ٹھنڈ سے فوت ہونے والے امام کی موت کا ذمہ دار کون؟

ٹھنڈسے فوت ہونے والے امام کی موت کا ذمہ دار کون؟
 مفتی روشن رضا مصباحی ازہری

امت مسلمہ کے لیے کل سوشل میڈیا کی وساطت سے ایک ایسی خبر پر نظر پڑی جس کو دیکھ کر پورا وجود سکتے میں آگیا، وہ کون سی خبر ہے؟ اس روح فرسا خبر کو آپ لوگوں نےبھی پڑھا اور سنا ہوگا، پورے سوشل میڈیا پر اس کو دودن سے وائرل کیا جارہا ہے، وہ کون سی خبر ہے؟ تو آئیے میں بتاتا ہوں آپ کو ایک مدرسہ کے فارغ التحصیل، صاحب جبہ و دستار، قوم کی امامت و قیادت کرنے والے ایک ایسے شخص کی داستان ہے جس نے اپنی زندگی کے بیشتر لمحات کو دین حنیف کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا، جس کا کام ہی تھا لوگوں کے دینی ضرورتوں کی تکمیل کرنا، جس کا فریضہ منصبی ہی تھا اس امت کو جہالت و ضلالت کی تاریکی سے نکال کر نور علم و ہدایت کے اجالے میں لاکر کھڑا کرنا، مگر اس کے ساتھ ہوا کیا؟تو سنیں وہ عالم صاحب اب اس دنیا میں نہ رہے. ان کی موت کے پیچھے کون سی وجہ تھی؟ کس سبب سے ان کی موت ہوئی؟
ان سب کا جواب اتنا معمولی ہے کہ اسے سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے، ابھی جب موسم سرما کا آغاز ہوا اور دھیرے دھیرے سردی بڑھنے لگی تو ہماری قوم کے اس فرزند دین و سپوت نے اس مسجد کے ارباب حل و عقد سے کمبل و رضائی و ٹھند سے بچنے کے لیے بستر دلانے کی درخواست کی ، اس مسجد کے ذمہ داران سے اس نے کپڑے مانگے جہاں وہ غالبا پانچ چھ سال سے فرائض امامت انجام دے رہا تھا، ان لوگوں سے درخواست کی جن کی نمازوں کا امین بن کر مصلی أمامت پر نماز پڑھاتا تھا.
مگر ان ظالموں و ارباب ثروت نے ان کی بات یہ کہہ کر ٹال دی کہ امام صاحب لاک ڈاؤن نے ہمارے بجٹ کو متاثر کردیا ہے اس لیے ہم انتظام نہیں کرسکتے،آپ خود انتظام کرلیں، کتنی بے غیرت ہوگئی ہے یہ قوم؟ کیا یہ کہتے ہوے ان کی زبان نہیں کٹ گئی؟ کیا ان کا وجود شل نہیں ہوگیا،
بالآخر دھیرے دھیرے ٹھنڈک بڑھتی گئ اور یہ قوم کے دولت مند اپنے اپنے گھروں میں گرم اے سی و گیجر کے ساتھ نرم و گرم کپڑوں سے لطف اندوز ہوتے ہوے اپنی راتیں گزارنے لگے، ادھر مسجد کے امام پر قیامت آنے لگی، جیسے جیسے ٹھنڈک بڑھتی گئی ان کی موت کی گھڑی قریب ہوتی گئی، ایک رات ایسی بھی آئی کہ نماز عشا کے بعد سارے نمازی اپنے اپنے گھروں کی طرف چلے اور ادھر بوجھل قدموں کے ساتھ، ٹھنڈی سے ٹھٹھرتے ہوے آہستہ آہستہ امام مسجد نے بھی اپنے حجرے کا رخ کیا، مگر میرے بھائی آدمی اپنے گھر کی طرف تیزی سے جاتا ہے اس لیے کہ گھر جاکر وہ گرم کپڑوں کے استعمال سے وہ ٹھنڈک کو دور کرے گا، مگر یہ امام صاحب تو اس لیے دھیرے دھیرے قدموں سے روم کی طرف آرہے ہیں کہ ان کے گھر میں تو کمبل بھی نہیں ہے، کوئی رضائی بھی نہیں ہے، کوئی گرم کپڑا بھی نہیں ہے، جس سے یہ ٹھنڈی سے خود کو بچا سکیں.
الغرض آے وہ روم میں اور بغیر کسی کپڑے کے انھوں نے بستر کا رخ کیا، اے میرے مالک! انہیں ٹھنڈک سے نیند بھی کیا آتی ہوگی بھلا، رات بھر وہ ٹھنڈک سے لڑتے رہے مگر جب ان کی قوت مدافعت جواب دے گئی تو وہ اپنی جان جان آفریں کو سپرد کردیا.
پوری رات یہ ظالم مستی میں سوتے رہے کسی کو ایک ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ ہم تو گرم کپڑوں میں ملبوس اپنے گھروں میں مزے کی نیند سو رہے ہیں مگر میرے مسجد کے امام کی کیا حالت ہے، میرا امام بھی انسان ہے، اس کو بھی ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہوگا، کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آیا مگر جب ان ظالم قوم، دولت کے پجاریوں کو فجر کے وقت نماز پڑھانے کی ضرورت ہوئی تو انھوں نے حجرہ امام کا رخ کیا مگر انہیں کیا پتا تھا کہ ان کا امام ان کا ظلم سہہ نہ سکا بالآخر روتے بلکتے، سسکتے وٹھٹھرتے ہوے اپنا دم توڑ دیا. انا للہ وانا الیہ راجعون.
جب دروازہ توڑکر ان کی لاش کو باہر نکالا گیا تو واللہ اس شدت کی ٹھنڈک میں ان کے بدن پر ایک چادر تک نہ تھی،
آخر اسی دم اس بستی والوں پر قیامت کیوں نہیں ٹوٹ پڑی، ان کے اوپر عذاب کیوں نہیں آگیا، ارے ظالموں! کل قیامت کے دن رب کو کیا مونہہ دکھاؤگے، کس مونہہ سے رسول خدا کا سامنا کروگے، یہ امام تمھارے ظلم کی ایک ایک بات کو قیامت کے دن بتائے گا، تمھارے ظلم کی داستان سرمحشر بیان کی جائے گی، دیکھیں گے کون سی دولت کام آے گی وہاں، کون سے منصب تمھاری وکالت کریں گے،
یاد رکھنا ظالموں! کل یہ امام ایک ایک کے گریبان پکڑ کر رب کے حضور انصاف مانگے گا، کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا. ہر ہر ظلم کا بدلہ دیا جائے گا.
یہ ایک معاملہ نہیں ہے ابھی کچھ دن پہلے ایک حافظ صاحب صرف اس لیے تختہ دار پر لٹک گئے کہ ان کے گھر میں کھانا نہیں تھا، ان کے بچے بھوک سے بلک رہے تھے، ایک باپ سے بچوں کا بلکنا نہ دیکھا گیا اور اس نے خود کشی کر لی.
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس نے کتنا صحیح کیا اور کتنا غلط، بات یہ نہیں ہے کہ حلال کیا یا حرام؟ مسئلہ یہ ہے کہ اس نے خود کشی کیوں کی،کس چیز نے اس کو پھانسی لگانے پر مجبور کیا؟
کیا اس کی بستی میں کوئی مسلمان نہیں رہتا تھا، کیا اس کے جاننے والوں میں کوئی نبی کا کلمہ پڑھنے والا نہیں تھا، کیا اس کے پڑوسیوں میں کوئی ایمان والا نہیں تھا؟
سب مسلمان تھے، سب اپنے آپ کو بڑا کلمہ پڑھنے والے سمجھتے تھے، مگر اس کے پڑوس میں اس غریب کے بچے بھوک سے تڑپتے رہے، کسی کو ان بچوں کی آہ سنائی نہیں دی، کسی نے ان کا بلکنا نہیں سنا،
ارے ظالموں. تم حاجی بھی ہو سکتے ہو، تم نمازی بھی ہوسکتے ہو مگر تم میرے مصطفی کے نہیں ہوسکتے، جس نبی نے فرمایا ہو کہ اس شخص کا مجھ پر ایمان ہی نہیں ہے جو شکم سیر ہو کر سوے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوے.
اب کیسے مومن ہیں یہ جس کا پڑوسی اپنے بچوں کی چیخ و پکار کو سن نہ سکا اور اپنی جان دے دی، کیسے کلمہ پڑھنے والے ہیں یہ.؟
یہ مسجد کے متولیان اس قدر ظالم ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس مسجد میں مینار و گنبد و ٹایلس و ماربل لگانے کے لیے لاکھوں روپے تو ہوتے ہیں مگر انہیں اسی مسجد میں نماز پڑھانے والے امام کی تنگ دستی نظر نہیں آتی، مسجد کے فنڈ میں لاکھوں کی رقم موجود تو ہوتی ہے مگر ان ظالموں کو اگر مسجد کے امام کو ٹھنڈی میں ایک کمبل دینے کی باری اجاے تو ان کا بجٹ خطرے میں آجاتا ہے،
آج جو ائمہ مساجد کی معاشی صورتحال ہے وہ سب ان متولیان کا کیا دھرا ہے اگر یہ چاہ لیں تو پل بھر میں اماموں کی حالت سنور جاے گی.
ارے نادانوں، دولت کے نشے میں چور مسجد کے ٹرسٹیوں! یہ دولت و ثروت و جاہ و منصب کچھ کام آنے والے نہیں ہیں، کب سمجھ آے گی تم لوگوں کو، کب تک ان اماموں کا استحصال کرتے رہوگے؟ کب تک اماموں کے ارمانوں کا گلہ گھونٹے رہوگے، ہوش کے ناخن لو! اپنے دل سے پوچھو! اس امام کا قصور کیا تھا، یہی نہ کہ وہ عالم تھا، اگر ہاں تو آج سے عہد کرو کہ تم دولت والوں کو کسی عالم کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی، دنیا میں ہر ایک کی حیثیت الگ الگ ہے، اگر ساری دنیا کے لوگ تمھارے طرح جاہل و دولت والے بن جائیں تو مسجد کے منبروں سے قال اللہ و قال رسول اللہ کی صدائیں کون بلند کرے گا؟ اگر سب دنیا دار ہی ہوجائیں تو دین کی ترویج و اشاعت کون کرے گا؟ اس لیے ہر ایک قدر کرو، حسب ضرورت ان کے مشاہرہ کا انتظام کرو، وہ صرف اس لیے تمھاری مسجد میں آیا ہے کہ تمھاری نماز صحیح ہوسکے، تمہارے بچے دیندار بن جائیں، اس کے پاس بھی دو ہاتھ پیر تھے وہ چاہتا تو کوئی اور کام کر لیتا مگر اللہ کو اس سے یہ کام لینا تھا اس لیے وہ تمھارا امام بن کر تمھارے پاس آیا.
اگر اپنے رویہ درست نہیں کیے تو بہت جلد تمھاری وہی حالت ہونے والی ہے جو ان قوموں کی ہوئی، پلٹ آؤ، لوٹ آؤ، بدلو اپنی فکر کو.
گر نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
اللہ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور حتی الوسع سب کو خدمت خلق کی توفیق مرحمت فرمائے.
نوٹ! ان ظالم ٹرسٹیوں سے میری مراد سب لوگ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو واقعتاً ظلم کرتے ہیں.

الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

  • Posts not found

alrazanetwork

Recent Posts

انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت

انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت انسانی زندگی خوشی اور غم کے احساسات… Read More

6 دن ago

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!!

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!! ڈاکٹر ساحل شہسرامی کی رحلت پر تعزیتی تحریر آج… Read More

3 مہینے ago

ساحل شہسرامی: علم وادب کا ایک اور شہ سوار چلا گیا

ساحل شہسرامی: علم وادب کا ایک اور شہ سوار چلا گیا_____ غلام مصطفےٰ نعیمی روشن… Read More

3 مہینے ago

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال ✍🏻— مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی… Read More

3 مہینے ago

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!!

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!! تحریر: جاوید اختر بھارتی یوں تو جب سے دنیا… Read More

3 مہینے ago

نکاح کو آسان بنائیں!!

نکاح کو آسان بنائیں!! ✍🏻 مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی آسام رب تعالیٰ… Read More

3 مہینے ago