آزادی
آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمان
انگریزوں کی غاصبانہ اقتدار سے قبل اس ملک میں مسلمانوں کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں نے نہ صرف حکومت کی بلکہ سیاسی، سماجی، عدل و انصاف اور اخوت و محبت کی لازوال مثالیں بھی قائم کیں۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کر دینا بھی درست نہ ہوگا کہ مسلم بادشاہوں کی سلطنت وحکومت کے جاتے ہی انہیں آج تک کسی بھی سطح اور محاذ پر کوئی سہارا نہ مل سکا۔ اپنی فطرت اور من کے کالے انگریزوں نے تخت و تاج تو مسلمانوں ہی سے غصب کیا تھا، اس لئے جب مسلمانوں نے ہتھیاروں سے لیس ہوکر اپنی سلطنت و حکومت کو بچانے کی کوشش کی، تو فطری طور پر وہ مسلمانوں ہی کے جانی اور مالی دشمن بن گئے اور انہیں ہی خاص طور پر نشانہ بنانے لگے۔ کیوں کہ انہیں صرف مسلمانوں ہی سے ہر وقت زیادہ خطرہ لاحق رہتا تھا اس لئے بھی وہ مسلمانوں پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا جب ہندوستان کو فتح اور کامیابی میسر ہوئی۔ اور آزادی کے ساتھ جب تقسیم ہند کا سورج طلوع ہوا، تو جتنے ذی حیثیت اور خوشحال مسلمان تھے ان کا ایک بڑا طبقہ ترک وطن پر مجبور ہو گیا۔ اس طرح باعتبار تناسب ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں منحصر ہوکر رہ گئی جو مسلمان یہاں رہ گئے وہ نا گفتہ بہ حالات کے شکار ہو گئے۔ رہی سہی کسر بعد کی حکومتوں نے پوری کر دی۔ ملک کے تیار کردہ دستور و آئین میں جو ان کے حقوق مرتب کئے گئے تھے ان سے بھی انہیں محروم رکھا گیا اور بے اثر بلاوجہ کے اختلافی مسائل اور فسادات کے لامتناہی واقعات نے انہیں ترقی پانے اور پنپنے کا آج تک موقع ہی نہ دیا۔
پھر سیاسی طالع آزماؤں اور خود ملت کے نادان دوستوں نے انہیں جذباتی مسائل میں اس طرح الجھائے رکھا کہ انہیں اپنی حقیقی صورتحال کا اندازہ کرنے کا موقع ہی نصیب نہیں ہوا۔ گو یا داخلی و خارجی ہر سطح پر حالات ان کے لیے ناسازگار رہے اور اس دوران جن اقوام نے ہوش مندی اور سوجھ بوجھ سے کام لیا، وہ اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ مسلمان ان سے اپنا تقابل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آزادئ ہند کے بعد مسلمانوں کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا گیا۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والے تمام حکمرانوں اور ملک کے مبینہ رکھوالوں نے ان کی پسماندگی میں اضافہ کرنے میں اپنا کردار نبھایا۔ سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو اپنے ووٹ بینک کے طور پر ہمیشہ استعمال تو کیا، لیکن ان کی فلاح و بہود کے بجائے تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر ان کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مسلمانوں نے جن جماعتوں کو اپنے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچایا، انہوں نے بھی انہیں طفلی تسلی دینے اور سبز باغ دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اور اب ہمارے ملک میں غربت، جہالت، گندگی ، بیماری، بے روزگاری، احساس کمتری اور مایوسی مسلمانوں کی پہچان بن گئی اور ایسا لگتا ہے کہ ترقی کی ہر راہ مسلمان بستیوں اور آبادیوں کو چھوڑ کر دور سے ہی گزرجاتی ہے۔
از غلام ربانی شرفؔ نظامی اٹالہ الہ آباد
الرضا نیٹ ورک کو دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ (۲)جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں:
نتیش کی واپسی بہار کی سیاست کا نیا مرحلہ: عوامی مفاد اور قیادت کی آزمائش… Read More
Al Raza Sept. Oct. 2025 Final 1 (1)Download Read More
فہرست: ₹15000 سے کم میں بہترین 5G اسمارٹ فونز 2025: مکمل ریویو اور خریدنے کا… Read More
Bimonthly Al Raza (International) July August 2025 ( جولائی، اگست ۲۰۲۵)دوماہی الرضا انٹرنیشنلDownload Read More
مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں تو مذہب کی بنیاد پر پابندی کیوں ؟ (جب… Read More
راہل گاندھی کی یاترا، ووٹ چوری اور بہار میں ایس آئی آر شمس آغاز ایڈیٹر،دی… Read More