ماہنامہ تحفہ حنفیہ اور تذکرہ امام احمدرضاایک نظم کے حوالہ سے

ماہنامہ تحفہ حنفیہ اور تذکرہ امام احمدرضاایک نظم کے حوالہ سے

ڈاکٹر محمد امجد رضاامجدؔ:قاضی شریعت مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ بہار

یادش بخیر!عہد رضا میں فکررضا کا ایک بے باک ترجمان ’’ماہنامہ تحفہ حنفیہ ‘‘بھی ہوا کرتاتھا جو بہار کی راجدھانی پٹنہ سے نکلتاتھا۔۱۳۱۵ ھ میںاسے خانقاہ معظم بہار شریف کے صاحب سجادہ جنابحضور شاہ امین احمد فردوسی علیہ الرحمہ کے مرید اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے خلیفہ ومجاز حضرت مولاناقاضی عبد الوحید فردوسی علیہ الرحمہ نے جاری کیاتھا۔یہ رسالہ تقریبا ۱۲؍سال یعنی ۱۳۱۵ھ سے قاضی صاحب کے انتقال پرملال ۱۳۲۶ ھ کے کچھ بعد تک بڑے طمطراق اور مجاہدانہ کروفرکے ساتھ جاری وساری رہا۔اس درمیان اس رسالہ نے دین وسنت کی جو آبیاری کی اور احقاق مذہب حق اور ابطال باطل میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔
ماہنامہ’’تحفۂ حنفیہ ‘‘فکررضاکاپہلااور بے باک ترجمان تھا جس نے اپنے متنوع موضوعات جیسےرد ندوہ ،ردغیر مقلدین، ردقادیانیت، ردنیچریت، ردفرنگیت، ردشیعیت، اشاعت فتاویٰ، اشاعت کتب(قسط وار) نعت ومناقب ،معاصر اخبارات پر ضروری تنقید، تبصرے، خطوط، اشتہار کتب، سوانح، ملی خبریں، مختلف اجلاس،اور مجلس اہل سنت کی روداد وغیرہ کے ذریعہ جماعت اہل سنت کو استحکام بخشا اور عقائد باطلہ کی تردیدو اصلاح مفاسد میں تاریخی کارنامے انجام دئے۔
تحفہ کے بانی جناب قاضی صاحب قبلہ ایک جواں سال عالم دین ،قادرالکلام شاعر،تبلیغ سنت کے جذبہ سے سرشارمبلغ اور تردید عقائد باطلہ میں بے باک وکامیاب مجاہد تھے،وہ عظیم آباد کے رؤسا میں شمار ہوتے تھے مگر دل سالکوں والا پایاتھا ،اس اللہ کے بندے نے دین متین کی خدمت کے لئے اپنے خزانوں کے منھ کھول دئے اور تنہا اپنے جذبہ وحوصلہ پر نہ صرف ماہنامہ ’’تحفہ حنفیہ‘‘ جاری کیا ، بلکہ’’مدرسہ اہل سنت ‘‘ اور’’ مطبع حنفیہ‘‘ پٹنہ قائم فرماکرجماعت اہل سنت کے فروغ واستحکام میں سہ طرفہ تقویت پہنچائی ۔ان کے ایثار پسندانہ عمل ہی کا نتیجہ تھا کہ بہار میں جماعت اہل سنت نے ندویت وصلح کلیت کے طوفان بلا خیزکا کامیاب مقابلہ کیا اور بہار کے علماومشائخ ندوہ کی زد میںآنے کے بجائے ان کے خلاف صف آرا ہوئے ۔ قاضی صاحب نے صرف ۳۶؍سال کے قریب عمر پائی مگر وہ کام کرگئے کہ جماعت اہل سنت ان کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔
سرکار اعلیٰ حضرت نے ان کی اس دینی حمیت،جوش ایمانی اور جذبہ استیصال بدعات پر انہیں خوب نوازا ،ان کے لئے ’’ندوہ شکن،ندوی فگن‘‘جیسے القابات استعمال فرمائے، مدرسہ کے سالانہ اجلاس میں تشریف لے گئے اور ان کے مرض وصال میں دو روز پہلے پٹنہ پہنچ کر ان کی تیمارداری کی، انتقال کے بعد ان کی تجہیز وتکفین میں حصہ لیااور اپنے ہاتھوں سے انہیںلحد میں اتارا،جنازہ کے ہمراہ چلتے ہوئے ان کی شان میں عربی اشعار کہے۔
قاضی صاحب واقعی خوش قسمت تھے کہ ان کی دولت ان کے لئے صدقہ جاریہ بن گئی ،انہوںنےعلماومشائخ اہل سنت کے دلوں میں جگہ پائی اور زمانہ کا مجددفقیہہ عارف اور قطب الاقطاب ان کے جنازہ میں شریک ہی نہ ہوا بلکہ خود لحد میں اتر کر انہیں اپنے ہاتھوں سے لحد میںاتارااور چہرہ کھول کر لوگوں کو دکھاتے ہوئے فرمایا ’’دیکھئے ایسے ہوتے ہیں اہل ایمان اور اللہ والوں کے چہرے ۔ ‘‘ ع
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
حضرت قاضی صاحب کے مدرسہ ،ان کے رسالہ اور ان کے مطبع سے اعلیٰ حضرت سرکار کاجو رشتہ ہے وہ اتنا آفاقی اور تاریخی نوعیت کا ہے کہ اسے چند صفحات میں سمیٹاہی نہیں جاسکتا ۔ان کے مطبع سے اعلیٰ حضرت کی تقریبا ۳۳؍کتابیں شائع ہوئیں ،تحفہ حنفیہ میں ان کے فتاویٰ ،قسط واررسائل اوران کی کتابوں کے اعلانا ت واشتہارات شائع ہوئے ،ان کی تحریکات کو تقویت یہیں سے فراہم ہوئی بلکہ بہار میں ان کی شخصیت ان کے کارنامے اور ان کے عزائم ومنصوبے کو یہیں سے شہرت ملی ۔مدرسہ حنفیہ کے سالانہ اجلاس منعقدہ ۱۳۱۸ھ جس میں خانقاہ معظم بہار شریف کے صاحب سجادہ جناب حضور شاہ امین احمد امین احمد فردوسی،تاج الفحول مولانا شاہ عبد القادر بدایونی ،حضرت محدث سورتی اور دیگر سینکڑوں نامورعلما موجود تھے اعلیٰ حضرت قبلہ کو ’’مجدد مأۃ حاضرہ‘‘ کہا گیااور پھر ہر شمارہ میں کسی نہ کسی مضمون اعلان اشتہار وغیرہ میں ان کی مجددیت کا اعلان کیاجاتارہا،قاضی صاحب کے اس عمل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو اعلیٰ حضرت قبلہ سے کتنی محبت تھی ،وہ اعلیٰ حضرت کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے اور تصانیف رضا کی اشاعت کے معاملہ میںوہ کتنے حساس اور کوشاں تھے ۔
تحفہ حنفیہ علمی اعتبار سےبہت ہی معیاری رسالہ تھا۔اس کے موضوعات میں تنوع اورزبان سہل و شستہ تھی، اسے ملک کے اکابر علماء ومشائخ کی سرپرستی اور ان کا قلمی تعاون حاصل تھا ،مجدد عصر امام احمد رضا کی کتابیں ،فتاویٰ اور نعتوں کی اشاعت کے علاوہ تاج الفحول حضرت مولانا عبد القادر بدایونی ،صدر مجلس اہل سنت مولانا شاہ عبد الصمد شہسوانی ،مولانا وصی احمد محدث سورتی،حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضاخان، مفتی عمر الدین ہزاروی،ملک العلمامولانا ظفرالدین رضوی ،مولانا شاہ سلامت اللہ ،مولانا نذیر احمد ،مولانا عبد الواحد رامپوری،مولانا یونس علوی وغیرہ کی کتابیں یا مضامین اکثر شامل ہوتے تھے جبکہ بہار کے قلم کاروں میں حضرت شاہ بد رالدین پھلواروی،شاہ اکبر دانا پوری،شاہ محسن دانا پوری ،مولانا عبد الرحمٰن محبیٰ ،مولانا قاضی عبد الوحید فردوسی وغیرہ کی کتابیں اور مضامین بھی تسلسل سےشائع ہوتےتھے۔
تحفہ حنفیہ میں امام احمد رضا کا ذکر کئی جہتوں سے ہے اور بار بار بلکہ ہر شمارہ میں ہے کبھی فتاویٰ ،رسائل اور نعتوں کی اشاعت کے سلسلہ میں ،کبھی مجلس اہل سنت بریلی پٹنہ امرتسراور بنارس کے سلسلہ میں ،کبھی مسئلہ اذان ثانی اور صلح کلیت کی تردید واصلاح کے تناظر میں یعنی ؎
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے ساغر ومینا کہے بغیر
کی طرح ہر شمارہ میںکسی نہ کسی حوالہ سے ان کا ذکر ضرور ملتاہے ،اس سے صاف واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت کی شخصیت اس دور میں ہی سنیت کی حجت اور دین حق کی علامت کے طور پر تسلیم کی جاچکی تھی ۔
تحفہ حنفیہ اور ذکر امام احمد رضا بڑا وسیع اور پھیلا ہوا عنوان ہے اسے چند صفحات میںسمیٹا نہیںجاسکتاانشا اللہ اس حوالہ سے ایک مستقل کتاب جلد ہی پیش کی جائے گی ۔یہاں تمہید کے طور پر صرف ایک نظم کا تذکرہ ملاحظہ کریںاس سے اندازہ ہوگا کہ عہد امام احمد رضا میں ان کی عظمت کا کس کس انداز میںاظہار ہوتارہاہے ۔مولانا ضیاالدین ہمدم پیلی بھیتی تحفہ حنفیہ کے مدیر تھے ،صاحب علم اور قادر الکلام شاعر تھے تحفہ میں ان کی بھی کئی منظوم کتابیں شائع ہوئیں ان میں ایک نظم ’’منظم ہدیہ تحسیں‘‘بھی ہے جو ۱۳۲۲ھ میں شائع ہوئی ،اس نظم سے جہاں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی عظمت کااظہار ہورہا ہے وہیں شاعر کی علمی عظمت اور شاعرانہ قدرت کا بھی احساس ہوتاہے ،تمہید کے اشعار میں انہوں کس طرح اعلیٰ حضرت کی عظمت بیان کی ہے ملاحظہ کریں
میرا احمدرضا ہے سب میں یکتا
مفرد ہے وہ احمد کی رضا کا
محددہے جہات ارتقا کا
محددہے گروہ اشقیا کا
مسدد ہے طریق اہتدا کا
مشدد ہے سبیل اقتدا کا
مجددہے وہ اس چو دہ صدی کا
مؤید ہے وہ شرع احمدی کا
مفرج اہل سنت ہے بلا کا
مخرج ہے فنون اصطفا کا
مروج سنت خیر الوریٰ کا
معوج پشتہائے اغویا کا
مقلد ہے وہ نعمان صفی کا
وہ شیدائی ہے’’ فرزند نبی‘ ‘ کا
ذیل کے اشعار میں اعلیٰ حضرت کو کن کن القابات سے یادکیا ہے ملاحظہ کریں؎
وہ ہے سلطان رد اہل بدعت
وہ ہے تاج سرانِ اہل سنت
وہ ہے سحبان اقلیم معانی
تصدق جس پہ ہے جادو بیانی
وہ ہے مہر سپر حسن تحقیق
وہ ہے بدر منیر برج تدقیق
ہے علم نقلی و عقلی پہ حاوی
نہیں ہے ہند میں اس کا مساوی
قلم میں زور ہے اس کے بلا کا
نمونہ قوت شیر خدا کا
شفا پاتے مریضان جہاں ہیں
عیاں اس سےاشارات نہاں ہیں
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے فتاویٰ رضویہ کےخطبہ میں فقہی کتابوں کے نام اس طرح استعمال کئے کہ وہ اسما خطبہ کا معنوی حصہ بن کرحمد نعت منقبت سلام سبھی بن گئے مولانا ضیا الدین ہمدم نے بھی اس نظم میں اعلیٰ حضرت کی زبان بیان قلم تصنیف تالیف کا ذکر ان کتابوںکے حوالوں سے اس طرح کیاہے کہ وہ اعلیٰ حضرت کی علمی عظمت کا حصہ بن گئے ہیں ؎
مسائل کا بیاں ہے در مختار
ضلالت کا ہے بطلاں رد محتار
ہر اک تصنیف ہے اس کی ہدایہ
ہر اک تالیف ہے اس کی کفایہ
وہ ہے بحر محیط علم وہر فن
زباں غیرت دہِ صد برگ سوسن
بیاں ہے اس کا یا کنز دقائق
مطالب ہیں کہ رشک بحر رائق
ہر اک تقریر ہے مطلب کو وافی
جو مضموں لکھ دیا بس ہے وہ کافی
وہ مفتاح علوم شرع و دیں ہے
وہ مصباح ظلام اہل کیں ہے
بیاں اس کا ہے ایضاح معانی
تصدق جس پہ ہے گوہر فشانی
عرب اس کی بلاغت کا ثنا خواں
عجم اس کی فصاحت پر ہے قرباں
بیاں مختصر الفاظ مجمل
مطول معنیٰ و مطلب مفصل
عجب تنقیح میں اس کی ہے توضیح
عجب تصریح میں اس کی ہے تلویح
ہر اک توضیح میں ہیں وہ زیادات
کہ جس سے فیض کے ظاہر کرامات
اگر تفسیر میں اس کا بیاں ہے
کمال اتقان کا اس سے عیاں ہے
غوامض میں ہے اس کا ذہن کشّاف
رموز اسرار اس کے حل کے وصاف
سوال اہل بدعت میں جلالین
جواب اہل باطل میں کمالین
ہیں جتنے اہل باطل کے مواقف
وہ ان کے سب مقاصد سے ہے واقف
معالم اس کے افزوں ہیں بیاں سے
مدارک اس کے بیروں ہیں نشاں سے
غرض ہر علم میں ہے بحر مواج
تمام اطراف میں ہیں جس کے امواج
احادیث اس کے وہ حصن حصیں ہیں
مشارق نور کے جس میں مکیں ہیں
ہے سینہ اس کا مشکوٰۃ مصابیح
دل روشن کے ہاتھوں میں مفاتیح
مدام اس کی رکھے حق خیر جاری
کہ ہے اسلام کا ابر بہاری
ذیل کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’گونج گونج اٹھے ہیں نغمات رضا سے بوستاں ‘‘کی دھوم صرف آج نہیں ان کے زمانہ سے ہے یہ اعتراف عامی کی نہیں ایک جید عالم کی ہے اشعار ملاحظہ کریں ؎
جدھر دیکھو ادھر ہے جلوہ فرما
یہی نور افگن اقلیم برھما
ہوا اس رنگ سے رنگون رنگیں
خجالت بخش نقش کشور چیں
ہمیں گوید درینجا اہل ادراک
چہ نسبت خاک را باعالم پاک
برائے پر تگیز امن وامان است
بہ جسم مخلص دیں ہمچو جان است
تمامی اہل ’’افریقہ‘‘ ہیں منصور
ہر اک ’’آسام ‘‘والا اس کا مشکور
خصوصا وہ گرامی خطہ پاک
جہاں پیدا ہوئے ہیں شاہ لولاک
وہاں کے علم والے اے برادر
بناتے ہیں اسے آنکھوں کا اختر
غرض ہر ملک اس سے بہرہ ور ہے
ہر اک اقلیم میں یہ نامور ہے
اس طویل نظم کا یہ حصہ بھی ملاحظہ کیجئے جس میں یہ اظہارہے کہ امام احمد رضاکےعلم وفضل کی خوشبو سارے عالم میں پھیلی اوراس سے ایک جہان علم فیضیاب و معطر ہوا،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں نعمت ہوتی ہے وہاں حسد بھی بال وپر پسار ہی لیتا ہے اعلیٰ حضرت کی اس علمی برتری کے باوجود ان کے حاسدین کی بھی کمی نہیں تھی،بہر حال مولانا ضیاالدین ہمدم کے اشعار اس حوالہ سے ملاحظہ کریں فرماتے ہیں ؎
بریلی کے گلستاں کی ہے خوشبو
مہکتی ہے تمام عالم میں ہر سو
اسی گلشن سے نکلا وہ گل تر
کیا جس نے جہاں سارا معطر
اسی گلشن سے ہے وہ گل خراماں
بھرے ہیں دوستوں کےجس نے داماں
خدا کا فضل ہے اس باغباں پر
عنایت جس کی ہے سارے جہاں پر
وحید عصر ہمعصروں کا محسود
محامد کی زبان و دل کا محمود
’’ہمعصروں کا محسود‘‘ محض شاعری نہیں اظہار حقیقت ہے امام احمد رضانے بھی ایک منقبت میںاپنے حاسدین کا ذکرکیا ہے مگریہ ذکر بھی شکر حق کے ساتھ ہے جس میں حاسدین کے لئے دعابھی ہے فرماتے ہیں ؎
عدو بد دین مذہب والے حاسد
توہی تنہا کا زور دل ہے یا غوث
حسد سے ان کے سینے پاک کردے
کہ بد تر دق سے بھی یہ سل ہے یا غوث
غذائے دق یہی خوں استخواں گوشت
یہ آتش دین کی آکل ہے یا غوث
دیا مجھ کو انہیں محروم چھوڑا
مرا کیا جرم حق فاصل ہے یا غوث
خدا سے لیںلڑائی وہ ہے معطی
نبی قاسم ہے تو موصل ہے یا غوث
آج بھی ان کے ناقدین وحاسدین سر ابھارے ہوئے ہیں بلکہ مختلف طرح کی عصبیت کے شکارہیں، بعض نام نہاد صوفی اور نشہ دولت کے شکار ہمارےبعض نوفارغ علما بھی اس آزار میں مبتلا ہیںیہ آزار در اصل ان کے اندر کے ’’زیغ وغضب‘‘ کا آئینہ اور اپنی بے علمی وبے بضاعتی کا اظہارہے ورنہ عالم عارف فقیہہ شیخ حرم وفضلائے عجم جس ذات کی محبت کو اہل ایمان واہل سنت ہونے کی علامت قراردیںان سے قلبی آزار اور کیا معنیٰ؟اللہ تعالیٰ محبین کو ان کی محبت کا صلہ اور حاسدین کو رجوع الی الحق کی توفیق عطافرمائے آمین

مزید پڑھیں:چاند کےمسئلہ میں امت مسلمہ کا اضطراب: آخر ذمہ دار کون ؟

مزید پڑھیں:بھوکوں کا سہارا بنیں اور اللہ کو راضی کریں

مزید پڑھیں:اگر آپ کی یادداشت کمزور ہے تو یہ ۹ طریقے اپنائیں اور حیرت انگیز نتیجہ پائیں

 

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

ترک موالات

امام احمد رضاقادری اور ترک موالات کا درست مفہوم : المحجۃ الموتمنہ کی روشنی میں

جو دوستی اورمحبت مسلمان عورتوں کے لیےمسلمان مردوں سے جائز نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کفار و مشرکین، ﷲ عزوجل اوررسول ﷺ کے دشمنوں کے ساتھ جائز ہوجاے۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔