اقوام متحدہ اور مسئلہ فلسطین واسرائیل

اقوام متحدہ اور مسئلہ فلسطین واسرائیل

ڈاکٹر غلام زرقانی، امریکہ


دودنوں پہلے مجلس امن میں فلسطینی علاقے میں اسرائیلی آبادکاری منصوبے کے خلاف مصرنے ایک قرارداد پیش کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا، جسے امریکہ کے نئے منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعدواپس لے لیا گیا۔ تاہم مجلس امن کے غیر مستقبل ممبران میں سے نیوزی لینڈ،سنیگال، ونزویلا اور ملیشیا نے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دوبارہ ووٹنگ کے لیے پیش کرنے کی گزارش کردی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجلس امن کے مستقل اور غیر مستقل پندرہ ممبران میں سے چودہ ممبروں کی حمایت سے یہ قرار داد منظورکرلی گئی ، جب کہ امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔
معاملہ کی نزاکت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں میں عرب اور اسرائیل کے حوالے سے پیش کی جانے والی قراردادوں پر ایک نگاہ ڈال لی جائے ۔ تاریخی حقائق کے مطابق اسرائیلی حملہ میں سینکڑوں لبنانی اور شامی کی شہادت کے بعد مجلس امن میں پیش ہونے والی قرارداد مذمت کو امریکہ نے پہلی بار ۱۰؍ستمبر ۱۹۷۲ء؁ میں ویٹوکیااور اس کے بعد سے لے کر اب تک اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی تقریبا ساری قراردادیں امریکہ کے تعاون سے منسوخ ہوتی رہی ہیں ۔ ان میں فلسطینیوں پرطاقت کا بے جا استعمال ، فلسطینیوں کوحق رائے خودارادی ، لبنان اور شامی علاقوں پر بمباری ، اسرائیلی کی معاشی ناکہ بندی، مقبوضہ زمین پر اسرائیلی آبادکاری، بیت المقدس کی کھدائی ، لیبین ائرلائنز کا اغوا، ملک چھوڑکر چلے جانے والے فلسطینیوں کی وطن واپسی اورمقبوضہ علاقوں میں مجلس امن کی طرف سے نگراں کی تعیین وغیرہ معاملے شامل رہے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک امریکہ نے مجلس امن میں ایک سو کے قریب قراردادیں ویٹوکی ہیں ، جن میں سے ۵۲ قراردادیں اسرائیل کی حمایت میں ویٹوکی گئی ہیں ۔ اسی کے ساتھ یہ پہلو بھی پیش نگاہ رہے کہ امریکہ اپنے دوست اسرائیل کی فوجی امداد سے لے کر مالی تعاون پیش کرنے میں بھی سب سے آگے رہتاہے ۔ ایک تحقیقی مضمون کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ۱۹۴۹ء؁ سے لے کر ۲۰۱۵ء؁ تک اسرائیل کو امریکہ سے ملنے والی امداد کا تخمینہ ۱۳۸بلین ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے ۔
یہ زیر بحث معاملہ کا ایک پہلوہے ، اب ذرا دوسرا پہلو بھی دیکھ ہی لیجیے ۔ اقوام متحدہ کے مجلس امن میں فلسطین اور اسرائیل تنازعہ کے حوالے سے ایک قرارداد۲۳؍دسمبر ۲۰۱۶ء؁ کو پاس ہوئی ، جو مجلس امن کے ۱۴ممبران کے مثبت ووٹوں کے ذریعہ بہ آسانی پاس ہوگیا،جب کہ امریکہ ووٹنگ سے غائب رہا۔ یہ قرارداد مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلیوں کے لیے مکانات کی تعمیر سے متعلق تھی ، جس میں کہاگیا ہے کہ اسرائیل کی توسیعی منصوبہ بندی بین الاقوامی قوانین کے صریح خلاف ہے ، جو کسی قیمت پر قانونی جواز نہیں رکھتی ، نیزچوتھے جینواکنوشن کے تحت قابض طاقت کو ضابطے کی پابندی کرنی چاہیے اور توسیعی منصوبے پر روک لگانی چاہیے ۔
ٹھیک ہے ، یہ قرار اسرائیلی عزائم کی کھلی مذمت سے تعبیر کی جاسکتی ہے ، تاہم اسے زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کے لیے کسی طور مؤثر نہیں قراردیا جاسکتا۔ اس کے باوجود متذکرہ قرارداد کے پاس ہونے پر اسرائیل نے جو اقدامات کیے ہیں ، وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے بہت کافی ہیں۔غیرت ایمانی ہنوز سلامت ہے ، تو برستی آنکھوں سے پڑھنے کی کوشش کیجیے ۔
’’ ۱۔ قراردادپیش کرنے والے چاروں ممالک ؛نیوزی لینڈ، سنیگال، ونزویلااور ملائشیا سے اظہار ناراضگی، ۲۔ نیوزی لینڈ اور سنیگال سے اپنے سفرائے ملک کی احتجاجا واپسی،۳۔ سنیگال اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کے اسرائیل دوروں کی منسوخی، ۴۔ وزیر اعظم کے دفتر سے وزارت خارجہ کے لیے ووٹنگ میں حصہ لینے والے تمام ممالک کے سفراء کی طلبی ، جب کہ کرسمس کی تعطیلات میں سفارت خانے بند تھے ،۵۔اقوام متحدہ کے پانچ اداروں کی اسرائیلی امداد پر روک ، جو اسرائیل پر تنقیدیں کیا کرتے تھے ، ۶۔ اور روئے زمین پر اپنے سب سے بڑے حمایتی امریکہ پرقرارداد کی تیاری اور اسے پیش کرنے کے لیے خفیہ جد وجہد کرنے کے الزامات ، ۷۔ اسرائیل کے لیے امریکی سفیر ڈین شپیرو کی طلبی اور احتجاجات۔ ‘‘
آپ ماتھے کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، ایک’’ معمولی سی بے جان قرارداد ‘‘پر اسرائیلی رد عمل کی جھلکیاں! اب ہوسکے تو اسلامی تاریخ کے بوسیدہ اوراق کھنگالنے کی کوشش کیجیے کہ گذشتہ سترسالوں سے اقوام متحدہ میں کتنی قراردادیں مسئلہ فلسطین کو براہ راست نقصانات پہنچانے کے لیے منظورکی گئی ہیں اور یہ بھی سراغ لگانے کی کوشش کیجیے کہ عالم اسلام کے حکمرانوں کے ممکنہ ردود عمل کیا تھے ؟ ہم نے اپنے بھائیوں کی حمایت میں کتنے ’’عملی اقدامات ‘‘ کیے ہیں ؟ کتنے ممالک سے معاملات منسوخ کیے ہیں ؟ اور کتنے سفرائے ممالک کو طلب کرکے احتجاجات کیے ہیں ؟
کہیے ہے نا فرق ہم میں اور ان میں ؟ معاف کیجیے گا کہ ہم ’’زبان‘‘ کے بہت دھنی ہیں ۔ زبان سے صدائے احتجاجات بلند کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ روئے زمین پر کہیں ہمارے ساتھ ناانصافی ہو، عالم اسلام کے حکمراں بسرعت تمام زبانی مذمت کرنے کے آگے بڑھ جاتے ہیں اور بس۔ جب کہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ ہر معاملہ میں صرف زبانی احتجاج کافی نہیں ہوتا، کہیں کہیں عملی اقدامات کے بغیر بات بنائے نہیں بنتی ۔ مثال کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اپنے پڑوس میں برما کے روہنگیا مسلمانوں کے حالات پر ایک سرسری نگاہ ڈال لیجیے ۔ کس طرح بے دردی کے ساتھ نہتے مرد، عورت، بچے اور بوڑھے مسلمان زندہ جلائے جارہے ہیں ۔مکانات زمیں بوس کیے جارہے ہیں اور آبادیاں تہہ وبالا کی جارہی ہیں ۔ کئی کئی دنوں تک بھوکے پیاسے رہنے پر مجبور کیا جارہاہے ۔ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں ۔ اور حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ ظلم وبربریت ، سفاکیت اور قتل وخون کی ہولناکیاں کیمرے میں قید کرکے ’’فخر وتکبر‘‘ کے ساتھ ذرائع ابلاغ تک پہنچایا بھی جارہاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم ہیںکہ بس زبانی مذمت ، لفظی ناراضگی اور قلمی احتجاج۔
بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اظہار ہمدردی کے لیے ہی سہی ، عالم اسلام کے ذمہ داروں کو برما جاکر اپنے مسلمان بھائی اور بہنوں کی مزاج پرسی تک کی ’’فرصت ‘‘ نہ ملی۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال رمضان المبارک کے موقع پر ترکی کے وزیر خارجہ نے روہنگیا مسلمانوں سے ملاقات کی تھی اور انہیں یقین دلایا تھا کہ ترکی علاقے میں ہسپتال ، اسکول اور دواخانے کی تعمیرات میں امداد کرے گا۔تاہم معذرت کے ساتھ عرض کروں کہ اسے بھی ’’زبانی اقدامات‘‘ ہی کی فہرست میں شامل کردیا جائے توبہتر ہے کہ ’’طفل تسلی ‘‘ سے کہیں زیادہ انہیں’’تحفظ جان وایمان‘‘ کی فکر ہے ۔ لہذا سب سے بڑھ کر جس تعاون کے وہ شدت سے منتظر ہیں ، وہ ہے عالمی دباؤ ڈال کر وہاں کی انتظامیہ کو روہنگیا مسلمانوںکے ساتھ انصاف کرنے پر مجبور کرنا ، نہ کہ جھولیوں میں چند سکے ڈال کرآنسو پوچھنے کی اداکاری !
صاحبو! اور یہ بات بھی سن لی جائے کہ زبانی مذمت ، عوامی ریلی اور احتجاجی جلسے تو عام مسلمان کرہی لیتے ہیں ، تاہم ارباب اقتدار بھی ’’لفظی مذمت‘‘ سے آگے نہ بڑھیں ، تو عام انسانوں اور ارباب اقتدار میں فرق ہی کیا رہ جاتاہے ؟ یاد رہے کہ جو قوم جاگتی رہتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی حرکت پر عملی اقدامات کے لیے تیار رہتی ہے ، وہ داخلی خطرات سے بھی محفو ظ رہتی ہے اور بیرونی حملوں سے بھی ۔ اسرائیل زمینی رقبہ کے لحاظ سے ۲۲۱۴۵اسکوائر میٹر ہے ، جو عالم عرب کے رقبہ ۳۳۰۰۰۰۰۰۰ کے مقابلے میں نہایت ہی حقیر سہی ، جب کہ عالم اسلام کے اجماعی رقبہ کے لحاظ سے سمندرکے مقابلے میں قطرۂ آب، لیکن وہ نہ صرف دن کے اجالے میں آنکھیں کھلی رکھتاہے ، بلکہ سیاہ رات کی تاریکیوں میں بھی ہمہ وقت چاق وچوبند رہتاہے ۔ روئے زمین کے کسی کونے میں اسرائیلی مفادات کے خلاف ایک پتہ ہلنے کی جسارت کرے اور فوری اقدامات حاضر ، ہے نا کس قدر فرق ہم میں اور ان میں ؛ وہ عملی اقدامات میں دیر نہیں لگاتے اور ہم زبانی احتجاجات کی گتھیوں میں ہفتوں الجھے رہتے ہیں !

مزید پڑھیں:مفتی اعظم ہند اورصدرالافاضل کچھ یادیں کچھ باتیں

مزید پڑھیں:یورپ میں گرمی، کورونا کا بحران گہرا کر سکتی ہے

مزید پڑھیں:بچے اور بوڑھے کرونا سے کس طرح بچیں

 

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

موسم گرما کے سیلاب کے بعد تقریباً 80 لاکھ پاکستانی اب بھی بے گھر ہیں: سفارت کار | موسم گرما کے سیلاب کے بعد تقریباً 80 لاکھ پاکستانی اب بھی بے گھر ہیں: سفارت کار

[ad_1] ڈیجیٹل ڈیسک، جنیوا۔ پاکستان میں گزشتہ موسم گرما کے سیلاب کے بعد اب بھی …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔