہندوستان ص۲۴۸)
علمائے اہل سنت وجماعت:
علمائے اہل سنت نے ۱۸۵۷؁ء کی اولین جنگ آزادی میں کلیدی کرداراداکیا۔علمانے دیکھا کہ بہت سے ہندؤوںنے علی الاعلان انگریزوںکی حمایت کی۔ مسلمانوںمیںبھی بہت سے غدار اور نصاریٰ کے جاسوس نکلے۔اسی غداری اورہندؤوںکے درپردہ انگریزوںکے تعاون کے سبب مجاہدین غدر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اس لیے علمائے اہل سنت بہت محتاط قدم اٹھاتے۔دوسری جانب انگریزوںنے قوم مسلم میں مذہبی فتنوںکوپروان چڑھارکھاتھا۔علما کی اکثری توجہ ان فتنوںکے تدارک کی جانب تھی ۔ اما م اہل سنت اوران کے تلامذہ وخلفا سیاسی امورکی جانب بھی متوجہ ہوئے اورمسلمانوںکوبنام پاکستان ایک مملکت دلانے میں کامیاب ہوئے۔پاکستان کے لیے بڑاحصہ مقررہواتھا،لیکن ہندؤوںکی دخل اندازی سے ماؤنٹ بیٹین وائسرائے ہند نے بعض حصے واپس ہندوستان کودیدیا۔آزادی ملتے ہی ہندؤ و ںنے جابجامسلمانوںپر ظلم وبربریت کاشرمناک سلسلہ شروع کر دیا۔ آزادی کی خوشی مسلمانوںکے خون سے منائی گئی۔ہم نے اپنی زندگی میں بھاگلپورفساد ، شہادت بابری مسجد ، ممبئ فساداورگجرات فساددیکھا۔ آزادی کا معنٰی ’’ہندوراشٹر‘‘ قرار پایا۔ ہندؤوںکوسوراج نہیں، بلکہ ہندو راج کی تلاش تھی۔اسی لیے ابتدائی مراحل میں کانگریس خالص ہند ؤ ںکی تحریک تھی ۔بعدآزادی بھی مسلمان
کانگریس سے منسلک رہے۔ کانگریس نے دوست نمادشمن کاکرداراداکیا۔مسلم لیگ کے مماثل ایک سیاسی تحریک کی ضرورت ہے۔لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا۔

مزید پڑھیں:


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

کی محمد سے وفا

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں!

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں! از:مفتی مبارک حسین مصباحی استاذ جامعہ …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔