قربانی کے فضائل اور مسائل
از غلام ربانی شرفؔ نظامی
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ,,یوم النحر (دسویں ذی الحجہ)میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے)سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے لہذا اس کو خوش دلی سے کرو۔،،( سنن ترمذی رقم الحدیث ۱۴۹۸)
قربانی کے ترک پر سخت وعید
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ,,جس میں قربانی کرنے کی وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔،، (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ۳۱۲۳)
قربانی کسے کہتے ہیں
۔ اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سےمخصوص دن میں مخصوص جانور کو ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں۔
قربانی کیا ہے
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لئے باقی رکھی گئی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قربانی کس پر واجب ہے
ہر صاحب نصاب شخص پر قربانی واجب ہے ۔یہاں نصاب سے مراد وہ نہیں جس سے زکوۃ واجب ہوتی ہے بلکہ وہ نصاب ہے جس سے صدقۂ فطر لازم ہوتا ہے۔
( تنبیہ)
مرد کی طرح عورتوں پر بھی قربانی واجب ہے اگر وہ نصاب کی مالکہ ہے اکثر گھروں میں عورتوں کے پاس نصاب سے بھی زائد سونا موجود ہوتا ہے استعمال ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں ان پر قربانی واجب ہوگی اگر قربانی کے لیے رقم موجود نہیں تو سونا بیچ کر یا قرض لے کر قربانی کرنی ہوگی۔
قربانی کا وقت
دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن دو راتیں، اور ان دنوں کو ایام نہر کہتے ہیں۔ اور گیارہ سے تیرہ تک تین دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں۔ لہذا بیچ کے دو دن ایام نہر وایام تشریق دونوں ہیں اور پہلا دن یعنی دسویں ذی الحجہ صرف یوم النہر ہے اور پچھلا دن یعنی تیرہویں ذی الحجہ صرف یوم التشریق ہے ۔(بہار شریعت ۳۳۶/۳ )
قربانی کے جانور اور اس کی عمر
قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں اونٹ اوٹنی(پانچ سال)گاۓ بیل بھینس اور بھینسا (دوسال) بکری بکرا دنبہ اور بھیڑ (ایک سال) اگر کوئی جانور بیان کردہ عمر سے زیادہ کا ہو تو افضل ہے کم کا ہو تو قربانی نہیں ہوسکتی۔ لیکن اگر چھ مہینے کا دنبہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ (فتاوٰی ہندیہ ۲۹۷/۵ )
قربانی کے جانور کے عیوب
قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہئے اورتھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں۔ جس جانور میں مندرجہ ذیل عیوب میں سے کوئی ایک بھی موجود ہو اس کی قربان جائز نہیں۔ سینگ ہڈی تک ٹوٹا ہوا ہو، اتنا پاگل کہ چرنا چھوڑ دے، اتنا کمزور کہ ہڈی میں مغز نہ رہا ہو، اندھا ہو کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو، اتنا بیما ہو کہ چل نہ سکتا ہو، کان، دم، چکی تیسرے حصے سے زائد کٹی ہو، تیسرے حصے سے زائد بینائی چلی گئی ہو، بکری کا ایک اور گائے کے دو تھن خشک یا کٹے ہوئے ہوں، زبان اتنی کٹی ہو کہ چارہ نہ کھاسکتا ہو۔
بڑے جانور میں شرکت
گاۓ بیل بھینس اونٹ میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں۔شرکت میں ساتوں افراد کے حصے برابر اورسب کی نیت تقرب الی اللہ ہونی چاہیے ورنہ کسی کی قربانی نہ ہوگی۔
قربانی کے مستحبات
مستحب ہے کہ قربانی کا جانور خوب فربہ اور خوبصورت اور بڑا ہو اور بکری کی قسم میں سے قربانی کرنی ہو تو بہتر سینگ والا مینڈھا چت کبرا ہو جس کے خصیے کوٹ کر خصی کر دیا ہو۔حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسے مینڈھ کی قربانی کی۔(فتاوٰی ہندیہ ۳۰۰/۵)
جانور ذبح کرنے کا سنت طریقہ
قربانی کا جانور شرائط مذکورہ کے تحت اگر درست ہے تو ذبح کرنے سے پہلے اسے چارہ پانی دے دیں اور ایک کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کریں اور پہلے سے چھری تیز کر لیں ایسا نہ ہو کہ جانور گرانے کے بعد اس کے سامنے چھری تیز کی جاۓ قربانی کرتے وقت جانور کو اس طرح لٹائیں کہ جانور اور ذبح کرنے والا دونوں قبلہ رو ہوں کہ یہ سنت مؤکدہ ہے پھر اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کردیں۔ اور ذبح سے پہلے وہ دعا پڑھیں جو ذبح کرتے وقت پڑھی جاتی ہے۔خیال رہے کہ اس طرح چھری چلائیں کہ چاروں رگے کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مہرہ تک پہنچ جاۓ کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے۔
کھال وغیرہ کب اتاریں
جب تک جانور کی روح پورے طور نہ نکل جاۓ نہ اس کے پاؤں وغیرہ کاٹیں نہ کھال اتاریں کہ یہ بلا وجہ کی جانور کو تکلیف دینا ہے۔
قربانی کے گوشت کا حکم
ذبح کردہ جانور اگر مشترکہ ہے مثلا گائے اونٹ وغیرہ تو گوشت آپس میں وزن سے تقسیم کیا جاۓ محض اندازے سے تقسیم کرنا درست نہیں۔
بکری ہو یا گائے اس کا ساتواں حصہ جو آپ کو ملا اس گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ گھر میں رکھ لیں دوسرا حصہ دوست و احباب اور رشتہ داروں کو دیں اور تیسرا حصہ غرباؤ مساکین میں تقسیم کریں۔ قربانی کا گوشت کافر کو نہ دیں کہ یہاں کے کفار حربی ہیں۔
کھال وغیرہ کا حکم
قربانی کی کھال خاص فقراء کا حق نہیں بلکہ اسے ہر کار ثواب میں استعمال کر سکتے ہیں لیکن مدارس و مساجد میں دینا زیادہ بہتر ہے۔
قربانی کی چربی اور اس کی سری پاۓ اور اون چمڑا یا گوشت یا اس میں کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت میں دینا ہر گز جائز نہیں۔
قربانی کے بعد جانور پر ڈالے کپڑے رسی اور اس کے گلے کا ہار ان سب چیزوں کو صدقہ کر دیں۔
از غلام ربانی شرفؔ نظامی
خطیب وامام چودھری مسجد اٹالہ الہ آباد
sharafnizami@gmail.com
الرضا نیٹ ورک کو دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ (۲)جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں:
___نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں !! غلام مصطفےٰ نعیمیروشن مستقبل دہلی فی الحال… Read More
سنبھل کے زخموں سے بہتا ہوا خون ابھی بند بھی نہیں ہوا ہے کہ اجمیر… Read More
اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سمیٹے سنبھل شہر کی گلیاں لہو لہان ہیں۔چاروں طرف… Read More
جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!! تحریر:جاوید اختر… Read More
۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا… Read More
عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان… Read More