ملکی حالات پہ سوشل میڈیا کی دوربین : احمدرضا صابری

ملکی حالات پہ سوشل میڈیا کی دوربین

احمدرضا صابری


وطن عزیز میں اِن دنوں جو ہورہاہے وہ امید کے خلاف تو نہیں ہے البتہ تباہ کن ضرور ہے۔ دن بدن حالات کی سنگینی بڑھی جارہی ہے افراتفری اور خوف ودہشت کا سایہ گہراتا جارہا ہے۔ غیر یقینی صورت حال اور تشویشناک مستقبل کا ڈر عوام وخواص میں سہرن پیدا کررہا ہے۔موجودہ حکومت اپنے فاشسٹ ایجنڈے کو پورے ملک پر تھوپنے کے لیے کسی بھی حدتک جانے کو تیار ہے۔ مخالفت میں اٹھنے والی تمام آوازوں کو پولیس، کرائے کے غنڈوں اور دیگر آئینی اداروں کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حیرانی یہ ہے کہ اس جمہوری ملک کی پولیس اب سرعام اقلیتوں کو ملک چھوڑنے کے لیے کہہ رہی ہے، اور بےقصور شہریوں کے گھروں میں گھس کر ان کو زدوکوب کررہی ہے، ان کے اثاثے کو نقصان پہنچارہی ہے۔
حکومت اور ان کے درباری میڈیا کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی معاملہ ہندومسلم نہیں ہوپارہاہے، جس کا ان کو بہت قلق ہے۔ ملک کا وزیر اعظم لوگوں کو کپڑوں سے پہچاننے کے لیے کہہ رہا ہے، وزیر داخلہ اپنے آئین مخالف قانون پر ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کی بات عوامی اسٹیج سے کہہ رہا ہے،مسلمانوں کو گھس پیٹھیا کہہ کر مخاطب کررہا ہے،حکومت کے مختلف مرکزی وزرا دیکھ لینے اور پاکستان بھیج دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔یہ سب ملک کو ایک تباہ کن مستقبل کی طرف لے جارہے ہیں۔
ملک کےجن جن صوبوںمیں بی جے پی یا ان کے اتحاد والی سرکاریں ہیں وہاں ظلم وبربریت کی انتہا کردی گئی ہے۔ دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس نے غیر قانونی طورپر کیمپس یہاں تک کہ لائبریری اور ریڈنگ رومز میں گھس کر نہتے طلباء پر لاٹھی ، بندوق اور آنسو گیس کے گولوں سے حملہ کیا جس میں درجنوں طلباء شدید زخمی ہوئے اورکچھ کی جانیں بھی گئیں۔ دہلی کے ہی سیلم پور جعفرآباد کے علاقے میںاحتجاجی جلوس کو منتشر کرنے اور ان میں خوف ہراس پھیلانے کے لیے پولیس نے سیکڑوں لوگوں کو مارکر ہاتھ پیر توڑ دیے پھر انہیں پر مقدمہ کرکے جیل میں ڈال دیا۔ دہلی کے ہی جامع مسجد علاقے میں بھی بعینہ یہی کارروائی کی گئی۔اتر پردیش کے ایک درجن سے زائد اضلاع میں حالات بد سے بدتر ہیں اب تک 18 کے قریب عام عوام کی موت ہوچکی ہے،ہزاروں بے گناہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ کروڑوں کی عوامی املاک تباہ کیے جاچکے ہیں۔آسام اور نارتھ ایسٹ کے علاقوں میں مظاہرین پر جس طرح کی بربریت کی جارہی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں نہیں ہے، سوشل میڈیا کے سینے میں ایک ایک لمحہ محفوظ ہے۔جامعہ کی طرز پر جواہر لعل نہرو یونیورسیٹی پر کچھ نقاب پوشوں نے پولیس کی آنکھوں کے نیچے ہاسٹل میں گھس کر نہتے طلبا، طالبات واساتذہ پر لوہے کی چھڑ اور لاٹھی ڈنڈوں سے حملہ کیا ، جس میں درجن بھر سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے ۔ غرضیکہ ملک کے 80فیصد سے زائد علاقوںمیں احتجاج اور اس پر سرکاری مشنری کی بربریت جاری ہے۔
موجودہ کہرام امید کے خلاف اس لیے نہیں ہے کہ جس طرح کے لوگ ۲۰۱۴ء میں حکومت میں آئے ان کا ماضی اس سے بھی سیاہ ترین رہا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے برسوں دن رات اسی دن کے لیے محنت کی کہ کسی طرح ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو ختم کرکے اختلافات کی کھائی کو مزید گہری کی جائے تاکہ آنے والی کئی دہائیوں تک وہ حکومت کرسکیں اور ملک چند مٹھی بھر سرمایہ داروں کے لیے جنت اور باقیوں کے لیے جہنم بن جائے۔ واضح رہے کہ ان کا مقصد اقلیتوں پر کنٹرول کرنا ہرگز نہیں بلکہ یہ اکثریتوں کے دماغ کو ہائی جیک کرکے اس پر کنٹرو کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ صرف ۳۸؍ فیصد ووٹ لے کر ہی یہ اقتدار میں آئے ہیں جبکہ ۶۲؍ فیصد لوگ ابھی بھی ان کے ایجنڈے کے خلاف ہیں۔
اس پورے ڈرامے میں سوشل میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اس نے حکومت وقت کی بنیاد ہلاکر رکھ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت متنازع قانون شہریت ترمیمی ایکٹ یعنی سی اے اے کو آنا فانا میں دونوں ایوانوں سے پاس کراکر اگلے ہی دن صدرجمہوریہ سے دستخط کروالینے کے باوجود مختلف ہتھکنڈے اپنا کر عوام سے حمایت کے لیے گھر گھر کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔
دراصل جمہوریت کا چوتھا ستون کہے جانے والی نیشنل میڈیا کا ۹۹؍فیصد طبقہ حکومت کے ہاتھوں بک چکا ہے کیونکہ جتنے بھی نیشنل چینلز ہیں ان میں ۶۸؍ چینل تو امبانی نے خریدے ہوئے ہیں جبکہ۱۶۲؍ چینلوں میں اس کی پارٹنر شپ ہے کل ملاکر ۲۳۰؍نیشنل چینل سرکارکی جیب میں ہے،ورنہ اتنے بڑے واویلے پر سرکار کب کی برخاست ہوچکی ہوتی لیکن میڈیا کی غلط رپورٹنگ اورعلی الاعلان سرکار کی حمایت کی وجہ سے عوام میں غلط انفارمیشن کا سیلاب آگیا ہے جس کی وجہ سے لوگ پس وپیش کے شکار ہیں لیکن سوشل میڈیا نے اس کمی کو بخوبی پورا کیا اور ملک میں پہلی بار ساری اقوام کو متحد کردیا اور آج پورے ملک کے کونے کونے میں احتجاج اور غم وغصے کی آگ ایک ساتھ بھڑک اٹھی ہے۔
پیغام رساں ذرائع کی ترقی کے اس دور میں سوشل میڈیا مثلاً واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور ٹیلی گرام نے ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ ورنہ ۲۳۰؍ چینلوں کا جھوٹ اب تک ہندوستان کی جمہوریت کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے گیا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب سرکار سوشل میڈیا سے شدید خوف کھانے لگی ہے۔ جہاں جہاں بھی تشدد کرنا ہوتا ہے یا جہاں سے احتجاج کی آوازیں بلند ہونے کی امید ہوتی ہے وہاں فوراً نیٹ بند کردیا جاتا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ نیٹ بند کرنے والا ملک بن چکا ہے، جو کہ ایک شرمناک حرکت ہے خاص کر اس حکومت کے لیے جو ڈیجیٹل انڈیااور کیش لیس اکانومی کا نعرہ دیتے ہوئے اقتدار میں آئی تھی۔
بی جے پی نے جس سوشل میڈیا کا برسوں تک فائدہ اٹھایا اب وہی سوشل میڈیا بی جے پی کے لئے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے زیادہ تر پوسٹ وزیر اعظم کی خالص جھوٹ پر مبنی ٹوئٹس یا تقاریر ہیں ،جوکہ 2014 اور 2019کے عام انتخابات میں ان کی مہم کا ایک حصہ تھے۔ سوشل میڈیا پر موجود پرانی پوسٹوں کا ہی کمال ہے کہ انتخابات کے دوران تمام ’پھینکے گئے جملے‘ لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔سوشل میڈیا پر ایسے متعدد ہیش ٹیگ اور پیج بنائے گئے ہیں جو بی جے پی کے انتخابی وعدوں اور این ڈی اے حکومت کے کام میں زمین و آسمان کا فرق ہونے کے تعلق سے مسلسل بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کا پول کھول رہے ہیں۔
موجودہ ملکی بحران میں بھی سوشل میڈیا حکومت کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ بھلے ہی ملک کی مین اسٹریم میڈیا ان کےجھوٹ اور دوغلی پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کی از حد کوششیں کرتی رہی ہے لیکن این آرسی، ڈیٹینشن، کیمپ ، سی اے اے اور این پی آر پر سوشل میڈیا نے انہیں برہنہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑاہے۔ جہاں ٹیلی ویزن کے نیوز چینل نہیں پہنچ سکتے وہاں تک سوشل میڈیا کی رسائی ہے اور اب ملک کے ہل جوتنے والے کسان سے لے کر جوتے سلنے والے موچی تک کو پتہ ہے کہ ہمارا وزیر اعظم اعلیٰ درجے کا جھوٹا اور وزیر داخلہ فسادی ذہنیت رکھنے والا ایک کٹر ہندوتوا کا ایجنٹ اور بھارتی جنتا پارتی ملک کو مذہبی دنگوں کے آگ میںجھونک کر ہندوتوا اور سنگھ پریوار کے ایجنڈوں کو نافذ کرنے کی نیت رکھنے والی ایک پارٹی ہے۔
اخیر میں یہ بتانا لازم ہے کہ این آرسی این پی آر اور سی اے اے پر چل رہے ملکی پیمانے کے احتجاج نے رنگ دکھانا شروع کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ میں الٹے سیدھے قدم اٹھارہی ہے، جامعہ اور علی گڑھ کے طلباء پر حملہ ہو یا ابھی جے این یو کے طلباء پر یہ سب ایک شدید بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ یہ سب حرکتیں کرکے حکومت اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑی پر پیر ماررہی ہے جس کے نتائج آنے والے دنوں میں اس کو بخوبی بھگتنے ہوں گے۔طلباء پر حملہ ایک انتہائی قدم ہے جو کسی بھی جمہوری حکومت کے خاتمے کی گھنٹی ہے ۔ لہٰذا مظاہرین کو قطعاً مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کہ ان کی صدائے احتجاج رائیگاں جارہی ہے، ہرگز نہیں! بلکہ جس سوشل میڈیا کا استعمال کرکے انہوں نے جھوٹ کی ندیاں بہائی تھیں وہی سوشل میڈیا انہیں اسی ندی میں بہالے جانے کو تیار ہے۔حکومت اپنی خجالت چھپانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنارہی ہے ۔ اس کالے قانون کی واپسی کا اعلان ڈائریکٹ کبھی نہیں ہونے والا بلکہ یہ چوردروازے سے یا تو سپریم کورٹ سے اس پر اسٹے لیں گے یا پھر اسے ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کی کوشش کریں گے لیکن کمال ہے سوشل میڈیا کا کہ جس نے عام عوام میں بھی ان دوغلی حرکتوں کی ایسی سمجھ دے دی ہے کہ ہرکوئی سمجھ رہا ہے کہ یہ کیا کررہے ہیں اور کیا کرنے والے ہیں، لہٰذا مجھے نہیں لگتا کہ اب لوگ ان کو جھکائے بغیر دم لینے والے ہیں۔

  • Posts not found

alrazanetwork

Recent Posts

انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت

انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت انسانی زندگی خوشی اور غم کے احساسات… Read More

6 دن ago

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!!

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!! ڈاکٹر ساحل شہسرامی کی رحلت پر تعزیتی تحریر آج… Read More

3 مہینے ago

ساحل شہسرامی: علم وادب کا ایک اور شہ سوار چلا گیا

ساحل شہسرامی: علم وادب کا ایک اور شہ سوار چلا گیا_____ غلام مصطفےٰ نعیمی روشن… Read More

3 مہینے ago

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال ✍🏻— مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی… Read More

3 مہینے ago

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!!

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!! تحریر: جاوید اختر بھارتی یوں تو جب سے دنیا… Read More

3 مہینے ago

نکاح کو آسان بنائیں!!

نکاح کو آسان بنائیں!! ✍🏻 مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی آسام رب تعالیٰ… Read More

3 مہینے ago