حیات بابا فرید گنج شکر رضی اللہ عنہ کے چند تابندہ نقوش
از: محمد مقتدر اشرف فریدی، اتر دیناج پور، بنگال
بر صغیر پاک و ہند میں جن نفوس قدسیہ نے اپنے علم و فضل، زہد و تقوی، حسن اخلاق اور صبر و تحمّل کے ذریعے اسلام کی نورانی شمع روشن کی اور اس کی نور بکھیرتی کرنوں سے تاریک دلوں کو جگمگایا، لوگوں کو فسق و فجور کی گھٹا ٹوپ وادیوں سے نکال کر راہِ رشد و ہدایت پر جمع کیا، بھٹکتے ہوئے ذہنوں کو ایمان و عمل کی قندیل سے منوّر کیا، پژمردہ چہروں کو عشق و وفا کی چمک سے تازگی دی، غمزدہ دلوں کو آداب شریعت کی چاندنی سے ٹھنـڈک بخشی، پیاسی نگاہوں کو عشق و محبت کے جام سے سیراب کیا۔ ان میں آسمان ولایت کے آفتاب، سلسلہ چشتیہ کے عظیم پیشوا، ارباب یقین کے مقتدا، باکرامت ولی، جلیل القدر بزرگ، مایہ ناز صوفی، تاج العاشقین، سلطان العارفین، برہان العاشقین، شیخ الاسلام و المسلمین حضور سیدنا سرکار بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رضی اللہ تعالی عنہ کا اسم گرامی بھی ہے۔
ولادت با سعادت:
سلطان العارفین برہان العاشقین حضور سیّدنا سرکار بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رضی اللہ تعالی عنہ 529ھ مدینة الاولیا ملتان کے قصبہ کھتوال میں پیدا ہوئے۔
آپ کا اسم گرامی مسعود ہے جبکہ فرید الدین کے لقب سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ حضرت سیّدنا بابا فرید کے ایک سو ایک نام و القاب ہیں جن کا ورد حاجت روائی میں بےحد مؤثر ہے۔ مشہور القاب: بابا فرید، فرید الدین اور گنج شکر ہیں۔
آپ تقوی و پرہیزگاری، زہد و ورع، عبادت و ریاضت، خوف خدا اور اطاعت مصطفیٰ ﷺ، ترک دنیا اور عشق و وفا، ہمدردی، خیر خواہی اور خدمت خلق میں بے نظیر زمانہ اور منفرد و یگانہ تھے۔ آپ قطب الاقطاب حضور سیّدنا سرکار خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ عنہ کے معزز مرید و خلیفہ تھے اور ان کے علم و فضل، جاہ و حشمت اور عظمت و بزرگی کے فیض یافتہ تھے اور آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کو بیک وقت آپ کے پیر و مرشد قطب الاقطاب حضور خواجہ سیّدنا قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ سمیت سلطان الھند، عطائے رسول حضور سیّدنا سرکار خواجہ معین الدین چشتی رضی اللہ تعالی عنہ نے روحانی قوت عطا کی اور آپ کو دیکھ کر حضور سیّدنا سرکار خواجہ معین الدین چشتی رضی اللہ نے فرمایا تھا: "بابا فرید ایک ایسی شمع ہے جس سے درویشوں کا سلسلہ روشن ہوگا”۔
آپ کے وہ خاص مریدین و خلفا جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین حق کی ترویج و اشاعت میں صرف کیا اور اسی فریدی شمع کی کرنوں سے ایک جہاں کو منوّر کیا، وہ یہ ہیں: "قطب عالم حضور سیدنا سرکار خواجہ جمال الدین ہانسوی، محبوب الہی حضور سیدنا سرکار خواجہ نظام الدین دہلوی، حضور سیدنا سرکار مخدوم علاء الدین صابر کلیری، حضور سیدنا سرکار خواجہ بدر الدین اسحاق رضی اللہ تعالی عنھم”۔
حضور سیدنا سرکار بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ دین حق کی سر بلندی و سرفرازی میں صرف ہوا۔ وہ ایک ایسے منبع خیر و برکت تھے کہ ان کے دربار پر بہار سے فیض حاصل کرنے کے لیے خاص و عام کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ آپ کی زندگی کا اولین مقصد اسلام کی تبلیغ تھا جس میں شب و روز مصروف رہتے تھے۔ مزاج میں توازن و سکون تھا، طبیعت میں نرمی تھی۔ انتہائی بدترین مزاج کے سامنے بھی برہمی کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔ دوسروں کی خطائیں معاف کر دیتے تھے۔ بلا تفریق مذہب و ملت سبھی آپ سے اکتساب فیض کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔ خلق خدا کا ہجوم اپنی تمنّائیں، آرزوئیں اور مرادیں لے کر پہنچتے اور حصول فیض کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے حسن کردار، شیریں گفتار، صبر و تحمّل اور اخلاق کریمانہ سے نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دیا اور ہزاروں گم گشتگان راہ کو دین سے وابستہ کیا۔
گنج شکر ہونے کی وجہ تسمیہ:
کچھ سوداگر شکر لے جا رہے تھے حضور سیدنا بابا فرید رضی اللہ عنہ نے ان سے شکر مانگی انہوں نے جواب دیا کہ یہ شکر نہیں نمک ہے تو سرکار بابا فرید نے فرمایا نمک ہی ہوگا۔ سوداگروں نے جب سامان کھولا تو وہ سب نمک ہی تھا۔ یہ دیکھ کر سوداگر سمجھ گئے یہ ہمارے جھوٹ بولنے کی شامت ہے، لہذا وہ لوگ دوڑ کر سرکار بابا فرید کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عذر خواہی کرتے ہوئے عرض کیا: حضور دعا فرما دیجیے کہ نمک پھر شکر ہو جائے، جواب دیا شکر ہو جائے گا۔ سوداگروں نے واپس آکر دیکھا تو تمام نمک شکر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ (اخبار الاخیار)
سیدنا سرکار بابا فرید کی سادگی اور قناعت پسندی: ایک دفعہ آپ کا لباس ٹکڑے ٹکڑے اور بہت بوسیدہ ہو گیا تھا، ایک شخص نے آپ کی خدمت میں کرتا پیش کیا، آپ نے زیب تن فرما لیا اور پھر فورا ہی اتار کر شیخ نجیب الدین
متوکل کو (جو آپ کے پاس بیٹھے تھے) دیتے ہوئے فرمایا: جو لطف مجھے اس پھٹے پرانے کرتے میں ہے، اس نئے کرتے میں نہیں آتا ( اخبار الاخیار)
حضرت سیدنا بابا فرید گنج شکر رضی اللہ عنہ اکثر اوقات شربت سے روزہ افطار فرماتے، شربت کا ایک گلاس جس میں تھوڑے سے منقی ہوتے تھے۔ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا اس میں سے آدھا بلکہ دو تھائی حاضرین مجلس میں تقسیم کر دیتے تھے اور باقی خود نوش فرما لیتے اور اس میں سے بھی کسی طلب گار کو دے دیا کرتے تھے پھر دو روغنی روٹیاں آپ کی خدمت میں پیش کی جاتیں، جن میں سے ایک ٹکڑا تناول فرما کر باقی حاضرین مجلس میں تقسیم فرما دیتے۔ اس کے بعد دستر خوان پر طرح طرح کے کھانے چنے جاتے جو تمام لوگ کھاتے اور آپ دوسرے دن افطار تک پھر کوئی چیز تناول نہ فرماتے۔ سوتے وقت اسی کمبل کو جس پر دن کے وقت بیٹھا کرتے تھے، بچھونا بنا لیتے اور یہ کمبل اتنا چھوٹا تھا کہ اس کے بچھونے پر لیٹتے وقت آپ کے پاؤں اس سے باہر ہی رہتے تھے۔ ( اخبار الاخیار)
آپ کی مکمل زندگی فقر و قناعت، سادگی، سخاوت اور صبر و شکر سے لبریز ہے۔
حضور سیدنا سرکار بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رضی اللہ عنہ دنیائے اسلام کے وہ عظیم المرتبت بزرگ ہیں جنہوں نے دین اسلام کی تبلیغ و ترویج کا فریضہ انتہائی محنت، جاں فشانی، اخلاص، حسن کردار اور شیریں گفتار سے انجام دیا اور شجر اسلام کو سر سبز و شاداب کیا۔ آپ نے اپنی روحانی عظمت اور کردار کی بلندی سے سلسلہ چشتیہ کو خوب فروغ و ارتقا بخشا اور سلسلہ چشتیہ کا دائرہ وسیع تر ہوا۔ آپ کی تعلیمات اور افکار و نظریات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، جس پر عمل کر کے ہم دارین کی سعادتیں حاصل کر سکتے ہیں۔
وصال و مدفن
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا وصال، 5 محرام الحرام 664 ہجری میں ہوا۔ آپ کا مزار پر انوار پنجاب (پاکستان) کے شہر پاک پتن شریف میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔
۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا… Read More
عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان… Read More
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں! از:مفتی مبارک حسین مصباحی استاذ جامعہ… Read More
انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت انسانی زندگی خوشی اور غم کے احساسات… Read More
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!! ڈاکٹر ساحل شہسرامی کی رحلت پر تعزیتی تحریر آج… Read More
ساحل شہسرامی: علم وادب کا ایک اور شہ سوار چلا گیا_____ غلام مصطفےٰ نعیمی روشن… Read More