عید کی شاپنگ: میڈیا کا پوراجتھہ کیمرہ لے کر بازاروں میں مسلمانوں کی منتظر ہے!!
بھارت کے مکار اور دلال میڈیا ہاؤسز کی دلالی شروع ہوچکی ہے ایک بار پھر سے مسلمانوں کے سر، بڑھتے ہوئے کورونا کی تعداد کا ٹھیکرا پھوڑنے کے لیے کمر بستہ ہوگئی ہے۔ اِن ٹی وی چینلوں نے عید کے شاپنگ سے متعلق خبریں بریک کرنا شروع کردیا ہے، چنانچہ کئی ٹی وی چینلوں نے جمعہ کے روز اس طرح کی لایعنی اور پرانی ویڈیوز چلاکر جس میں مسلمان ایک مارکیٹ اکٹھا ہیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسلمان بڑے پیمانے پر عید کی شاپنگ کررہے ہیں اور سماجی دوری کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔
واضح رہے کہ ملک میںکورونا کی وجہ سےجہاں زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات متاثر ہوئے ہیں وہیں ماہِ رمضان المبارک میں مسلمانوں کی اجتماعی عبادت وریاضت ، تراویح و افطار بھی تاریخ اسلام میں پہلی بار ممکن نہ ہوسکی، رمضان المبارک کی ساری خوشیاں اور رنگینیاں تمام طرح کی امنگیں پھیکی رہ گئیں، حسرت بھری نگاہوں سے لوگ مساجد کے منبرو محراب کوتکتے رہ گئے ، یاس و امید کی ایک جھلک کے سہارے کہ آج کھلے ،کل کھلے پورا رمضان گزرنے کے قریب ہے۔ مساجد ویران ہیں، میناریں خاموش ہیں، کہیں اذان پر بھی پابندی کا مطالبہ ہے،عیدگاہوں میں جمع ہوکر بارگاہِ یزدی کی دعوت کو قبول کر خوشیاں بانٹنے کا موقع بھی نصیب ہونے والا نہیں، لیکن ایسے میںقوم کے کچھ کم ظرف اور نااہل افراد عید کی شاپنگ کا ارادہ لیے اگر بازاروں میں جاتے ہیںتو اس سے بڑی بے غیرتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اپنی ذلت کے ساتھ ساتھ پوری قوم کی ذلت کا سامان بنیں۔
ملک میں جب سے کورونا کا آغاز ہوا تب سے سنگھی دلالوں یعنی میڈیا ہاؤسز اس میں ہندومسلمان تلاش رہے تھے، اتفاق سے امت مسلمہ کے لیے کئی دہائیوں سے مسلسل سردرد بنے ہوئے تبلیغی جماعتیوں نے بہت جلد یہ موقع فراہم کر بھی دیا۔ اب اس کے بعد ملک میں جم کر ہندومسلم کارڈ کھیلا گیا مہینوں مسلمانان ہند کو سماج میں اذیت اٹھانی پڑی اور ابھی تک اٹھانی پڑ رہی ہے، نہ جانے کب تک اٹھانی پڑے گی۔ اب جبکہ جماعت کا معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو ایک بار پھر سے ٹی چینلز کے کیمرے مارواڑیوں کی منڈی میں مسلمانوں کی تلاش کر رہے ہیں تاکہ پھر سے اپنی تبلیغی راگ کو الاپ سکیںاور اپنی پچھلی باتوں کو تقویت پہنچاسکیں کہ مسلمان ہی اس ملک میں کورونا کا ذمہ دار ہے۔لیکن ہماری قوم میں بھی بے غیرتوں اور بے شرموں کی کمی نہیں عین ممکن ہےکہ تمام ذلتوں اوررسوائیوں کو سہنے کے بعد بھی سر شام ہی اپنی خواتین کو لے کربازاروں میں ماڑواریوں کے دکان کی زینت بن جائیں جنہوں نے چند روز قبل ان سے سبزی اور پھل تک خریدنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔
عید کی شاپنگ کے لیے ٹرپنے والوں میں دو طرح لوگ ہیں۔ ایک تو وہ جو خیر سے صاحب ثروت ہیں اور پیسے کی گرمی کو عید جیسے موقع پر ہرگز برداشت نہیں کرسکتے ، بھلے ہی کپڑے پہن کر گھر میں ہی ایک دوسرے کا منہ دیکھنا پڑے لیکن شاپنگ صرف گرمی مٹانے کے لیے کریں گے۔ دوسرا جاہلوں یا کم خواندہ لوگوں کا وہ طبقہ جن کے خیال میں بغیر نیا کپڑا سلوائے عید کی نماز جائز ہی نہیں ہوگی یا عید کے دن پرانا کپڑا پہننا گناہِ عظیم ہے۔لہٰذا بھلے ہی پڑوسیوں سے قرض لینا پڑے لیکن شاپنگ ضرور کریں گے۔
اب میری گزارش معاشرے کے باشعور افراد سے یہ ہے کہ ان دونوں قسم کی مخلوق کو پیار و محبت سے سمجھائیں کہ حکومت نے لاک ڈاؤن مزید دوہفتے کے لیے بڑھا دیا ہے، لہٰذا عید گاہ میں نماز ہوگی ہی نہیں تو کپڑے پہن کر کیا دروازے پر بندھے بیل بکریوں کو دکھاؤگے؟اور اگر عید گاہ میں نماز ہوتی بھی ہے تو بھی شریعت کی کسی کتاب میں نیا کپڑا سلوا کر عید کی نماز پڑھنا واجب نہیں۔پرانے کپڑے کو سلیقے سے دھوکر نماز پڑھنے سے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا۔
بالخصوص پیسوں کی فراوانی والوں سے کہیں کہ بھائی! پیسے بچاکر رکھیں، ابھی اور کب تک یہ حالات رہیں گے کوئی نہیں جانتا چار پیسے رہیں گے تو اپنی اور دوسرے بھوکوں کی بھی مدد کرپائیں گے۔ اور ویسے بھی اس بار پورے اسلامیان ہند کی غیرت داؤ پر لگی ہے، یوں سرِ بازار لے جاکر ان کی دھجیاں نہ اڑائیں اور اس میں اپنے اور اپنے اہل وعیال کے تحفظ کا مسئلہ بھی ہے، جس طرح سے کورونا انفیکشن کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے کیا پتہ کب اور کہاں آپ اور اہل خانہ کو یہ مرض تلاش لے۔ اس لیے گھروں میں رہیں اور اللہ سبحانہ سے دعا کریں کہ جلد ہمارا ملک اس وبا سے پاک وصاف ہوجائے۔ عید پھر آئے گی، بازار پھر سجیںگے اور ہم نئے کپڑے ضرور سلوائیں گے۔ ان شاء اللہ!اللہ سبحانہ ہم سب کو سرخرو فرمائے اور اس موذی مرض سے محفوظ رکھے۔ آمین
اور بھی کچھ۔۔۔!! ان شاء اللہ اگلی تحریر میں
اس موضوع پر کمینٹ باکس میں آپ بھی اپنی رائے رکھ سکتے ہیں۔
والسلام
احمدرضا صابری
بہت عمدہ مضمون ھے۔اسلامیان ھند کیلئے چشم کشا تحریر ھے۔اللہ تعالی مسلمانوں کوعقل سلیم عطاکرے۔آمین
الحمدللہ! زہے نصیب، بہت بہت شکریہ حضرت!