نفرت کا بھنڈارا
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
_________ہندو سماج کا بھنڈارا چل رہا ہے۔لائن میں لگے لوگ اپنی اپنی باری پر کھانا لے رہے ہیں۔اسی لائن میں منہ پر دوپٹہ لپیٹے ایک عورت بھی کھڑی ہے۔اسے دیکھتے ہی کھانا بانٹنے والا بڑی حقارت اور تلخ لہجے میں کہتا ہے؛
"کھانا لینا ہے تو جے شری رام کہنا ہوگا”
عورت نعرہ لگانے سے انکار کرتی ہے۔جس پر دونوں میں خوب بحث ہوتی ہے۔ایک یوٹیوبر نے اسے ریکارڈ کیا، ویڈیو وائرل ہوگیا، جو پبلک ڈومین میں ہے۔تھانے والے آفیشلی شکایت کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔
______________دو کردار دو نظریے
مذکورہ واقعے میں دو کردار ہیں ایک بھنڈارے والا، دوسرا نقاب پوش عورت کا۔بھنڈارے والا تقریباً ساٹھ پینسٹھ سال کا بوڑھا تھا جب کہ خاتون تیس پینتیس سال کی محسوس ہو رہی تھی۔دونوں کرداروں کا جائزہ لیا جائے تو دو باتیں سامنے آتی ہیں؛
1۔ہندو بوڑھا نہایت متشدد اور بدتمیز محسوس ہوا۔اس نے اپنی عمر اور بھنڈارے کا مقصد، کسی کا لحاظ نہیں کیا۔بھنداڑے/لنگر کا بنیادی مقصد ضرورت مندوں کو کھلانا پلانا ہے۔کھانے والے کا مذہب پوچھا جاتا ہے نہ علاقہ! ہماری خانقاہوں میں بھی روزانہ ہزاروں انسان کھانا کھاتے ہیں، جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔سِکھوں کے گرو دُواروں میں بھی ہزاروں لوگ لنگر کھاتے ہیں کبھی بھی کسی خانقاہ یا گرو دوارے میں اللہ اکبر یا گرو نانک کے نعرے نہیں لگوائے جاتے، مگر اس وقت ہندو سماج کے ایک بڑے حصے میں دوسرے مذاہب خصوصاً اسلام سے اس قدر نفرت بھر دی گئی ہے کہ آٹھ سال کا بچہ ہو یا ساٹھ سال کا بوڑھا، کوئی بھی نفرت دکھانے کا موقع نہیں چوکتا۔اس بوڑھے کی بدتمیزی اور مذہبی نعرہ لگوانے کی ضد صاف بتا رہی تھی کہ اس کا مقصد کھانا کھلانا نہیں اپنے دھرم کی دھونس جمانا تھا اسی لیے اس کا انداز بڑا گھٹیا اور گالی گلوچ والا تھا جو اس کی سوچ اور خاندانی تہذیب کا پتا دے رہا تھا۔
عورت کا لائن میں لگنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے کھانے کی ضرورت تھی۔اسے لائن میں نہیں لگنا چاہیے تھا مگر کئی بار مجبوریاں خود داری کو دبا لیا کرتی ہیں۔مگر پھر بھی اس خاتون کی ہمت اور فکری پختگی کی داد دینا ہوگی کہ جب کھانے کے بدلے اس کا عقیدہ پامال کرنے کی کوشش ہوئی تو عورت کی غیرت بیدار ہوگئی اور اس نے نہایت بہادری کے ساتھ نفرتی بوڑھے کو آڑے ہاتھوں لیا اور کفر کی بنیاد پر ملنے والے کھانے کو ٹھکرا کر غیرت وخود داری کا ثبوت دیا۔
یہ ویڈیو دیکھ کر میری نگاہ میں کئی ایسے لیڈی اسپتال گھوم گیے جہاں مذہب کی بنیاد پر مسلمان عورتوں کو ذلیل کیا جاتا ہے۔کتنے ہی چیرٹی اداروں کے حادثات یاد آ گیے جہاں مسلم خواتین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔کتنی ہی تنظیموں کا کردار یاد آگیا جو معمولی سی مدد کی آڑ میں عورتوں کی عزت سے کھلواڑ کرتی ہیں۔کتنے ہی دانی، گیانی یاد آگیے جو سماج سیوا کی آڑ میں نفرت پھیلاتے ہیں۔
مگر میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں؟
مسلم عورتیں بھنڈارے کی لائن میں کیوں کھڑی ہیں، اس سے کسی کو کیا سرو کار؟
بیمار عورتوں کے ساتھ اسپتالوں میں ہونے والی بدتمیزیوں سے کسی کو کیا دقت ہے؟
معمولی سے قرض کے بدلے مسلم خواتین کی آبرو کے پامال ہونے سے کسی کو کیا پریشانی ہو رہی ہے؟
اس لیے باہر نکلنے والی نقاب پوش خواتین ہوں یا گھر میں رہنے والی با حجاب خواتین، دونوں ایسے ہی سر عام ذلیل کی جاتی رہیں گی اور ہم لوگ اپنی اسی بے ڈھنگی چال میں مست رہیں گے۔
نہ ہو احساس تو سارا جہاں ہے بے حس ومردہ
گداز دل ہو تو دُکھتی رگیں ملتی ہیں پتھر میں
26 ربیع الثانی 1446ھ
30 اکتوبر 2024 بروز بدھ