لیجیے! اب آستانہ غریب نواز پر مندر ہونے کا مقدمہ !!
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
سنبھل کے زخموں سے بہتا ہوا خون ابھی بند بھی نہیں ہوا ہے کہ اجمیر کی ضلع عدالت نے درگاہ غریب نواز کو مندر قرار دینے والی درخواست کو قبول کرکے ایک نیا زخم دے دیا ہے۔ضلعی عدالتوں کے حالیہ رویوں کو دیکھتے ہوئے یہی امید ہے کہ جلد ہی یہاں بھی سروے آرڈر پاس ہوگا۔درگاہ کے آس پاس یا تہہ خانے کی کھدائی بھی کی جا سکتی ہے۔اے ایس آئی(ASI) کے ماہرین خانقاہ کی دیواروں میں مندر کے نقش ونگار کی تحقیق کریں گے۔میڈیا روز کسی نہ کسی دیوار یا جالی میں ہندو نشانی کے آثار بتائے گا۔خصوصی ایپی سوڈ چلیں گے۔سادھو سنت کار سیوا کا اعلان کریں گے۔سیاسی نیتا اسے ہندو قومیت سے جوڑ کر راشٹر گورَو کی مہم چلائیں گے۔تنازعہ بڑھنے پر کسی حصے میں پوجا کی قانونی اجازت بھی دی جا سکتی ہے۔آہستہ آہستہ سام دام دنڈ بھید کا استعمال کرکے فریق ثانی کو کمزور کیا جائے گا اور ایک دن بابری مسجد کی طرح اسے بھی شہید کرکے وہاں شِو مندر بنایا جا سکتا ہے۔
____مقدمے کی تفصیل
ہندو سینا نامی تنظیم کے صدر وِشنو گپتا نے اجمیر کے ضلع کورٹ میں 25 ستمبر 2024 کو ایک درخواست لگائی۔جس کے مطابق درگاہ غریب اصل میں مہا دیو کا مندر ہے۔لہٰذا اسے مندر ڈکلئیر کیا جائے اور ہندوؤں کو اس کا مالکانہ حق دیا جائے۔ مسٹر منموہن چندیل نامی جج نے اس درخواست پر 27 نومبر کو شنوائی کی اور اسے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت، درگاہ کمیٹی اور اقلیتی وزارت کو نوٹس جاری کرکے 20 دسمبر تک جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
وشنو گپتا نے اپنے دعوے پر دو دلیلیں پیش کی ہیں:
1۔درگاہ کے دروازوں کی بناوٹ اور نقاشی ہندو مندروں کی طرح ہے۔
2۔سن 1911 میں لکھی گئی ہَربِلاس شاردا نامی مصنف کی کتاب Ajmer historical and Descriptive میں درگاہ کو مہا دیو مندر قرار دیا گیا ہے۔
ان دلیلوں کی بنیاد پر ہندو سینا کا صدر آستانہ غریب نواز کو مندر قرار دلانا چاہتا ہے۔ان دلائل کو پڑھ کر سمجھ نہیں آتا کہ ان ظالموں کی بے وقوفی پر ہنسا جائے یا اپنی بے بسی پر رویا جائے؟
کسی 800 سالہ قدیم اور تاریخی درگاہ کو دروازوں کی نقاشی یا سو سال پہلے لکھی گئی گمنام کتاب کے ایک جھوٹے اقتباس کی بنیاد پر چیلنج کیا جاتا ہے اور جج صاحب اس درخواست کو نہ صرف یہ کہ قبول کرتے ہیں بل کہ شنوائی لائق مانتے ہوئے متعلقہ فریق کو نوٹس بھی جاری کر دیتے ہیں۔
_____آگے کیا ہونا ہے؟
بہت سارے لوگوں کو اس مقدمے پر بڑی حیرت ہے مگر ہمیں کئی سال پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ دیر سویر شدت پسند یہ شرارت بھی کر گزریں گے۔شدت پسندوں کا ٹولہ عرصہ دراز سے صوفیا کے خلاف زمینی سطح پر ماحول سازی کر رہا تھا۔اب جب کہ ماحول "مسلم مخالف” سے "اسلام مخالف” بن گیا ہے تو انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے محترم شخصیت کے خلاف اپنے ناپاک ارادوں کا اظہار کر دیا ہے۔اب انجام چاہے جو ہو لیکن اپنے حق کی قانونی لڑائی تو مسلمان ضرور لڑیں گے۔سواد اعظم اہل سنت وجماعت ہونے کے ناطے ہمیں اولین فرصت میں کچھ کام ضرور کرنا چاہئیں:
🔸مرکز اہل سنت بریلی شریف/خانقاہ مارہرہ مطہرہ/خانقاہ کچھوچھہ مقدسہ اور دیگر بڑے آستانوں کی جانب سے درگاہ کمیٹی اجمیر شریف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا جائے۔
🔹مرکز کی جانب سے ایک وفد اجمیر جائے اور درگاہ کمیٹی سے مل کر قانونی لڑائی میں حمایت اور تعاون کی پیش کش کرے۔
🔸معروف تنظیموں کی جانب سے بھی آستانہ غریب نواز کی کلی حمایت کا اعلان کیا جائے۔
🔹ملک کے سنجیدہ غیر مسلم دانش وران/سوشل ورکر اور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف آواز بلند کی جائے۔
🔸روایتی احتجاج کی بجائے اکیڈمک انداز میں رسوخ دار غیر مسلم افراد کو ساتھ لیکر شدت پسندوں کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا جائے۔
🔹غیر مسلم مؤرخین کو سامنے رکھ کر شدت پسندوں کی جھوٹی تاریخ کا پردہ فاش کیا جائے۔
اس وقت آپس کی شکر رنجیوں کی بنیاد پر الگ تھلگ رہنے کا موقع نہیں ہے اگر آستانہ غریب نواز کی حرمت سلامت نہ رہی تو ملک میں کسی بھی آستانے یا ادارے کی وقعت نہ رہے گی۔اس لیے سبھی کو پوری قوت کے ساتھ اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔داخلی اختلافات کی بنیاد پر اس معاملے سے چشم پوشی یا نظر اندازی بڑی بھول ثابت ہوگی۔
مگر دھیان رہے!
اپنی صفوں سے ان نام نہاد صوفیوں کو دور رکھیں جن کی وجہ سے شدت پسندوں کے حوصلے یہاں تک آن پہنچے ہیں۔جو پچھلے دس سالوں سے اسلام دشمنوں کو تصوف کا دوست قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔جو آج بھی وقف ترمیمی بل جیسے حساس ایشوز پر حکومت کا بھونپو بنے ہوئے ہیں۔اس قانونی لڑائی میں ایسے مفاد پرست عناصر کی شناخت اور ان پرہیز بے حد ضروری ہے تبھی ملت اسلامیہ اس آزمائش میں کامیاب ہو سکتی ہے ورنہ حکومتی ہرکارے کب کہاں سودا کر جائیں پتا بھی نہیں چلے گا کیوں کہ یہ لوگ بظاہر اپنے نظر آئیں گے لیکن کام دوسروں کا کریں گے:
منسوب چراغوں سے طرف دار ہوا کے
کچھ لوگ منافق ہیں منافق بھی بلا کے
26 جمادی الاولی 1446ھ
29 نومبر 2024 بروز جمعہ