مختصر حیاتِ حضور محدث اعظم بہار

مختصر حیاتِ حضور محدث اعظم بہار

ازقلم:- محمد اجمل حسین مرکزی، باسوپٹی مقیم حال۔ ڈربن، ساوتھ افریقہ


دینِ اسلام کی حفاظت و صیانت کےلیے اس خاک دان گیتی پر بہت سے علما کی تشریف آوری ہوئی اور ان لوگوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کے ترویج و اشاعت میں گزار دی، ان میں علماے ہند کا کردار "فروغ اسلام” کے حوالے سے بہت نمایاں ہے اور ان میں بھی بالخصوص مجدد دین و ملت، امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اور آپ کے شاگردوں کی خدمات آپ ذر سے لکھنے کے قابل ہے۔برصغیر ہند و پاک میں آپ کے فیض یافتگان کی فہرست بہت طویل ہے جنھوں نے دین حق کی صحیح آبیاری فرمائی۔صوبہ بہار میں بھی انوارِ رضا کی شعائیں خوب پھیلی۔جس سے علمِ نور کے آفتاب و ماہتاب رونما ہوئے اور پوری زندگی مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترجمانی کی، اور کررہے ہیں۔
انہیں مخصوص اسما میں سے ایک نام استاذ العلماء، حضور محدث اعظم بہار، ماہر درسیات علامہ مفتی محمد احسان علی حامدی مظفرپوری کا ہے جن کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے۔حضور محدث اعظم بہار نے اپنی پوری زندگی "قال قال رسول اللہ ﷺ ” کی نغمہ سرائی میں گزار دی،آپ نے علم رضا کے چراغ کو اس طرح روشن کیا کہ اس سے وقت کے لاجواب فقیہ، مفکر، مدبر، مصنف اور مبلغین پیدا ہوئے۔آپ کی زندگی کا ہر ایک گوشہ الگ الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے، آپ کے بارگاہِ فیض سے نکلنے والے انمول نگینے، انگنت ہیں جن کا شمار کرنا میرے بس میں نہیں الغرض بر صغیر ہند و پاک کے معزز اور نامور علما کی اکثریت بالواسطہ یا بلا واسطہ آپ کے شاگردوں کی ہے۔
ولادت:
شمالی بہار کے مردم خیز ضلع سیتامڑھی (سابق مظفرپور) کے گاؤں فیض پور، باتھ اصلی، نان پور میں ۱۳۱۶ھ کو پیدا ہوئے۔
تعلیم:
حضور محدثِ اعظم بہار علیہ الرحمہ نے کافیہ، قدوری تک کی تعلیم حضور آفتابِ بہار،جانشینِ سرکار محبّٰی حضرت علامہ ولی الرحمن ولی پوکھریروی کی بارگاہ سے حاصل کی۔پھر مزید حصول تعلیم کےلیے ۱۳۳۳ھ میں مرکزِ اہلِ سنت جامعہ رضویہ منظر اسلام،بریلی شریف تشریف لے گئے۔ جہاں حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان، صدرالشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی اور حضرت مولانا نورالحسین نوری فاروقی رامپوری علیہم الرحمہ وغیرہ معزز و مکرم اساتذہ سے کسب فیض کیا۔سالِ فراغت حضور اعلٰی حضرت کا وصال ہوگیا، آپ کی دستار اعلی حضرت کے عرس چہلم میں شہزادگانِ اعلی حضرت و دیگر مشائخ اہلِ سنت کے ہاتھوں ہوئی۔حضور شیر بیشۂ اہل سنّت علامہ حشمت علی خان علیہ الرحمہ پیلی بھیتی آپ کے رفیق درس رہے ہیں۔
درس وتدریس:
بعدِ فراغت مادر علمی جامعہ رضویہ منظر اسلام میں ہی آپ کا بحیثیت مدرس تقرر ہوا، لمبے عرصہ تک تقریباً نصف صدی تک آپ علم و ہنر کے جوہر لٹاتے رہے، صرف ایک سال کے لیے دارالعلوم علیمیہ دامودر پور بحیثیت صدر مدرس تشریف لائے۔ پھر حضور مفسرِ اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ کے اصرار پر منظر اسلام واپس تشریف لائے اور تقریباً چالیس سال تک شیخ الحدیث کے عہدے پر گامزن رہ کر احادیث نبی کی صدائیں بلند کرتے رہے۔ آپ نے پوری زندگی امت مسلمہ کے نونہالوں کی آب یاری میں گزاری، آپ جب بخاری شریف کا درس دیتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ آپ حافظ بخاری شریف ہیں ۔آپ کا مطالعہ اس قدر وسیع تھا کہ بلا مطالعہ آپ تدریس کا باکمال فن رکھتے تھے ۔آپ کے بارے میں حضور حجۃ الاسلام نے فرمایا کہ "مولانا احسان علی ہی منظر اسلام میں شیخ الحدیث کے منصب پر جلوہ بار ہوں مجھے خوشی ہوگی”۔
بیعت وارادت:
حضور محدث اعظم بہار علیہ الرحمہ شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہوئے اور خلافت بھی حضور حجۃ الاسلام ہی سے حاصل تھی ان کے علاوہ حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے بھی آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔
تصنیف و تالیف:
حضرت کی بیشتر زندگی طلبہ کی شخصیت سازی میں گزری، اور لمبے عرصہ تک شیخ الحدیث کے منصب کو زینت بخشتے رہے، اسی درمیان آپ کی تحریری کاوشیں بھی عمل میں آئی، آپ نے "حمداللہ” اور "سراحیہ” وغیرہ پر تعلیق بھی لکھی تھی، مگر افسوس صد افسوس، آپ کی رحلت کے بعد وہ محفوظ نہ رہ سکی۔
حضور محدث اعظم بہار علیہ الرحمہ کی ذات بے شمار خوبیوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ نے نہ صرف علم دین کی شمع روشن فرمائی بلکہ آپ نے مسلک اعلی حضرت کی ایسی پاسبانی کی کہ خاص و عام میں آپ کی مقبولیت میں چار چاند لگ گیا۔
۱۹۷۸ ۔۔؛ میں قاضی مہاراشڑ مفتی اشرف رضا قادری مدظلہ العالی جامعہ اشرفیہ میں داخلہ کے لیے درخواست منظور کروا چکے تھے، مزید کچھ حضرات سے شفارسی خطوط لے کر مبارک پور تشریف لے گئے اور سارے خطوط حضرت بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پیش کردیئے۔ ان خطوط میں ایک خط حضرت اقدس حضور محدث اعظم بہار مفتی محمد احسان علی رضوی علیہ الرحمہ کا تھا جس کا مضمون کچھ اس طرح تھا کہ "اشرف رضا میرا عزیز ہے اس کا داخلہ منظور فرمائیں احسان پر احسان ہوگا ھل جزاء الاحسان الا احسان” حضرت بحر العلوم نے تمام شفارسات کو ملاحظہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ "حضرت بابرکت محدث صاحب کی پرچی ان تمام شفارسات پر بھاری ہے- پھر آپ کا مذکورہ جماعت میں داخلہ لے لیا گیا- (بقول حضور قاضی مہاراشٹر)
وصال پر ملال:
غزالئ دوراں، استاذ الاساتذہ، زینت درس و تدریس، شیخ الحدیث و التفسیر، حضرت محدث اعظم بہار علامہ مفتی محمد احسان علی رضوی علیہ الرحمہ۔ ۱۰ شوال المکرم ۱۴۰۲ / مطابق ۱۹۸۲ء میں ہمیشہ ہمیش کے لئے جہان فانی کو الوداع کہتے ہوئے دار بقا کی طرح کوچ کر گئے، آپ کا مزار مبارک آپ کے آبائی وطن فیض پور سیتامڑھی میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
حضرت محدث بہار علیہ الرحمہ کی ساری زندگی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے، آپ کے ہزاروں تلامذہ بڑے فخر سے اول الذکر آپ کا ذکر جمیل کرتے نظر آتے ہیں اور مختلف سائٹس پر نامور شخصیات کے سوانح میں بحیثیت استاذ ومربی چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں۔الله عزوجل سے دعا گو ہوں کہ آپ کے درجات کو مزید بلند فرماۓ اور آپ کے فیضان کو عام و تام فرماۓ۔۔۔ آمین ثم آمین

(حوالہ: تذکرہ علمائے اہلسنت ، بقول حضور قاضی مہاراشٹر دام ظلہ اور بقول نبیرہ محدث بہار مفتی حسان صاحب)
ajmal92hussain@gmail.com


الرضا نیٹ ورک کو  دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔