ائمۂ مساجد اور فارغ اوقات میں تجارت : شہباز عالم مصباحی

 ائمۂ مساجد اور فارغ اوقات میں تجارت

تحریر: شہباز عالم مصباحی اتر دیناج پور


نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
کسی قوم کی امامت کرنا، اس کے مابین رہ کر خدمتِ دین انجام دینا، مخلوق خدا و بندگانِ خدا کو پروردگار عالم کے احکامات و ہدایات سے روشناس کرانا، گناہ و معصیت اور عصیان و سرکشی کے لق دق میدان میں سرگرداں افراد کو صراط مستقیم و راہ نجات کی جانب گامزن کرنا یقیناً نہایت اجر و ثواب کا کام ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے،عن عبد الله ابن عمر رضي الله عنه‍ما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال”ثلاثة على کثبان المسك أراه قال يوم القيامة: عبد أدّىٰ حق الله و حق مواليه و رجل أمّ قوماً و ه‍م به راضون و رجل ينادي بالصلوات الخمس في کلِّ يوم و ليلة” ترجمہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:
” تین لوگ مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے’راوی کہتے ہیں روایت میں یہ الفاظ ہیں: قیامت کے دن (مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے) ایک وہ غلام’ اللہ کے حق کو اور اپنے آقا کے حق کو ادا کرتا ہو ‘ ایک وہ شخص جو لوگوں کی امامت کرتا ہو اور لوگ اس سے راضی ہوں اور ایک وہ شخص جو روزانہ پانچ نمازوں کے لئے اذان دیتا ہو”- (الترغیب والترہیب جلد اول ص ٣٤٣)
نیز بغیر اجرت کے یہ کارخیر بجا لانا بے شمار انعامات الٰہیہ کا باعث ہے۔ امامت نہایت عمدہ اور کار ثواب ہے بحمدہ تعالیٰ نمازِ پنجگانہ کی مکمل پاسداری کا باعث، بر وقت عبادت الٰہی کی بجا آوری کا بہترین ذریعہ، رسول پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمانِ مبارکہ کو برودت و ٹھنڈک فراہم کرنے کا موزوں وسیلہ، رضائے پروردگار و خوشنودیٔ حبیب کردگار کے حصول کا اہم ترین سبب ہے مگر یہ مذکورہ بالا فوائد اخروی ہیں اور اجر الٰہی ہے جبکہ حالات زمانہ و ایام حیات کے در پیش معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے فقط اخروی اجر کافی نہیں بلکہ اجرِ اخروی کے ساتھ ساتھ ہرہر قدم پر روپے پیسے کی اشد ضرورت پڑتی ہے اس لیے امامت میں طے شدہ ایک مختصر سی رقم ملتی ہے مگر یہ رقم حوائج و ضروریات حیات کی گرانی و مہنگائی کے بالمقابل بہت کم ہوا کرتی ہے کیونکہ یہ رقم علاقہ اور جگہ کی خوشحالی و بدحالی نیز دیہات و قصبات اور شہر کے اعتبار سے ہوتی ہے اگر دیہات ہو تو زیادہ سے زیادہ نو سے دس ہزار تک کی بمشکل توقع کی جاسکتی ہے اور اگر شہر و مضافات شہر میں ہو تو یہاں زیادہ سے زیادہ بارہ سے تیرہ ہزار تک کی آس لگائی جاسکتی ہے جبکہ اسی رقم سے کھانے پینے و دیگر ضروریات زندگی کی تکمیل کی شرط بھی ہوتی ہے مستزاد اینکہ بعض بلکہ اکثر ائمۂ مساجد کے لئے فیملی ساتھ رکھنے کی سخت ترین شرط لازمی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فرض عین قرار دیا جاتا ہے اب قدرے قیاس آرائی فرمائیں کہ اتنی مختصر سی رقم کے ذریعے خود کی ، اہل و عیال کی ، اپنے گھر کے افراد کی، گاہے بگاہے مجبور و بے بس خویش و اقارب کی، انسانیت کے ناطے گرد و نواح میں خاک بوس و نانِ شبینہ کو ترستے غرباء ومساکین کی ضروریات کی تکمیل کہاں تک ممکن ہو سکتی ہے؟ لیکن بحر غور و خوض میں غوطہ زن ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ بفضلہ تعالیٰ ہر کمی و ضرورت کی تکمیل کا بھی کوئی حل ضرور ہوتا ہے اس لیے اس کمی کی تلافی کے لئے اولاً امامت کی ذمہ داریوں پر طائرانہ نگاہ ڈالنا لازم ہے جب دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یوں تو ہر کام اور ہر ملازمت میں ذمہ داریاں ہوتی ہیں البتہ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ لیکن اگر کوئی شخص اپنے ذہن و فکر اور دل و دماغ کے مقفل دریچوں کو کشادہ کرکے امامت کی ذمہ داریوں پر طائرانہ نظر دوڑائے تو یہ بات شکوک وشبہات کے جملہ حجابات چاک کرتے ہوئے بامِ عروج پر پہنچ کر آفاق عالم میں یہ اعلان و آشکارہ کرتی نظر آتی ہے کہ دیگر ملازمت کی بنسبت امامت میں امام کے ہاتھ میں کافی وقت بچا رہتا ہے جسے ایک امام چاہے تو اپنے صرف میں لاکر بہت کچھ کر گزرنے کا عمدہ موقع نصیب ہوتا ہے ورنہ یہ وقت بے جا صرف ہوجاتا ہے اور جب خواب غفلت سے بیداری حاصل ہوتی ہے تو اس وقت کفِ افسوس مَلنے اور دامنِ حسرت چاک کرنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی ماندہ اوقات کس کام میں صرف کرنا چاہیے؟ تو میرا ذاتی خیال ہے کہ ایک امام کے لئے تجارت سب سے موزوں مشغلہ ہے جس کی ترغیب میں بے شمار احادیث کریمہ وارد ہیں یہاں فقط دو حدیثیں پیشِ خدمت ہیں:
(١) عن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال سُئِلَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أیّ الکسب أفضل؟ قال عمل الرجل بیدہٖ و کلّ بیع مبرور” ۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر و الاوسط و رواته ثقات۔ترجمہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کونسی کمائی زیادہ فضیلت رکھتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کا اپنے ہاتھ کے ذریعے کام کرکے ( کچھ کھانا) اور ہر جائز سودا (یعنی خرید و فرخت)”_ (الترغیب والترہیب جلد دوم ص ٣٧٨)
(٢) روی عن ابن عمر رضی اللہ عنھما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: إنّ الله یحبّ المؤمن المحترف”-
رواہ الطبرانی فی الکبیر و البیھقیترجمہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:” بے شک اللہ تعالیٰ ‘کاریگر مومن کو پسند کرتا ہے”– (الترغیب والترہیب جلد دوم ص ٣٧٩)
ان دونوں احادیث کریمہ سے روزِ روشن میں آفتابِ تاباں کی مانند واضح ہوجاتا ہے کہ تجارت بہت ہی عمدہ مشغلہ ہے نہ فقط یہ کہ آمدنی میں اضافے کا باعث ہے بلکہ اس میں فضیلت بھی رکھی گئی ہے مزید برآں اینکہ خداوند قدوس کی خوشنودی و رضامندی کے حصول کا اہم وسیلہ بھی ہے جسے کوئی بھی صاحب فہم و فراست، حاملِ عقل و شعور انسان فراموش کرنا اپنے لئے روا نہیں رکھے گا۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسی تجارت مناسب ہے جسے اپنا کر رضائے الٰہی کا مژدہ حاصل کرنے کا شرف حاصل کر لیا جائے؟ تو ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارت وہی سودمند و مفید ہے جو انسان اپنے لئے پسند کرتا ہے اب کس کی پسند کیسی ہے اس کا بتانا ایک مشکل امر ہے بطورِ نمونہ چند کاروبار کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے جو پسند آئے اسی کا انتخاب فرمائیں نیز اگر کوئی دیگر تجارت وغیرہ کا مفید منصوبہ ہو تو اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے مختصراً ملاحظہ فرمائیں:-

(١) کرانادوکان:

اگر مسجد کے قریب کوئی بازار ہو تو وہاں کرانادوکان بہتر ہے کیونکہ ایسی جگہوں پر ازدہام و بھیڑ بھاڑ زیادہ ہوا کرتی ہے چنانچہ کرانادوکان ہی زیادہ مناسب ہے جس میں بحمدہ تعالیٰ کافی منافع ہوتا ہے لیکن اگر بازار شام کے وقت لگتا ہو تو وہاں عصر و مغرب کے وقت کچھ دشواریوں کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ جب خریداروں کی تعداد زیادہ ہوگی تو دوکان چھوڑ کے جانا پسند نہیں آئے گا۔

(٢)ٹیلرینگ:

اگر آپ درزی و سلائی کا کام جانتے ہیں تو یہ بہت ہی مناسب ہے جس میں کسی طرح کا کوئی پریشان کن مرحلہ نظر نہیں آتا اور کافی فائدہ مند بھی ہے کیونکہ اگر ایک دن ایک جوڑے بھی سِلتے ہیں تو تین سو سے پانچ سو تک کی رقم ہاتھ میں آتی ہے اس حساب سے ایک مہینے میں ان شاءاللہ نو سے پندرہ ہزار تک کی کمائی آئے گا جو ایک مولانا کے لئے موٹی رقم ہے۔

(٣)کتب خانہ:

اگر قریب میں کوئی مدرسہ اور اسکول و کالج وغیرہ واقع ہو تو ایسی جگہ کتاب، کاپی وغیرہ کی دوکان منتخب کرسکتے ہیں جس میں ضمناً کئی ایک چیزیں رکھ سکتے ہیں مثلاً دینی و دنیاوی کتابیں، کاپیاں، مختلف قسم کے قلم، پینسل، چھوٹی بچیوں کے نقاب، مختلف انواع کی ٹوپیاں، عطر، کلینڈر، فائلس اور قرآن مجید وغیرہ۔

(٤) موبائل ریپئرنگ :

اگر موبائل فون ریپئرنگ کا کام جانتے ہیں اور نیٹ کے بارے میں بھی معلومات ہیں تو یہ سب سے بہتر ہے کیونکہ اس دوکان میں کم وقت میں زیادہ روپے کما سکتے ہیں اور اپنے بچے ہوئے وقت کو استعمال میں لاکر معاشی صورتحال کو ترقی پذیر بنا سکتے ہیں کیونکہ اس دوکان میں مختلف قسم کے بہت سارے کام انجام دیے جاسکتے ہیں جیسے موبائل ریپئرنگ، موبائل ریچارج، منی ٹرانسفر، لائیٹ بل جمع کرنا، زیراکس کاپی اور فوٹو کاپی نکالنا وغیرہ پھر جب دوکان زیادہ چلنے لگے اور آمدنی میں اضافہ ہو تو دوکان کو مزید ترقی دے کر بڑی کریں اور دیگر بڑے بڑے کام انجام دینے کی کوشش کریں یاد رہے عربی مقولہ ہے "من جد وجد” جو کوشش کرے گا اسی کو ملے گا۔

یہ رہے چند کاروبار جو میں نے فقط تخمیناً اپنے حساب سے بطورِ نمونہ پیش خدمت کیا ورنہ اگر اس بارے میں تفصیلی گفتگو کا آغاز کریں تو کافی وقت درکار ہے نیز ایسے ہی بہت سارے کارہائے نمایاں انجام دیے جاسکتے ہیں اور اپنی آمدنی میں بفضلہ تعالیٰ بے تحاشا اضافہ کرسکتے ہیں کیونکہ بندہ جب نیک نیتی سے کام کرتا ہے تو اللہ ربّ العزت اس کا بہترین اجر بھی عطا فرماتا ہے لگے ہاتھوں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جب اللہ ربّ العزت ایام فراوانی نصیب فرمائے اور لیل ونہار کی گود میں خوشحالی پروان چڑھنے لگے تو گاہے بگاہے گردوپیش و اطراف و اکناف میں تنگ دستی و بے سروسامانی کے ایام گزارنے والے غرباء ومساکین پر صدقات و خیرات کے دروازے بھی کشادہ کرکے فرمانِ الٰہی ” من جاء بالحسنۃ فلہ عشر أمثالھا” پر عمل درآمد ہوکر اپنے گھر خزانۂ خداوندی سے بے شمار دولت و ثروت کے انبار لگائیں۔
بارگاہِ لم یزل میں دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت تمام علماء کرام و ائمۂ مساجد و اسلام کو خوشحالی و عزت و آبرو کی زندگی عطا فرمائے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق حسن عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

از قلم- شہباز عالم مصباحی
المتوطن۔ منابستی پوسٹ بربیلا تھانہ گوالپوکھر ضلع اتر دیناج پور مغربی بنگال۔
مقیم حال۔ دھارواڑ کرناٹک

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

نفرت

نفرت کا بھنڈارا

عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔

ایک کمینٹ

  1. محمدفیضان رضارضوی علیمی

    ماشاءاللہ بہت عمدہ اور کارگر مضمون ہے ائمہ حضرات کو چاہیے کہ اس پر عمل کریں

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔