حالیہ فوجی جھڑپ اور سرحد پار کے شرفاء کا کردار: ایک فکری تجزیہ

حالیہ فوجی جھڑپ اور سرحد پار کے شرفاء کا کردار: ایک فکری تجزیہ

احمد رضا صابری | 13 مئی 2025

جنگیں اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لئے فوجیں لڑتی ہیں اور عوام اس کی قیمت چکاتی ہے، پھر بھی اپنی افواج کے ساتھ کھڑے رہنا ہمارا فریضہ ہوتا ہے! مگر اس بار سرحد پار کی عوام کے جن شرفاء اور علاماؤں نے بدتمیزی کی ساری حدیں پار کردی ہیں ان میں سب سے بڑا نام لقمان شاہد (صرف ایک کو مینشن کیا ہے ایسے درجنوں میں میرے فرینڈ لیسٹ میں ہیں) کاہے۔اس آدمی نے سطحیت اور ہند کے مسلمانوں سے عصبیت کا بھرپور زہر نکالا ہے۔ہم میں سے بیشتر نے ایسے نازک وقت میں خاموشی کو ترجیح دی ہے کہ جنگیں عموما سیاسی مقاصد کے لیے اور چند روزہ ہوتی ہیں پھرحالات معمول پر آتے ہی عوام کو شیرو شکر ہوتے دیر نہیں لگتی۔مگر ہمارے فرینڈ لیسٹ میں کیڑوں کی طرح رینگ رہے کچھ علاماؤں اور مفکرین سرحد پارنے جنہیں ہم نے ہمیشہ احترام ہی دیا ہے، جو طوفان بدتمیزی برپا کی ہے دیکھ کر دل آزردہ ہوا ہے۔

سرحد پار کی بدزبانی: دینی اخوت کی پامالی

ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ہند میں کوئی اہل ایمان بھی ہے، سب کوایک دھاگے میں پروکر منہ بھر بھر کر گالیاں دی ہے، کافر، مشرک، گاؤ متر پینے والا نہ جانے کیا کیا کہا ان علاماؤں نے۔میں نے ایک دو دفع کاؤنٹر کے طورپر کچھ کہنا چاہا بھی تو ہماری طرف کے کچھ علاماؤں کی دینی حمیت ابل پڑی اور مجھ پر احادیث کی بارش کرنے لگے کہ آپ اہل ایمان کو ایسا ویسا کہہ رہے، سو میں نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔مگر آج اس لقمان نامی مفکر کی بدتمیزیوں کے جواب میں جس کو ہم نے کئی سالوں سے سر پر بٹھا رکھا ہے یہ پوسٹ لکھنے پر مجبور ہوا اور اپنی طرف والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جس دن آپ کو کسی بھی پاکستانی خواص یا عوام سے براہ راست واسطہ پڑگیا اس دن آپ بھی میری طرح یہ کہنے پر مجبوہوجائیں گے کہ’’روئے زمین پر بدترین مخلوق بشکل انسان کہیں رہتی ہے تو وہ جگہ پاکستان ہے۔‘‘ کچھ اچھے لوگ بھی ہیں ان کو مستثنیٰ رکھاجائے۔

پاکستان کاتجزیہ ایک کڑوی سچائی

میں تقسیم سے لے کر آج تک اس قوم کی تعفن زدہ اور بھیک منگی زندگی پر پانچ سو سے زیادہ صفحات لکھ کر یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ کیسے عالم اسلام کا ناسور ہے یہ خطہ اور’’ مملکت خداداد‘‘ نامی اس جنگل کے بھوکے ننگے درندے جو آئے دن اپنے ہی لوگوں کا خون پیتے اپنے ہی مسجدوں اسکولوں اور مدرسوں میں بم پھوڑتے رہتے ہیں پوری دنیائے انسانیت اور بالخصوص دنیائے اسلام کے لیے کس قدر خطر ناک اور کیسے ننگ وعار کا باعث ہیں۔اس کٹیگری میں بھی کچھ اچھے لوگ ہیں ان کو مستثنیٰ رکھاجائے۔

پاکستان کا قیام عاقبت نااندیشی کا نتیجہ تھی

زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لے کر کچھ عاقبت نااندیش سیاست داں وطن عزیز میں لکیر کھینچنے پر راضی تو ہوگئے مگر اس کی کتنی مہنگی قیمت آج وطن عزیز کے مسلمان چکارہے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ کس قدر حسین سپنے اور کتنے بھلے وعدوں کے ساتھ مٹھی بھر لوگوں کو بہلا کر اُس پار لے گئے کہ ہم ایک جنت نشان خطہ آباد کریں گے مگر گزشتہ ستر پچھتر سالوں میں اس خطے کو دنیا کا سب سے ڈینجر زون بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ ہرطرف بھوک مری، لاچاری اور بے بسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ایک بھی ایسا قائد، ایسا لیڈربتائیں جس نے اس ملک کے لیے مخلص ہوکر کام کیاہو اور اس ترویج وترقی میں کوئی رول ادا کیاہو، جس کو موقع ملا سب نے دونوں ہاتھ سے لوٹا بس لوٹا، سب نے ایک دوسرے کو جیل میں ڈالا اور کسی نے بھی اپنی میعاد پوری نہیں کی۔ الا ماشاء اللہ!

بنگلہ دیش مملکت خدا داد سے کئی معنوں میں بہتر

یہی وجہ ہے کہ اسی ملک سے الگ ہوکر بنگلہ دیش ایک الگ ملک بنا مگر اُس کی کرنسی اس مملکت خداداد سے بہتر ہے ۔ پچیس تیس سال تک جنگ کے شعلوں میں ابلنے والا افغانستان معاشی سماجی اور مذہبی طورپر اِن سے بہتر ہے، آج بھی اُن کی کرنسی اِن سے بہتر ہے۔آج دنیا بھر میں مسلمانان عالم کے لیے دہشت گرد کا لفظ بولا اور لکھا جاتا ہے وہ یقینا ایک سازش کا حصہ ہے مگر اس میں اس خطے کے لوگ کتنے بڑے حصہ دار ہیں، یہ سب لوگ نہیں جانتے۔اگر میں ان کی خانہ جنگی اور آپسی درنگی کے صرف گزشتہ دس سال کے اعداد وشمار یہاںپیش کردوں تو ننگے کھڑے نظر آئیں گے۔

نتیجہ: نفرت نہیں، فہم و شعور کا وقت ہے

خیر یہ باتیں ضمناً آگئیں حاصل کلام یہ کہ پڑوسیوں میں کئی بارمختلف سیاسی، سماجی وجہوں سے جنگ ناگریز ہوجاتی ہے جو افواج لڑتی ہیں، اور عوام کو صبروضبط کے ساتھ اپنے ملکوں کی افواج کا حوصلہ بڑھاناہوتا ہے، ایسے میں کچھ گھٹیا سطحی اور اوچھے لوگ اپنی فطری خباثت سے برسوں پرانے اخوت اور دینی رشتوں کا لحاط تک نہیں رکھتے اور بدزبانی اور بدکلامی سے دلوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں جوکہ بہت ہی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے۔

Loading

Leave a Comment