____جناب اطہر فاروقی سے دو باتیں !!
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
گذشتہ دنوں اردو اور فارغین مدارس کے حوالے سے ڈاکٹر صدف فاطمہ کے مضمون سے زیادہ جناب اطہر فاروقی کے تبصروں نے سرخیاں سمیٹی ہیں۔ڈاکٹر اطہر فاروقی ادبی حوالے سے اچھی خاصی شہرت کے حامل ہیں۔تصنیفی دنیا میں "اردو زبان تعلیم اور صحافت، اردو سیاست کی تفہیم نو، گفتگو ان کی اور نامکمل” جیسی کئی ادبی کتابوں کے مصنف کے طور پر بھی شناخت رکھتے ہیں۔گذشتہ پندرہ سال سے اردو کے باوقار ادارے انجمن ترقی اردو ہند کے سیکرٹری بھی ہیں۔ایسی علمی و ادبی پہچان اور ساٹھ سال کی پختہ عمری کے باوجود ان کے تبصرے حد درجہ سوقیانہ ہیں۔آئیے پہلے ان کے تبصروں کو دیکھ لیں پھر ہم ان کے تبصروں پر تبصرہ کریں گے۔اطہر فاروقی صاحب اپنے ایک تبصرے میں جاوید صاحب کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یہ آپ کا ڈرائنگ روم یعنی مسلمانوں کی چوپال نہیں ہے۔نہ یہ آپ کی سسرال ہے کہ جو چاہیں بکواس کریں۔اگر آپ کو لیکھ کے کسی حصے پر اعتراض ہے تو وہ بتائیے۔مولانا آزاد فاؤنڈیشن کی اسکالر شپ ٹیکس پیئر کے پیسے سے ملتی تھی۔مدارس کے پاس جو اربوں روپے حوالے سے آتے ہیں اس سے نہیں۔بے فکر رہیے جلد ہی دینی مدارس کی ڈگریوں کو کم سے کم اردو میں داخلے کے لیے بین کر دیا جائے گا اور اردو ڈپارٹمنٹس کو جس طرح آپ مدارس کی طرح اسلامک Atavism کے اڈے بنانا چاہتے ہیں اس پر روک لگے گی۔”
(اسکرین شاٹ نیچے درج ہے)
دل چسپ بات یہ ہے کہ جو شخص گذشتہ پچیس سال سے” اردو کی بقا و ارتقا” کے لیے کوشاں ہے، اس شخص نے یہ تبصرہ ہندی زبان میں لکھا ہے۔
خیر موصوف کے تبصرے سے چند نکات سامنے آتے ہیں:
1۔مسلمانوں کی چوپال اور سسرال عمومی بکواس کرنے کی جگہ ہیں۔
2۔آزاد فاؤنڈیشن کا پیسہ ٹیکس پئیر کا ہے [مطلب مسلمانوں کا نہیں ہے]
3۔مدارس میں حوالہ کا لین دین ہوتا ہے۔
4۔یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں مدارس کی اسناد پر پابندی لگوا دیں گے۔
اطہر صاحب!
🔹طبقہ جہلا کے افراد بیوی کی آڑ لیکر سسرال اور اہل سسرال کو کمتر جاننا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں، نہ جانے کیوں آپ کا لہجہ بھی اسی طبقے کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔کسی کے سوال پر اسے مسلمانوں کی چوپال اور سسرال کی بکواس قرار دینا، کہاں کا ادب اور کون سی اخلاق مندی ہے؟
🔸اگر مشورہ قابل قبول نہیں تھا تو اسے فرد واحد کی رائے کے طور پر رد کیا جا سکتا تھا لیکن فرد واحد کے تبصرے کو "مسلمانوں کی چوپال” کَہ کر پوری قوم مسلم کو حقیر وذلیل گرداننا آخر کس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے، مسلمانوں کے لیے ایسا لہجہ عموماً شدت پسندوں کے یہاں استعمال کیا جاتا ہے۔
🔹یقیناً آزاد فاؤنڈیشن کی رقم ٹیکس پیئر کی ہے، لیکن کیا ٹیکس دہندگان میں مسلمان شامل نہیں ہیں؟ ٹیکس پیئر کے پیسوں کا طعنہ تو سنگھیوں کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے لیے بھی دیا جاتا ہے، ٹھیک اسی لہجے میں اطہر فاروقی بھی مسلمانوں کو طعنہ دے رہے ہیں، الفاظ و انداز اور لہجے کی یہ مماثلت اتفاقی ہے یا منصوبہ بند؟
🔸گذشتہ دس گیارہ برسوں سے بر سر اقتدار پارٹی اور شدت پسندوں کی جانب سے مدارس پر حوالہ کے لَین دَین کا الزام لگایا جا رہا ہے۔اسی بنیاد پر درجنوں مدارس پر جانچیں بٹھائی گئیں، کھاتے سیل کیے گیے لیکن ہر بار مدارس بے داغ ثابت ہوئے۔افسوس جو طعنہ اب تک بھاجپا اور سنگھی گروپ مسلمانوں پر لگاتے تھے آج وہی الزام آپ کی جانب سے دیا جا رہا ہے۔آخر غیروں کی بولی بول کر کسے خوش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
🔹جس دبنگئی اور ڈھیٹ پن کے ساتھ آپ نے مدارس کی اسناد پر پابندی لگانے کی دھمکی دی ہے اتنا ڈھیٹ پن تو بڑے سے بڑا مسلم دشمن بھی نہیں دکھاتا۔اتنا ڈھیٹ پن کس کے سہارے دکھایا جا رہا ہے؟
قارئین کرام!
ذرا غور کریں کہ جو شخص عمر کی ساٹھ بہاریں گزار چکا ہو، درجن بھر کتابوں کا مصنف ہو، انجمن ترقی اردو ہند جیسے باوقار ادارے کا سیکرٹری ہو، آخر اس کی بولی میں اتنی درشتی، تعصب اور ہلکا پن کیوں ہے؟
اطہر صاحب، آپ خود ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے لفظوں اور تیور پر غور کریں، آخر اس کے ڈانڈے شدت پسندوں کی بولی اور لہجے سے میل کیوں کھا رہے ہیں؟
آخر ایک ساٹھ سالہ تجربہ کار شخص، جانا مانا ادیب اس قدر مغلوب الغضب اور آپے سے باہر کیوں ہے کہ اسے اپنی زبان پر کنٹرول ہے نہ جذبات پر!
اہل مدارس نے اپنے محدود وسائل میں علم و ادب کی جو خدمت انجام دی ہے، اگر دوسرے لوگوں کے وسائل اتنے ہی محدود کر دئے جائیں تو یقیناً وہ ان خدمات کا عشر عشیر کام بھی انجام نہیں دے پائیں گے۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
17 ذوالحجہ 1446ھ
14 جون 2025 بروز ہفتہ