حفظ وقرأت کی درسگاہیں۔
تحریر: احمد رضا صابری
تاریخ: 4 اگست 2025
خالص حفظ و قرأت کی درسگاہیں، آج کے دور میں ایک ایسے فیکٹری کی شکل اختیار کرچکی ہیں جو بظاہر قرآن کے حفاظ پیدا کر رہی ہیں، مگر درحقیقت ان کا نتیجہ معاشرتی طور پر ایک ایسے بےروزگار طبقہ کی پیدائش کی صورت میں نکل رہا ہے، جو نہ دین کا مکمل فہم رکھتا ہے اور نہ دنیا کا۔
ان اداروں میں بچے اپنے ابتدائی قیمتی آٹھ سے دس سال گزار دیتے ہیں۔ صرف قرآن حفظ کرایا جاتا ہے، نہ انہیں درسِ نظامی کے ابتدائی مضامین کی خبر ہوتی ہے، نہ عصری علوم کی۔ اگر آواز اچھی ہو تو نعت خواں بن جاتے ہیں، ورنہ کسی مسجد میں امامت یا مکتب سنبھالنے پر مجبور، اور چندے کی چادر اٹھانے والے بن جاتے ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل حفاظ محض تراویح کے لیے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کی محنت کا صلہ صرف رمضان میں چند روزہ خدمات اور چند ہزار کی ملازمت ہوتا ہے۔ ایسے حافظین، جو نہ جدید تقاضوں سے آشنا ہیں اور نہ دین کے علمی مزاج سے، وہ نہ اپنے لیے نفع بخش بن سکتے ہیں، نہ سماج کے لیے۔
قوم کے عطیات سے اربوں روپے کی زمین اور عظیم الشان عمارتیں صرف "حفظ” کے نام پر تعمیر کی جاتی ہیں، جبکہ ان اداروں سے فارغ ہونے والے نوجوان فاقہ کشی یا پھر قوم کی طرف حسرت سے دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سچ ہے جس پر پردہ ڈالنا اب ممکن نہیں رہا۔
حفظ کے ساتھ مکمل دینی و عصری تعلیم:
حفظ کے ساتھ ساتھ نصاب میں فقہ، حدیث، عربی، انگلش، کمپیوٹر، اور دیگر اہم عصری مضامین شامل کیے جائیں۔
طلباء کی ذہانت کی بنیاد پر انتخاب:
جو بچے تیز ذہن رکھتے ہیں، وہ دو تین سال میں حفظ مکمل کر سکتے ہیں۔ باقی بچوں کو زبردستی حافظ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔
حفظ کا ایک شعبہ ہو، مکمل ادارہ نہیں:
مکمل ادارے صرف حفظ پر نہ چلائے جائیں بلکہ درس نظامی یا عصری تعلیم کے ساتھ ایک مختصر "شعبۂ حفظ” بنایا جائے۔
ذہنی و معاشی مستقبل پر غور:
طلباء کی تربیت اس طرح ہو کہ وہ مستقبل میں خودکفیل ہوں، صرف امامت یا تراویح کے محتاج نہ رہیں۔
یہ سوال آج ہر ذی شعور مسلمان کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ
کیا ایک ایسا حافظ قرآن جو نہ دین کے دوسرے علوم سے آشنا ہو، نہ دنیا سے، واقعی امت کا فخر بن سکتا ہے؟
کیا یہ حفظ واقعی فخر ہے یا سماج پر ایک نادیدہ بوجھ؟
حافظ قرآن ہونا بلا شبہ شرف ہے، مگر جب وہ دین کے دیگر علوم، فہم، بصیرت اور زمانے کی ضرورتوں سے عاری ہو، تو وہ شرف نہیں بلکہ ایک خالی لقب رہ جاتا ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ ہم قوم، مدارس اور اپنے نوجوانوں کے مستقبل کو سنجیدگی سے لیں اور دینی اداروں میں حقیقی اصلاح کی بنیاد رکھیں۔
شائع کردہ: الرضا نیٹ ورک
الرضا نیٹ ورک کو دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ (۲)جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
نتیش کی واپسی بہار کی سیاست کا نیا مرحلہ: عوامی مفاد اور قیادت کی آزمائش… Read More
Al Raza Sept. Oct. 2025 Final 1 (1)Download Read More
فہرست: ₹15000 سے کم میں بہترین 5G اسمارٹ فونز 2025: مکمل ریویو اور خریدنے کا… Read More
Bimonthly Al Raza (International) July August 2025 ( جولائی، اگست ۲۰۲۵)دوماہی الرضا انٹرنیشنلDownload Read More
مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں تو مذہب کی بنیاد پر پابندی کیوں ؟ (جب… Read More
راہل گاندھی کی یاترا، ووٹ چوری اور بہار میں ایس آئی آر شمس آغاز ایڈیٹر،دی… Read More