بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
محمدمشتاق نوری
جب حالات آپ کے مخالف ہوں۔جب ہوا آپ کے خلاف بہنے لگے۔جب زمانہ آپ پر پل پڑنے کو بےتاب ہو۔جب آپ کی چھوٹی لغزش کو بھی جرم عظیم کے خانے میں ڈال کر آپ کو پابند سلاسل کیا جاۓ تو ایسے پرآشوب وقت میں جذبات میں بہنے کے بجاۓ،اپنے گرد و پیش سے بے خبر ہونے کے بجاۓ،ہوش پر جوش کو غلبہ دینے کے بجاۓ آپ کو حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ زمانے کے دجل و فریب اور ریشہ دوانیوں کا قبل از وقت خبر رکھنا بھی لازمی ہے۔کیوں کہ جہاں قدم قدم پہ آپ کے وجود کو چیلنج ہو وہاں لسان و قلم کو شتر بے مہار نہ چھوڑنا بالغ نظر قوم کی علامت ہے۔بطور قائد و سپاہی آپ سے دین کو یہی مطلوب ہے۔
ملک میں مسلم سماج سے جڑی کسی بھی تنظیم، تحریک، ادارہ یا فرد کی ہر ہر نقل و حرکت پر سرکاری ایجنسیوں کی پینی نظر رہتی ہے۔اس کے باوجود اسے ہماری سادگی کہئے یا بے وقوفی کہ ہم بھول جاتے ہین کہ ہم ایک ایسے ملک کا حصہ ہیں جہاں سیکولرازم کے نام پر جمہوریت تو ہے لیکن یہاں کورٹ کچہری،پولیس و قانون سب اکثریتی طبقے کا من مزاج دیکھ کر کام کرتا ہے۔اس لئے اپنی تحریر و تقریر اور نقل و حرکت کا جائزہ لیتے رہنا وقت کی جبری مانگ ہے۔آپ دیکھ لیجئے! شرجیل امام،ڈاکٹر کفیل،اکبرالدین اویسی،وارث پٹھان جیسے لوگوں کے حالیہ بیان ہمارے سامنے ہیں جو متنازع و کمیونل نہ ہونے کے بعد بھی بناۓ گئے۔اور ابھی تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا سعد کی تقریروں کو جس طرح میڈیا توڑ موڑ کر پیش کر رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ نظام الدین میں مرکز کوئی تبلیغی جماعت کا ٹھکانہ نہیں بلکہ بم ساز لیب ہے۔میڈیا چھینٹا کشی،افترا پردازی اور کذب بیانی کے سارے ہتھیاروں سے لیس ہو کر تبلیغی جماعت پر حملہ آور ہوا ہے۔
اور مجھے بھی لگتا ہے کہ اس طرح کی تقریر ایسے وقت میں قطعی نہیں ہونی چاہئے تھی۔موجودہ وقت میں ایسی جذباتی تقریروں سے آپ صرف اپنی نسل کشی کا سامان کر سکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ حق بولنا لکھنا چھوڑ دیں۔بالکل نہیں! مگر حق گوئی و بے باکی کا یہ بھی مطلب نہیں ہوتا کہ آپ ملکی قانون کا پاس و لحاظ نہ کریں۔اظہار راۓ کی آزادی کا حق ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سر عام کسی کی پگڑی اچھال دیں۔کسی سے آپ کے ہزار اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن آپ کو اپنی تحریر و تقریر کا اسلوب سلجھا ہوا اور مہذب بہرحال رکھنا ہوگا۔آج سے کچھ دن پہلے اور بھی دو بریلوی و سلفی خطیب صاحبان اسی جوش بیانی کے شکار ہوگئے تھے۔وہ تو شکر مناییے کہ معاملہ طول نہیں پکڑا ورنہ میڈیا نے تو زور لگا ہی دیا تھا۔
میں نے بارہا اس عالمی وبا کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ آج ہماری یہ بے احتیاطی کل ہمیں رسوا کر کے چھوڑے گی آخر وہی ہوا۔جب مسجدوں کے دروازوں پر امام و مقتدی پٹتے تھے تو ہمیں بھی تکلیف ہوتی تھی۔ ہمارا بھی دل رنجیدہ ہوتا تھا لیکن اس وقت ان لوگوں کی حماقت پر غصہ بھی آتا تھا کہ مسجد کے اندر ان سے نماز بھی ادا نہ ہوسکی اور سستے میں پٹ گیے اور اسلام و مسلمان کو بدنام کئے سو الگ۔نمازیوں کے ساتھ لٹھ مار پولیس کی بربریت کے وائرل ہوتے مختلف ویڈیوز سے میڈیا اور سنگھ کے آئی ٹی سیل والے منفی نیریٹیو سیٹ کرنے کے لئے ابھی پر ہی تول رہے تھے کہ پٹنہ اور دہلی نظام الدین میں تبلیغی جماعت کی غیر ذمہ دارانہ بھیڑ نے جلتی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر دیا۔وہی میڈیا جس کے پاس ہفتوں ایک سیکیولر و کمیونسٹ کورونا پر بولنے کے لئے مواد و میٹیریل کم پڑ رہا تھا اچانک سے جماعت کی حرکت سے کورونا مشرف بہ اسلام ہوگیا اور ملک بھر میں کورونا پھیلانے کی ذمہ داری مسلم سماج کے گلے باندھ دی گئی۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ تبلیغی جماعت سے ہمارے اختلاف ہزار سہی،مگر ایسے وقت میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مناظرہ و مجادلہ کا اسٹیج تیار کرنا، ایک دوسرے کو کوسنا، جماعت کے افراد کی دار و گیر سے خوش ہونا یا جماعت کو تنہا چھوڑ دینا کہیں سے بھی دانشمندی نہیں۔میرے خیال میں یہ فراست ایمانی کے عین خلاف ہے۔اس آزمائش کے وقت جو لوگ بھی مسلکی انتہا پسندی میں حد سے گزر کر اس طرح کی حرکت کر رہے ہیں وہ حالات و واقعات سے یکسر بے خبر ہونے،مزاج سیرت سے ناواقف ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔آج قبائل کفر و شرک ہم پر جو متحدانہ حملہ آور ہوۓ ہیں وہ صرف اس لئے کہ ان کی نظر میں کلمہ گو ہونے میں ہم آپ برابر کے شریک ہیں۔انہیں بریلویت، سلفیت، دیوبندیت، شیعیت سے کوئی سروکار نہیں۔اور ہاں! یہ بھی نوٹ کر لیں کہ اگر آج متحد نہ ہو سکے۔آج یکتائی نہ دکھا سکے تو آئندہ نسلوں کو غیر محفوظ کرنے کا ذمہ دار بھی ہم ہی ہوں گے۔ایک خدا، ایک کلمہ ایک رسول کے نام پر آج متحد ہوجانا ہی عقلمندی ہے ورنہ صدیاں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
آج ہمارے درمیان ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو بات بات میں مسلک و مشرب کے بینر اٹھاۓ گھومتا رہتا ہے۔جس کے نزدیک کسی بھی مکتب فکر سے کسی طرح کا بھی اتحاد ناممکن ہے۔یہ عدم اتفاق کا اتنا بڑا علمبردار ہے کہ وہ مسائل جو کسی ایک مسلک سے حل نہیں ہونے والے، ان کے لئے بھی یہ ایک سائبان کے نیچے نہیں آسکتا۔آج جب کہ مسلمانوں کے وجود و بقا پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ فکری انتہا پسندی کے مارے لوگ دوسرے کے خلاف پروپگنڈے میں مصروف ہیں۔
اس ذہنیت کے حامل لوگ چاہے جس مسلک و مشرب میں ہوں وہ کسی خاص شخصیت، ادارے،علاقے کا خیر خواہ تو ہوسکتے ہیں مگر اسلام و انسانیت کا ہرگز نہیں۔بقول اقبال
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
رونا اس کا ہے کہ دہلی نظام الدین میں جماعت کی لاپرواہی و بے احتیاطی سے ہمارے وہ سارے کام کچڑے کے ڈبے میں ڈال دیئے گئے جو ہم نے اس وقت فلاح و رفاہ کے نام سے کئے تھے۔ہم نے جو ملک و ملت کی خاطر مسجدوں کے دروازے مقفل کر دیئے تھے وہ بھی رائیگاں رہا۔ہم نے لاک ڈاؤن میں جو تعاون کیا اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ہماری اکا دکا بے احتیاطیوں نے ہمیں ویلین بنا دیا ہم ہیرو سے زیرو بنا دیئے گئے۔اس لئے تلافی مافات کے بطور ہم ایک کام کر سکتے ہیں کہ متحدہ آواز بلند کریں،جماعت کی آڑ لے کر مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کے میڈیائی منصوبے کے خلاف قانونی لڑائی کی تیاری کریں۔اور ایک کلمہ کے نام پر شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح فرعون وقت کے خلاف ڈٹ جائیں۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
مزید پڑھیں:سیاسی تعصبات اورہندوستانی مسلمان
مزید پڑھیں:این آرسی پر حکومت کا آمرانہ رویہ
مزید پڑھیں:تین طلاق کا مسئلہ اور ملکی سیاست