آل انڈیا تنظیم تحفظ سنیت بائسی پورنیہ بہار کے زیر اہتمام آل
انڈیا طرحی نعتیہ مشاعرے کے انعقاد کے اعلان پر واویلا کیوں؟
از _ محمد افضل رضا نوری پورنوی
آج میں کچھ ضروری باتیں لیکر آپ کے سامنے حاضر ہوا ہوں، کیونکہ
ان باتوں سے آپ کو باخبر رہنا بے حد ضروری،
پہلی بات یہ ہے کہ
گذشتہ سال آل انڈیا تنظیم تحفظ سنیت بائسی پورنیہ بہار نے ایک آل انڈیا طرحی نعتیہ مشاعرے کا انعقاد کیا تھا،مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ پروگرام کینسل ہوگیا، جس کی اطلاع تنظیم نے پریس کانفرنس کرکے آپ کو دی دے تھی،مگر اب کیونکہ حالات سازگار ہورہے ہیں اسی لئے تنظیم تحفظ سنیت بائسی پورنیہ بہار وہی پروگرام دوبارہ کرنے جارہی ہے، اور اس پروگرام کا ہونا بھی ضروری ہے ___وہ اسلئے کہ ہر تنظیم و تحریک کے کچھ مقاصد ضرور ہوتے، اور وہ تنظیم یا تحریک اپنے مقاصد پر کام کرنے کے لئے اپنے لئے سبیل بناتی ہے،تمام تنظیموں کی طرح تنظیم تحفظ سنیت بائسی پورنیہ بہار کے بھی کچھ مقاصد ہیں جن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تنظیم دن رات ایک کرکے اپنی منزل کی مسافت کو طئے کررہی ہے۔
آل انڈیا تنظیم تحفظ سنیت بائسی پورنیہ بہار کا اولین مقاصد میں ایک مقصد اردو ادب کی زبوں حالی کا سدّباب بھی ہے،آزادی کے بعد سے لیکر اب تک ہماری اردو زبان کے ساتھ جو سوتیلا برتاؤ برتا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،اصل میں اس کے اصل ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں، کیونکہ ہم نے، اپنی پیاری زبان،،،، وہ زبان جسےکے تعلق سے داغ دہلوی نے کہا تھا کہ
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
کی نشر و اشاعت، کے لئے صحیح معنوں میں دھیان ہی نہیں دیا، حالانکہ آزادی بعد جب اردو زبان ہماری تہذیب کا حصہ سمجھی جاتی تھی ، اس وقت سے اگر ہم اپنی زبان کی نشرواشاعت کے لئے فکر مند ہوتے تو آج اردو زبان کا معیار ہی کچھ اور ہوتا،ملک کی تقسیم کے بعد کے سروے کے مطابق اس وقت اردوزبان تقریباً 18 – سے 23 فیصد لوگ بولتے اور لکھتے پڑھتے تھے، مگر آج حالات یہ ہیں کہ صرف 3سے 4 فیصد لوگ ہی اردو سے آشنائی رکھتے ہیں،آزادی کے 74-75 سالوں میں اردو اتنا زبوں حال ہوجائے گا کسی نے سوچا نہیں تھا،اب اردو صرف اور صرف مسلمانوں کی زبان سے متعارف ہونے لگی،، آخر اس تنزلی کے اسباب و وجوہات کیا ہیں
بہت غور و فکر کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے اگلوں نے اردو زبان وادب کو صرف اور صرف اپنی مادری زبان ہی تصور کیا، میں یہ نہیں کہتا کہ اگلوں نے اردو ادب کی نشر واشاعت کے لئے کچھ نہیں کیا،ایسا ہرگز نہیں ہے، کیونکہ یہ انہیں کی محنتیں ہیں کہ آج ہم اردو زبان وادب کے سائے میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں،مقصد تحریر یہ کہ ہم نے ہر دور میں یہ سمجھ لیا ہے کہ جتنا کام اردو ادب کے لئے ہمارے اگلوں نے کیا ہے، اردوزبان و ادب کی تحفظ بقاء کے وہی کافی ہے، حالانکہ یہی ہماری سب سے بڑی بھول اور چوک رہی…….جس کی بنیاد پر دھیرے دھیرے اردو زبان و ادب کا پرندہ بوڑھا ہوگیا، اب طاقت پرواز اس کے پاس نا رہی….اگر یہی احوال باقی رہے تو وہ دن دور نہیں کہ اردو کے وصال پر ہم یا ہماری نسلیں، گریہ و ماتم و نوحہ کرتی نظر آئیں گی
دوسری بات
اس پروگرام کو سیمانچل کے ساتھ مختص اس لئے کیے گیا، اور تنظیم نے اردو زبان و ادب کی زبوں حالی کے سدباب کے لئے اس زمین کو اس لئے چنا کہ ایک زمانے میں اسی بائسی، پورنیہ کی زمیں پر اپنے وقت کے بہترین اردو ادب کے ماہرین، شعراء، نقاد، ادیب، اور اہلیان قلمدان نے عدم سے وجود کا سفر طے کیا اور پھر اسی زمین کے آغوش میں ہمیشہ ہمیش کے لئے روپوش ہوگیے، ان شخصیات میں، جناب وفا ملک وفا پورنوی، عبدالجلیل پورنوی ،احمر نیاز پورنوی، اقلیم پورنوی، نیاز رہبر پورنوی، شاہد یوسفی پورنوی ،وغیرہ قابل ذکر ہیں،
یہ وہ ایسی شخصیتیں تھیں جن کے نقوش کو اگر آب زر سے بھی محفوظ کیا جاتا تو کم تھا،مگر یہ شخصیات کب اور کیسے اور کہاں معدوم ہوگئے کسی کو کچھ خبرنہیں ، نا ان کے مجموعات کو مرتب کیا گیا نا ان کے نگارشات کی حفاظت کی گئی ، جس کی بنیاد پر ایک عظیم قیمتی خزانوں کا ذخیرہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے زائل کردیا، ان بزرگوں کے ساتھ اپنے علاقائی صاحبان قلم و قرطاس نے وہ ناانصافی کی جس کا افسوس موجودہ نسلوں کو ہے، اس ترقی یافتہ انٹرنیٹ کے دور میں انٹر نیٹ پر کسی ویکیپیڈیا تک میں ان شخصیات کا نام و نشان تک موجود نہیں،…………….ایسا نہیں کہ زمین سیمانچل نے صرف انہیں شخصیات کو پیدا کرنے کے بعد صاحبان قلم و قرطاس پیدا کرنا بند کردیئے،
بلکہ آج تو کل کے مقابل زیادہ اور مشاق و قلم کار، شاعر و ناقد ،ادیب موجود ہیں……… مگر ان کے فن کی قدر کرنے والا کوئی نہیں، انہیں کوئی اچھا پلٹ فارم میسر نہیں جہاں سے وہ اپنے علم و فن کا جوہر دنیا کے سامنے بکھیریں،اب جو ہوا، ہوا، مگر اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ آل انڈیا تنظیم تحفظ سنیت بائسی پورنیہ بہار ،موجودہ، ادباء و شعراء علماء ،مفتی ،مدرس، محقق، محرر نقادوں کے لئے ایک پلٹ فارم تیار کر چکی ہے، تاکہ موجودہ ادباء و شعراء نقاد، علماء وفضلاء کو دنیا کے سامنے لایا جائے، اور ان کی خدمات کو سراہتے ہویے انہیں خراج تحسین پیش کی جا سکے ، تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ اپنی زبان و ادب کی تحفظ و بقاء کے ہمیشہ کوشاں رہیں
تیسری بات
تنظیم تحفظ سنیت کے مشاعرے کے انعقاد کا مقصد یہ بھی ہے کہ علاقے میں کون سا شاعر کس نہج پر کام کرسکتا ہے، اور اس کا فن کس قدر مظبوط ہے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فنی خدمات لیا جاسکے، اور بزرگوں کے کلام یا مجموعات کی جمع و ترتیب کا کام اس کے سپرد کیا جاسکے،
چوتھی بات،
مشاعرے کے ساتھ ساتھ اسی دن، دن میں ہی ایک سیمنار کا بھی انعقاد تنظیم کررہی ہے، یہ سیمنار علاقائی اکابرین میں سے کسی ایک پر منعقد ہوگا تاکہ دھیرے دھیرے اکابرین پر بھی کچھ کام ہوجائے اور وہ ہمیں اپنی اپنی قبروں سے پکار پکار کر نا پوچھیں……ائے میری موجودہ نسلوں ہمیں یہ بتاؤ کہ آخر کب تک رہیں گمنام ہم؟
پانچویں بات
یہ کہ آج کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ یہ فطور پیدا ہوگیا ہے کہ اردو ادب کی خدمت صرف ہم اہل غزل ہی کرتے ہیں یہ نعت کے شعراء سے اردو ادب کی خدمت نہیں ہوسکتی………….. اس پروگرام کے انعقاد کا مقصد ایک یہ بھی ہے کہ انہیں پتہ تو چلے کہ اردو ادب کے اصلی خادم ہم ہیں، تم نے تو غزل کو صرف محبوب کے لب و رخسار تک محدود کردیا ہے، جس طرح غزل کے ذریعے اردو ادب کی خدمت ہوتی ہے تو نعت رسول کے ذریعے اردو ادب کی خدمت کیوں نہیں ہوسکتی،
باتیں تو بہت ہیں مگر بات بڑی طویل ہوگئی اسلئے میں سیدھے مقصد تحریر پر آتا ہوں،جب سے آل انڈیا طرحی نعتیہ مشاعرہ کے انعقاد کا اعلان ہوا ہے تب سے کچھ لوگوں کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف جلسے کی مخالفت اور دوسری طرف مشاعرے کا انعقاد، یہ دھرا رویہ کیوں؟ ان سے میرا کہنا یہ ہے کہ ہماری تنظیم کے قومی صدر حضرت مفتی غلام آسی مونس پورنوی صاحب کا موقف یہ ہے کہ رواجی جلسے بالکل بھی نا کئے جائیں، آج ان رواجی جلسوں نے معاشرے کی حالت تباہ کرکے رکھا، ایک علاقے میں ایک ایک رات میں پانچ پانچ جلسے منعقد ہوتے ہیں، ان جلسوں میں روپے پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اس لئے ان کا کہنا یہ ہے کہ رواجی جلسوں کی جگہ ضروریاتی جلسے ہوں مگر مختصر اور ان جلسوں میں اپنے علاقائی علماء و خطباء کو ہی ترجیح دی جائے ، ان رواجی جلسوں پر انہوں نے بہت کچھ لکھا بھی اور کہا بھی،اس اگر اسطرح کے پروگرامات نام ہوئے تو یقیناً زبان وادب کا نقصان ہوسکتا ہے اور موجودہ جواں سال اہلیان فن کے لئے کوئی پلٹ فارم تیار نہیں ہوسکتا اس لئے، علمی و فنی پروگرام کرنے میں کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے،مگر یہاں حقیقت حال دوسری ہے۔
از _ محمد افضل رضا نوری پورنوی
جنرل سیکریٹری آل انڈیا تنظیم تحفظ سنیت بائسی پورنیہ بہار ،
1/ستمبر 2021
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ (۲)جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں:
جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!! تحریر:جاوید اختر… Read More
۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا… Read More
عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان… Read More
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں! از:مفتی مبارک حسین مصباحی استاذ جامعہ… Read More
انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت انسانی زندگی خوشی اور غم کے احساسات… Read More
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!! ڈاکٹر ساحل شہسرامی کی رحلت پر تعزیتی تحریر آج… Read More