بھارت-پاکستان حالیہ جنگ، سیز فائر اور مودی سرکار کی خارجہ پالیسی: ایک کمزور سفارتی حکمت عملی کا پردہ فاش
احمدرضا صابری
تمہید
حالیہ بھارت-پاکستان کشیدگی اور اس کے بعد ہونے والے اچانک سیز فائر نے نہ صرف جنوبی ایشیا میں ایک نئی سفارتی بحث کو جنم دیا ہے بلکہ مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پر بھی کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سیز فائر کے پیچھے امریکی دباؤ نمایاں ہے، جس سے بھارت کی خودمختار پالیسی سازی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
بھارت-پاکستان جنگ: پس منظر
2025 کے اوائل میں لائن آف کنٹرول (LoC) پر شدت پکڑتی جھڑپیں ایک محدود جنگ میں بدل گئیں۔ دونوں اطراف جانی و مالی نقصان ہوا، اور جنوبی ایشیا ایک بار پھر عالمی میڈیا کی سرخیوں میں آ گیا۔ بھارتی حکومت نے شروع میں جارحانہ رویہ اپنایا، مگر اچانک سیز فائر کے اعلان نے خود بھارتی عوام اور اپوزیشن کو حیران کر دیا۔
سیز فائر اور امریکی مداخلت
بھارت کی جانب سے یک طرفہ طور پر سیز فائر کا اعلان، امریکی وزیر خارجہ کے دورہ دہلی کے فوراً بعد سامنے آیا۔ ذرائع کے مطابق، امریکہ نے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سخت سفارتی دباؤ ڈالا۔ اس سچائی نے بھارت کی "عالمی طاقت” بننے کی دعویدار خارجہ پالیسی کو ایک مرتبہ پھر بے نقاب کیا۔
مودی سرکار پر اٹھتے سوالات
مودی حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ:
-
سیز فائر سے بھارت کا دفاعی موقف کمزور ہوا
-
امریکہ کی دخل اندازی بھارت کی خودمختاری پر سوال اٹھاتی ہے
-
حکومت کی ناقص خارجہ حکمت عملی نے پاکستان کو عالمی سطح پر اخلاقی برتری دی
اندرونی سیاسی حلقے بھی اس سیز فائر کو حکومتی ناکامی اور کمزوری قرار دے رہے ہیں، خاص طور پر جب بھارت کے میڈیا نے جنگی فضا بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
خارجہ پالیسی کی کمزوریاں
مودی سرکار کی خارجہ پالیسی میں درج ذیل کمزوریاں واضح ہو رہی ہیں:
-
زیادہ انحصار امریکہ اور مغربی طاقتوں پر
-
خطے میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ مستقل کشیدہ تعلقات
-
سفارتی توازن کے بجائے جارحانہ رویہ
یہی رویہ بھارت کو سفارتی محاذ پر تنہا کرتا جا رہا ہے، اور چین و روس جیسے اتحادی بھی محتاط ہو چکے ہیں۔
نتیجہ: کیا بھارت کی خودمختاری داؤ پر لگ چکی ہے؟
حالیہ حالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت کی خارجہ پالیسی محض دعوؤں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سیز فائر ایک وقتی فیصلہ ہو سکتا ہے، مگر اس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ خارجہ پالیسی میں توازن، ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات اور عالمی دباؤ سے آزاد حکمت عملی اختیار کرے۔