سیمانچل کے تعلیمی اداروں میں اونچی تعلیم کا فقدان : اسباب و علاج
تحریر :- شہباز عالم مصباحی اتر دیناج پور
کہا جاتا ہے کہ اگر کسی بھی قوم کے عروج و ارتقاء اور زوال و انحطاط کا جائزہ لینا ہو تو اس قوم کے ماضی میں تعلیم و تعلم کا جذبۂ تحصیلِ علوم و فنون کا مقابلہ حال اور مستقبل میں تعلیم و تعلم سے دلچسپی ، لگاؤ اور ذوق و شوق سے کر کے دیکھنا چاہیے نیز تعلیم و تربیت گاہوں کے انتظام و انصرام کا بغور معائنہ و مشاہدہ کر کے دیکھیں اگر اس قوم کے اندر شوقِ تعلیم و تعلم حال کی بنسبت ماضی میں زیادہ تھا تو اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ اس قوم کی تنزلی و انحطاط کا دور شروع ہو چکا ہے، اس کے برعکس اگر ایسا ہو کہ ماضی کی بنسبت حال کی نسلِ نو میں ذوقِ تحصیلِ علوم و فنون زیادہ ہے ، لوگوں کے رجحانات معلومات و جانکاری کی جانب مائل ہیں اور رفتہ رفتہ یہ ماحول بڑھتا ہی جا رہا ہے تو یہ اس بات کی واضح ترین دلیل و حجت ہے کہ اس قوم کی تنزلی کا خاتمہ ہونے ہی والا ہے اور اس کی اقبال و سر بلندی کا ستارہ اُفق کی سیاہی و تاریکی کو شق کرتا ہوا سامنے آ رہا ہے جو جلد ہی ظلمت و تاریکی کے بادل ہٹا کر ذراتِ عالَم کو انمول روشنی کا بیش بہا تحفہ عطا کرنے والا ہے اس تناظر میں جب ہم اپنے سیمانچل کے تعلیمی اداروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات طشت از بام ہوتی نظر آتی ہے کہ ماضی کی بنسبت اگرچہ مدارس کی تعداد زیادہ ہے لیکن شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جس میں بہترین اعلی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام و انصرام ہو جن مدارس و مکاتب میں پہلے فارسی و عربی زبان کی ابتدائی اکثر کتب کے درس و تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا جاتا تھا آج انہیں مدارس و مکاتب میں بمشکل کوئی فارسی یا عربی کتاب پڑھائی جاتی ہے اور جن مدارس میں پہلے قرآن کریم حفظ کرایا جاتا آج ان میں محض ناظرہ کی وہ بھی نا مکمل تعلیم ہوتی ہے اگر کسی کم عمر بچہ کو اعلی تعلیم کی ضرورت ہو تو گھر سے کوسوں دور جانا پڑتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ ایسے حالات کیسے پیدا ہوئے؟ اعلی تعلیم کا انتظام کیوں نہیں ہو پا رہا ہے ؟ تو چند اسباب بشکلِ جواب سامنے آتے ہیں :
(١) لوگوں کا رجحان دینی تعلیمات کی بنسبت دنیاوی تعلیمات کی جانب سے زیادہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے مدارسِ اسلامیہ کی خیر خواہی کافی حد تک کم ہو چکی ہے۔
(٢) سب سے اہم ترین سبب یہ ہے کہ ذمہ دارانِ مدارس کے قلوب و اذہان سے خلوص و للٰہیت کا یا تو بالکلیہ خاتمہ ہو چکا ہے یا قریبِ اختتام ہے جبکہ مدارس کے کاموں کی انجام دہی میں خلوص شہ رگ کا درجہ رکھتا ہے ۔
(٣) ذمہ دارانِ مدارس کی دینی تعلیمات سے غیر وابستگی بھی انہدامِ نظامِ تعلیم کے سلسلے میں بنیادی سبب کی حامل ہے ۔
(٤) مدارسِ اسلامیہ کے زوال و انحطاط میں مالی تعاون کی حددرجہ کمی کا اہم ترین کردار ہے عصرِ رواں میں لوگ ہزاروں روپے فضول اور لایعنی کاموں میں بے دریغ ضائع کر دیتے ہیں لیکن جب امدادِ مدارس کی خاطر چندہ وصول کرنے کے لئے سفیر حضرات جاتے ہیں تو لوگ دس بیس روپے نکالتے نکالتے درجنوں سوال کرتے ہیں ۔
(٥) تعلیمی نظام کو ترقی دینے کے سلسلے میں اساتذۂ کرام کی بات نہ مان کر ذمہ داران کا اپنی باتوں پر زور دینا ، دلانا،ایسے میں اساتذہ کی دل شکنی ہوتی ہے اور پھر پڑھانے میں دل نہیں جمتا۔
(٦) پڑھنے والے طلباء کے قیام و طعام کا معقول انتظام نہ ہونا بھی فقدان اعلی تعلیم کا بنیادی سبب ہے کیونکہ جب معقول انتظام نہیں ہوگا تو طلبہ نہیں آئیں گے جب طلبہ ہی نہیں آئیں گے تو تعلیم آگے بڑھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
(٧) زیادہ تنخواہ دینے کے خوف سے محنتی و جفاکش اور صلاحیت مند اساتذہ کا انتخاب نہ کرنا بھی ارفع و اعلٰی تعلیم کے فقدان کا باعث ہے ۔
علاوہ ازیں بے شمار اسباب و علل ہیں جن کی بنا پر اعلی تعلیم نہیں ہو پا رہی ہے لیکن یہ بات بھی پردہ خفا سے باہر ہے کہ جس طرح ہر مرض کا علاج اور ہر بیماری کی دوا ہوا کرتی ہے بعینہٖ اسی طرح مدارسِ اسلامیہ میں موجود ہر خامی و کمزوری کے خاتمے کا بھی علاج ممکن ہے فقط جد و جہد اور کوشش و لگن کی حاجت و ضرورت ہے جیسا کہ مقولہ ہے "السعی منّا والفوز من اللّٰه” اور ایک یہ بھی ہے کہ "من جد وجد” چنانچہ چند اصول و ضوابط ضبطِ تحریر کئے جاتے ہیں اگر انہیں عملی جامہ میں ملبوس کیا جائے تو انشاءاللہ فوز و فلاح قدم چومے گی اور تعلیم و تعلم کو وہ عروج حاصل ہوگا جس کا تصوراتی خاکہ بھی ذہن میں موجود نہیں ہے۔
وہ چند اصول یہ ہیں:
(١) اولاً لوگوں کو حصولِ دینی تعلیم کے فضائل و مناقب اور اہمیت و افادیت نیز علومِ دینیہ سے بُعد و دوری کے نقصانات سے متعارف و روشناس کرایا جائے تاکہ ان میں ذوق و شوق کا خاموش سمندر لہردار ہو۔
(٢) انتخابِ اساتذہ کے وقت اس بات پر خاص توجہ دی جائے کہ اساتذہ محنتی ، جفاکش ، مخلص ، دیندار ، پابند شریعت ، سنجیدہ مزاج ، خوش گفتار ، خوددار غیرت مند ، تجربہ کار ، ملنسار ، ترقی پسند ، بلند حوصلہ ، صلاحیت مند اور قابل ہوں۔
(٣) انتظامی امور کا بارِ گراں ایسے افراد کے شانے پر دیا جائے جو اس کے اہل ہوں اور اس کارِ اعظم کے لیے کم از کم دو افراد بالالتزام ہوں تاکہ کسی ایک کی عدم موجودگی میں دوسرا حاضر ہو سکے۔
(٤) ادارے کی سربراہی کسی ایسے فرد کے ہاتھ میں ہوں جو عوام و خواص سب کی نگاہ میں معتبر ہو اور یہ بھی یاد رہے کہ سربراہ اگر عالمِ باعمل ہو تو زہے نصیب ورنہ کم از کم علم دوست و علماء نواز ضرور ہو ۔
(٥) منصبِ صدارت کسی معتبر عالم کے سپرد کیا جائے تاکہ وقتاً فوقتاً طلبہ و اساتذہ کی بہترین نگرانی کرسکے نیز اساتذہ و طلبہ کا بہترین خیال اور پاس و لحاظ رکھ سکے کیونکہ ایک عالم ہی دوسرے علماء و طلباء کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔
(٦) طلبہ کے قیام و طعام کا معقول انتظام و انصرام ہو کیونکہ اگر کھانے پینے اور رہنے سہنے میں دقت و پریشانی کا سامنا ہو تو طلبہ ادارے میں رہنا پسند نہیں کریں گے نیز پڑھائی سے جی چرائیں گے۔
(٧) ادارے کو بھرپور مالی تعاون پیش کیا جائے تاکہ اخراجات میں کسی قسم کی دشواری درپیش نہ ہو کیونکہ اگر زیادہ تعاون نہ ہو تو اخراجات میں کوتاہی کرنی پڑے گی جس کا اثر بلاواسطہ تعلیمی رفتار پر پڑے گا
(٨) سال کی ابتداء و انتہاء میں آمدنی و اخراجات کے سلسلے میں دو ہنگامی و اجتماعی میٹنگ منعقد کی جائے اور تمام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعاون کرنے کی ترغیب دلائی جائے ۔
(٩) اساتذہ و طلباء کی دل جوئی و حوصلہ افزائی کے لیے سال کے آخر میں ایک جلسہ کیا جائے جس میں اساتذۂ کرام کو عمدہ تدریس کی خاطر اور طلبہ کو نمایاں کامیابی حاصل کرنے پر ترغیبی و تشجیعی تحفے تمغے اور انعامات دیے جائیں ۔
(١٠) ادارے کی آمدنی و اخراجات کی خاطر سالانہ چندہ وصول کیا جائے اور کچھ افراد کو سفیر بنا کر دیگر مقامات میں چندہ کے لیے بھیجا جائے ۔
(١١) مسلم لیڈروں سے تعاون کی اپیل کی جائے اور ادارے کے پروگراموں میں بعض اوقات انہیں مدعو کیا جائے تاکہ خوش ہوکر زیادہ سے زیادہ تعاون کریں۔
(١٢) اساتذہ کو بیرونی کاموں میں مصروف نہ کیا جائے بلکہ انہیں بیرونی ذمہ داریوں کی بندشوں سے بالکل آزاد رکھا جائے ان کی حاجات و ضروریات کا خیال رکھا جائے تسلی بخش ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے اور وقت پر ادا کر دی جائے
(١٣) اساتذہ پر بلاوجہ خارجی دباؤ نہ ڈالا جائے اور تعلیم کے سلسلے میں خود مختاری عطا کی جائے ۔
(١٤) طلباء کو اوقاتِ تعلیم میں قرآن خوانی ، میلاد خوانی ، فاتحہ خوانی اور دعوت خوانی میں نہ لگایا جائے ۔
(١٥) خزانچی کسی ایسے شخص کو بنایا جائے جس کے اندر خشیتِ الٰہی و خوفِ آخرت موجزن ہو ، امانت داری و دیانت داری کا گہوارا ہو نیز خیانت کاری و سرقہ بازی سے میلوں دور بلکہ دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہ ہو تاکہ آمدنی کی رقم محفوظ و مامون ہو ۔
(١٦) ادارہ کے جملہ امور کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لیے ایک مستقل مضبوط و مستحکم تنظیم یا کمیٹی تشکیل دی جائے جس کے ارکان خوش مزاج ، بلند حوصلہ ، سخاوت پسند ، انسانیت کے علمبردار ، دوراندیش ، خیرخواہ ، اتحاد واتفاق پسند اہل دولت و ثروت ، صاحب جاہ و منصب اور اثر و رسوخ کے حامل ہوں تا کہ ادارے کی بہترین و عمدہ ترین نمائندگی ہو سکے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں ۔
علاوہ ازیں اور بھی باتیں ہیں جو کارگر ثابت ہو سکتی ہیں اگر انہیں پیش نظر رکھتے ہوئے کام کیا جائے تو اعلیٰ ہی نہیں بلکہ اعلی ترین تعلیم و تربیت ہو سکتی ہے لیکن مذکورہ بالا باتوں کا خیال رکھنا اعلی تعلیم کے انتظام کے لئے نہایت ہی لازم و ضروری ہے۔
شہباز عالم مصباحی
المتوطن منابستی پوسٹ بربیلا تھانہ گوالپوکھر ضلع اتر دیناج پور (بنگال)
مقیمِ حال- دھارواڑ کرناٹک
7478456997
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں
___نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں !! غلام مصطفےٰ نعیمیروشن مستقبل دہلی فی الحال… Read More
سنبھل کے زخموں سے بہتا ہوا خون ابھی بند بھی نہیں ہوا ہے کہ اجمیر… Read More
اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سمیٹے سنبھل شہر کی گلیاں لہو لہان ہیں۔چاروں طرف… Read More
جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!! تحریر:جاوید اختر… Read More
۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا… Read More
عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان… Read More