شخصیات وسوانح

علامہ   بدر القادری  مصباحی (ہالینڈ) : تابندہ حیات و درخشندہ نقوش!!

علامہ   بدر القادری  مصباحی (ہالینڈ) : تابندہ حیات و درخشندہ نقوش!!

تحریر:محمد بلال انور


نام:محمد بدر عالم،تخلص :بدر ،عرفیت:بدر القادری
نسب نامہ:محمد بدر عالم بن حافظ محمد رمضان بن شیخ محمد اسحٰق بن محمد حبیب۔
ولادت با سعادت :آپ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۵۰ء محلہ: ملک پورہ (مرزا جمال پور )پوسٹ :گھوسی،ضلع :اعظم گڑھ(یوپی ۔انڈیا ) میں پیدا ہوئے۔
تعلیمی سرگرمیاں:موصوف نے ابتدائی درجات کی تعلیم مقامی مدرسہ ”ناصر العلوم (ملک پورہ) ،مدرسہ خیریہ  فیض عام“ (گھوسی) اور مدرسہ ”خیر المدارس“ (مداپور ،گھوسی سے حاصل کی۔
اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ۱۱؍سال کی عمر میں مبارک پور تشریف لائے ،اور درس نظامی کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے  مشہور و معروف  درسگاہ ” دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم “میں داخلہ لیا ۔حافظ ملت علیہ ارحمۃ والرضوان کی با برکت درسگا ہ سے  اکتساب علم و فیض کرتے ہوئے ۱۰؍شعبان المعظم ۱۳۸۹ھ؍۲۳ ؍اکتوبر ۱۹۶۹ء میں بدست حافظ ملت دستار فضیلت حاصل کی۔
مشاہیر اساتذۂ کرام: جن اساتذہ سے آپ کو شرف تلمذ حاصل ہے  ان کی فہرست کافی طویل ہے،یہاں صرف  مشاہیر اساتذہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے (۱)حافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی بانی الجامعۃ الاشرفیہ،مبارکپور۔(۲)حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف صاحب بلیاوی۔(۳)حضرت علامہ  مفتی عبد المنان صاحب اعظمی۔(۴)حضرت علامہ محمد شفیع اعظمی مبارک پوری علیھم الرحمۃ والرضوان۔
اجازت مشائخ کرام:مولانا بدر القادری صاحب دام ظلہ  کو علما و مشائخ  سے قرآن و حدیث کی اسناد اور خلافت و اجازت بھی حاصل ہیں:
(۱) شہزادۂ قطب مدینہ ،حضرت علامہ فضل الرحمٰن المدنی  اجازت حدیث روایۃً و درایۃ ً عطا فرمائی۔(۲)نائب مفتی اعظم  علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی کی عطا کردہ سند القرآن والحدیث۔(۳)انہوں نے ہی ۲؍جمادی الاولی ،۱۴۱۹ھ کو سلسلۂ  عالیہ قادریہ،برکاتیہ،رضویہ میں  خلافت و اجازت مرحمت فرمائی ۔(۴)حضرت رحمت الٰہی  برق صدیقی نے ۳؍محرم الحرام ۱۴۰۳ھ کو سلسلۂ عالیہ ،چشتیہ،نظامیہ  برقیہ کی خلافت و اجازت عطا کی ۔(۵)علم جعفر کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
بیعت و خلافت :موصوف نے ۲۳؍جمادی الاخریٰ  ۱۳۹۹ھ؍۱۹۸۹ء جون کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کے شہزادۂ اصغر  حضور مفتی اعظم ہند مولانا محمد  مصطفی رضا خان نوری بریلوی علیھما الرحمۃ والرضوان سے شرف بیعت و سند اجازت و خلافت حاصل کی۔
تدریسی خدمات: آپ نے ۱۹۶۹ء۔۱۰۷۰ء تک ”دارالعلوم غوثیہ “ ہبلی ( کرناٹک)  میں بحیثیت صدر المدرسین خدمت انجام دی ۔پھر  مدرسہ ”سید العلوم “ بہرائچ شریف (یوپی ) میں تین سال تک مسند صدارت کو زینت بخشی اور ۱۹۷۳ء  میں مدرسہ” ضیاء الاسلام“مورانواں ،ضلع: اناؤ(یوپی) میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
خدمات صحافت: تقریبا ۵؍سال  تک دوسرے شہروں میں امامت وخطابت کے فرائض و تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کے طلب پر ”شعبۂ نشرواشاعت “کے انچارج کی حیثیت سے ۱۹۷۴ء میں الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور تشریف لائے اور بحسن و خوبی اس فریضہ کو انجام دیا ۔اور ۲؍  سال کے بعد فروری ۱۹۷۶ءمیں آپ نے اپنی کد و کاوش سے  الجامعۃالاشرفیہ کا علمی ودینی ترجمان ” ماہنامہ اشرفیہ “ جاری کیا نیز جولائی  1980 ءکو  ” ہالینڈ “ میں انٹرنیشنل سہ ماہی میگشن ”  VOICE OF ISLAM“  انگلش۔ اردو نیدر لینڈ زبانوں میں جاری کیا۔
نثری نگار شات : دودرجن  مطبوعۂ  کتب و رسائل آپ کی علمی صلاحیتوں کی آئینہ دار اور آپ کی بہترین یادگار ہیں، جن میں آپ کی شہرۂ آفاق تصانیف بارہ ہیں:
(۱) اسلام اور امن ۔(مطبوعۂ ۱۹۸۹ء)۔(۲)مسلمان اور ہندوستان ۔(۳)یورپ اور اسلام (۴)حیات حافظ ملت۔(۵)اسلام اور خمینی مذہب ۔(۶)ختم نبوت اور قادیانیت ،(۷)سنت کی آئینی حیثیت ۔(۸)جادہ ومنزل ۔(مطبوعہ  ۱۹۹۰ء)۔(۹)اشرفیہ کا ماضی اور  حال (مطبوعہ  ۱۹۷۵ء)۔(۱۰)بزم اولیا(مطبوعہ ۱۹۹۶ء)(یہ امام عبد اللہ بن اسعد  یافعی رحمۃ اللہ علیہ  کی عربی کتاب ”روض الریاحین  فی  حکایات الصالحین “ کا اردو ترجمہ ،اولیاے کرام  کے حالات و واقعات  پر مشتمل ہے)۔(۱۱)فلسفۂ قربانی (مطبوعہ ۱۹۸۱ء)۔(۱۲)عورت اسلام میں ۔مطبوعہ ۱۹۹۵ء)
شعری تصانیف: مولانا بدر القادری صاحب قبلہ  کی شعر گوئی کی ابتدا زمانۂ طالب علمی  ۱۹۶۴ء سے ہی ہو گئی تھی۔رفتہ رفتہ اس درجہ کو پہنچ گئے  کہ حضور حافظ  ملت علیہ الرحمہ  ان کے اشعار کے بارے میں فرماتے:” یہ شاعری نہیں ہے بلکہ حدیث رسول ﷺ کا خلاصہ ہے “ آپ کے قلمی سحر نگار سے مندرجہ ذیل دواوین ہیں:
(۱)قم باذن اللہ (یہ انقلابی و سوانح نظموں اور مناقب پر مشتمل ہے )۔(۲) الرحیل،مطبوعہ :۱۹۸۶ء)۔(۳)حریم شوق،مطبوعہ:۱۹۹۶ء )۔(۴)مناجات بدر۔(۵)قطعات بدر ،مطبوعہ:۱۹۹۵ء۔(۶)جمیل الشیم،مطبوعہ:۱۹۹۰ء)۔(۷)بادۂ حجاز ،مطبوعہ :۱۹۸۹ء۔(۸)باب جبریل (۹)تحفۂ حرمین ۔(۱۰)شاخ سدرہ) (۱۱) کسک ”غزلیات“۔
مقالات و مضامین کے آئینے میں :آپ کے وقیع اور گراں قدر  مقالات ومضامین ،ہند و پاک کے جرائد و رسائل میں شائع ہوتے ہیں ،جن میں چند درج ذیل ہیں :
(۱)طرابلس کی اسلامی عالمی کانفرنس۔(۲)اشاعت اسلام میں علماے اہل سنت کا کردار ۔(۳)اسلام میں عظمت انسانی کی تصور ۔(۴)یہ انقلاب اسلامی ہے  یا سلطانی۔(۵)فقر و غنا کا  اسلامی تجزیہ ۔(۶)یہ جور و ستم کب تک ۔(۷)شہر دولر اور اسلامی نقطۂ نظر ۔(۸)قرآن کی صدیقی و عثمانی تدوین اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
ہالینڈ میں اشاعت اسلام :موصوف کے ہاتھ پر ڈھائی  سو سے زائد غیر مسلم  اسلام قبول کر چکے ہیں ۔اور بہت سے لوگ  ضلالت و  گمراہی  سے تائب ہو کر صراط مستقیم پر گامزن ہوئے ۔انہیں کی مساعیِ جمیلہ سے ہالینڈ اور گرد و نواح میں ۳؍ اسلامی تنظیمیں قائم ہوئیں (۱)Islamic center Netherland ۔(۲)انوار القرآن روئر ڈم کال آف اسلام۔(۳)تنظیم العلما ہالینڈ۔
جن کے اغراض و مقاصد ”مساجد ،مدارس اسلامیہ ،دار القضا   اور خانقاہیں قائم کرنا ،ڈچ زبان میں اسلامی علمی رسالہ جاری کرنا ،قرآن و حدیث کے پیغامات  عام کرنا  اور عامل بنانا “ ہیں۔
ہالینڈ میں موصوف کی آمد سے پیشتر  ہالینڈ  ،فرانس اور بلجیم وغیرہ میں مسلمانوں کے پاس کوئی مستقل اوقات صلات (CHART) نہ تھا اور نہ ہی رویت ہلال کا باقاعدہ شرعی طور پر  کوئی اہتمام تھا ۔کثرت رائے پر نماز  عید الفطر  و عید الاضحیٰ ادا کی جاتی تھی ۔مگر موصوف نے  مستقل اوقات صلاۃ اور مکروہات اوقات کے چارٹ  کا اہتمام کیا اور رویت ہلال کے معاملے میں مسئلہ شرعیہ پر عمل کرنے کی تحریک چلائی  اور لوگوں کو عمل پر آمادہ کیا ۔
ساؤتھ امریکہ میں دین کی تبلیغ و اشاعت:”سرینام “ و” برٹش گیانام “ میں کم و بیش ۲۰؍  غیر مسلمین و مرتدین نے  آپ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا ۔(ان تمام کی فہرست ،نام، پتہ ،سابق مذہب کے ساتھ۔NIS آفس میں محفوظ ہے)
نیز  ۱۹۹۶ء سے ۱۹۹۹ء تک ”سرینام“ جیسے غیر اسلامی ،آزاد مغرب  زدہ اور عریانیت پسند ملک میں نماز ،روزہ،قرآن وحدیث اور سیرت نبوی کی تعلیم عام کی اور جشن عید میلاد النبی ﷺ  منانے کا رواج دیا ۔ساتھ ہی ساتھ  بے راہ روی  کی زندگی گزارنے  والوں کو آداب اسلامی و معمولات اہل سنت  سے آراستہ کیا۔
فروغ رضویات میں آپ کا کردار:
 مدرسہ رضویہ  اور رضوی مسجد کا قیام ”بڑا بازار قصبہ“ گھوسی،ضلع:مؤ میں جہاں  غیر  مقلدوں ،وہابیوں اور دیو بندیوں کا گڑھ تھا ،عقائد باطلہ کی نشر  و اشاعت عام تھی  اور بہت سے مسلمانان اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا کی حیات و خدمات  سے ناواقف تھے ،ایسے علاقے میں موصوف  نے امام احمد  رضا  کے افکار و تعلیمات  اور مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج   و اشاعت کے لیے ایک مدرسہ ۱۹۷۰ء میں قائم کیا  اور انہیں کے نام کی نسبت  سے اس کا نام ”مدرسہ رضویہ“  رکھا،جس میں شعبۂ حفظ و قرأت اور پرائمری درجات میں اول تا پنجم اور درس نظامیہ کی ابتدائی درجات کی تعلیم کا معقول بند و بست ہے۔
مدرسہ ہذا کے قرب و جوار میں (جہاں پر سنی  کی کوئی مسجد نہ تھی  بلکہ چہار جانب اہل حدیث کی مسجد تھی) ایک شاندار خانۂ خدا  امام احمد رضا کی طرف منسوب کرتے ہوئے بنام ” رضوی مسجد “ کی تعمیر کی ،اس دوران اعلیٰ حضرت پر چند اعتراضات  کسے گئے ،مگر آپ نے دندان شکن جواب دے کر  خاموش کر دیا ،اور وقتاً  فوقتاً  علاقائی لوگوں کو وعظ  و تقریر کے ذریعہ  اعلیٰ حضرت کی حیات  و شخصیت اور دینی خدمات  سے روشناش کرایا ۔اور لوگوں کے دلوں میں  عشق رضا کا چراغ روشن کر دیا ۔
ہالینڈ میں مسلک اعلیٰ حضرت:آپ نے ہالینڈ میں گاہے بگاے  امام احمد رضا قدس سرہ   کی حیات و شخصیت  اور  ان کے مختلف  دینی ،تجدیدی،اصلاحی،روحانی ،علمی اور ادبی کارناموں سے تقاریر کے ذریعے وگوں کو روشناش کرایا  اور ان کا  اجمالی تعارف  انگریزی زبان میں  ایک مقالہ کی شکل میں پیش کیا ۔پھر ڈچ(DUTCH)زبان مین ترجمہ کرکے دو علیٰحدہ  کی کتابچہ کی شکل میں ” AlaHazrat His Holiness“ کے نام سے شائع کروایا ،جس کی بنا پر مسلمان کے علاوہ  غیر مسلم بھی اعلیٰ حضرت کی ذات سے واقف ہو گئے ۔اور آج بھی عرس اعلیٰ حضرت کے موقع پر  فاتحہ اور قل شریف کا پروگرام ہوتا ہے۔
امام احمد رضا سے متعلق دو وقیع مقالے:موصوف نے ۱۹۷۶ء میں ایک تحقیقی مقالہ بہ عنوان” امام احمد رضا  اور  ذوق سخن“  جو چھہ صفحات پر مشتمل ہے ،اپنے موضوع پر جامع ہونے کے ساتھ اعلیٰ حضرت قدس سرہ  کے کچھ غیر معمولی  خصائص  بھی اس مین شامل ہیں۔
یہ مقالہ ”ماہنامہ المیزان“ (امام احمد  رضا نمبر) ممبئی ،اپریل،مئی،جون ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا ۔
امام احمد رضا اور حیات و خدمات:یہ چند صفحات پر مشتمل ہے۔جس میں اعلیٰ حضرت کے مختصر سوانح  اور دینی و علمی کارنامے  مذکور ہیں۔یہ مضمون” ماہنامہ اشرفیہ“ مبارکپور،مارچ ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا ۔
حیات حافظ ملت:موصوف نے اس ضخیم کتاب میں  حضور  حافظ ملت اور ان کے تلامذہ نے فروغ رضویات پر  غیر معمولی جو کتب و رسائل  تصنیف کیے ہیں ،ان کا اجمالی جائزہ  ۲۹؍ صفحات پر  پیش کیا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ  ”فتاویٰ رضویہ“کی نشر و اشاعت  کب اور کس طرح  ہوئی ،اس پہلو پر روشنی ڈالی ،نیزامام احمد رضا   کے  خلفا اور تلامذہ   کا  اجمالی تعارف اور اعلیٰ حضرت کی حیات و خدمات پر فرزندان  اشرفیہ کی اکیس کتابیں۔
اشعار امام احمد رضا کے ترجمان:در حقیقت آپ مسلک اعلیٰ حضرت کے مشن کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ  دبستان نعت  امام احمد رضا سے وابستہ ،ان کے مسلک شعری کے ترجمان بھی ہیں۔آپ نے اعلیٰ حضرت کے پانچ  مشہور  نعتوں پر  خمسہ میں تضمین لکھا ۔جس میں ایک بطور تمثیل مذکور ہے :تضمین نمبر (۱):امام احمد رضا کی نعت جس کا مطلع ہے:

نار و دوزخ کو چمن کر دے بہار عارض
       ظلمت حشر کو دن کر دے نہار عارض

امام احمد رضا ہی کے مطلع کے مصرع اول سے لفظ ” بہار عارض “مستعار لے کر نعت کا عنوان رکھا ہے:”بہار عارض“ ان کے ابیات پر تین مصرعے لگا کر مخمس کیا ہے۔مطلع کا بند ملاحظہ کیجیے:

اللہ      اللہ   یہ رتبہ     وقار  عارض
  چشم کونین ہے وابہر نثار  عارض

نار دوزخ کو چمن کر دے بہار عارض
اپنا اعجاز جو دکھائے  نگار عارض
ظلمت حشر کو دن کر دے نہار عارض

اسی طرح  ” باب جبریل “ میں ۲۵؍صفحات پر مشتمل اعلیٰ حضرت  کے متعدد  اشعار کو اپنے نظم میں پرو کر لوگوں کے درمیان عام کیا ،اس کتاب کے صفحہ نمبر ۸۰ پر اعلیٰ حضرت کے سلام ” مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام “ کو اس نادرو نایاب انداز میں پیش کیا:

مطلع۔سرور ہر دو عالم پہ لاکھوں سلام مقطع۔بدر مرشد رضا کی زمیں میں سنا
فخر عیسی و آدم پہ لاکھوں سلام  اس کریم و مکرم پہ لاکھوں سلام

فروغ رضویات،شاعرانہ اسلوب میں :اعلیٰ حضرت کے مسلک کو فروغ دینے کا  جذبۂ شوق اس قدر تھا  کہ آپ نے کبھی اعلیٰ حضرت کی فقہی بصیرت ،تبحر علمی،محدثانہ و مفسرانہ شان،شاعرانہ عظمت  اور اویسی عشق نبوی ﷺ کو اپنے اشعار کے ذریعہ  عالم اسلام کو روشناش کرایا ،تو کبھی ”رضا “ کا معنی بتایا،کبھی ”احمد رضا کون اور ان کی قدر و منزلت “ بتائی تو کبھی ”امام احمد رضا ،اعلیٰ حضرت کیوں کہلاتے ہیں“نازک خیالی کے ساتھ توضیح فرمایا۔اور اعلیٰ حضرت نے کس طرح  قادیانی ،نیچری،بہائی،ندوی،وہابی،سلفی  اور اہل  حدیث  وغیرہ  گمراہ فرقوں کے عقائد  باطلہ کا رد کیا ،مذکورہ تمام پہلوؤں کو شاعرانہ طرز پر منقح فرمایا ۔جس پر سراپا شاہد” قلمی دیوان“ ہے ،جو آپ ہی کی لکھی ہوئی  ۱۲۶؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔
الرحیل اور فکر رضا :امام احمد رضا  کے پیغام عشق رسالت کو اکناف عالم میں عام کرنا ،آپ کا مطمح نظر تھا ،اسی لیے آپ نے  اعلیٰ حضرت کے عشق  و فکر کی چھاپ  جو آُ کے ذہن و دل پر چبت تھی  اسے پورا مجموعۂ کلام ”الرحیل“   کی شکل مین پیش کر دیا ،جو ۱۲۷؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔نیز ”حرف نیاز“ (جو ۱۴۹؍ صفحات پر مشتمل ہے)میں ”افکار رضا“کی عنوان سے ایک صفحہ پر اعلیٰ حضرت  کے افکار و نظریات  کو شاعرانہ اسلوب میں پیش کیا۔
اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں مثلاً”قم باذن اللہ“(جو ۱۲۶؍صفحات پر مشتمل ہے)اور ”بادۂ حجاز“(جو ۱۱۶؍ صفحات پر مشتمل ہے)وغیرہ میں مناقب  اعلیٰ حضرت ﷫ مذکور ہیں جو امام احمد رضا سے عقیدت و محبت پر دلالت کرتے ہیں
امام احمد رضا  و خانوادۂ رضا سے محبت و عقیدت: چند خطوط  کے اقتباس (جو اعلیٰ حضرت اور خانوادۂ رضا سے موصوف کی عقیدت کو ظاہر کرتی ہیں  )درج ذیل ہیں:
(۱)”اس سے قبل کے مکتوب میں آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قُدس  سرہ پر کام کرنےکے سلسلے میں  جو چیزیں لکھی تھیں،ان میں رسائل کی ترتیب کا کام اگر آپ  میرے بس کا سمجھیں تو میں اسے کرنا چاہتا ہوں “۔
(۲)”جسے سرتاج عشق  و معرفت امام احمد رضا کی نسبت  غلامی مل چکی ہے  اسے کسی اور کی نسبت کی کیا حاجت؟“
(۳)”استقامت کان پور کے ”مفتی اعظم نمبر“ کے بغیر میرے دل نے چاہا  کہ اپنے مرشد برحق حضور مفتی اعظم  قدس سرہ کے کچھ حالات بھی لکھنے کی سعادت  حاصل کروں۔“


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

[metaslider id=12314]
alrazanetwork

Recent Posts

انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت

انسانی زندگی میں خوشی اور غم کی اہمیت انسانی زندگی خوشی اور غم کے احساسات… Read More

6 دن ago

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!!

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!! ڈاکٹر ساحل شہسرامی کی رحلت پر تعزیتی تحریر آج… Read More

3 مہینے ago

ساحل شہسرامی: علم وادب کا ایک اور شہ سوار چلا گیا

ساحل شہسرامی: علم وادب کا ایک اور شہ سوار چلا گیا_____ غلام مصطفےٰ نعیمی روشن… Read More

3 مہینے ago

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال ✍🏻— مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی… Read More

3 مہینے ago

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!!

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!! تحریر: جاوید اختر بھارتی یوں تو جب سے دنیا… Read More

3 مہینے ago

نکاح کو آسان بنائیں!!

نکاح کو آسان بنائیں!! ✍🏻 مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی آسام رب تعالیٰ… Read More

3 مہینے ago