علامہ قمرالزماں اعظمی : فا صلہ آدھی صدی کا !!

علامہ قمرالزماں اعظمی : فا صلہ آدھی صدی کا !!

غلام مصطفےٰ نعیمی ہاشمی
روشن مستقبل دہلی

علامہ قمرالزماں اعظمی : مسند خصوصی کی جانب اٹھتے ہوئے یہ دھیمے قدم صرف چند قدم بھر نہیں ہیں، ان قدموں کے پیچھے اکیاون سال کی جد وجہد پوشیدہ ہے۔نعروں کا یہ شور وراثت یا خاندانی نسبتوں سے نہیں ملا خود کی محنتوں سے کمایا ہوا ہے۔آج قدموں کی رفتار قدرے دھیمی ضرور ہے، مگر اسی رفتار کے ساتھ تیز رفتاری کی تاریخ بھی وابستہ ہے۔آج بھلے ہی چہرے پر کمزوری کے آثار نظر آرہے ہیں مگر چہرے کی شادابی کی یادیں بھی انہیں آثار کا حصہ رہی ہیں۔جسم کی نقاہت اور ضعف کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن جسم کی قوت اور زبان و فکر کی توانائیاں بھی اسی دیار میں صرف ہوئی ہیں۔اس طرح بہ ظاہر چند قدموں کا نظر آنے والا یہ فاصلہ محض چند قدموں کا نہیں بل کہ جد وجہد ، محنت مشقت، اور عزم و حوصلے پر مشتمل اکیاون سال کا وہ فاصلہ ہے جس نے جماعت اہل سنت کی دو نسلوں کی دینی تربیت کا فریضہ انجام دیا ہے۔اور اس تاریخ کے سب سے پرانے سپاہی کا نام مفکر اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی ہے !!

سفر، جو تاریخ بنا

اگست 1974 میں برطانیہ میں قدم رنجہ ہونے والے 28 سال کے جواں سال قمر الزماں اعظمی نے شاید اس وقت سوچا بھی نہیں ہوگا کہ برطانیہ کا یہ اتفاقی سفر ایک مثالی تاریخ کی ابتدا ہوگا۔مگر کہتے ہیں نا کہ تاریخ کے ابتدائی اقدامات اتفاقی ہی لگتے ہیں لیکن ہر قدم کو تاریخ وہی لوگ بنا پاتے ہیں جو ہر اقدام کو اپنا صد فی صد دیتے ہیں۔جن کے پاس کام کا جذبہ، جذبوں میں اخلاص اور حالات کو پہچاننے کا ہنر ہوتا ہے۔جو کارواں بنانے میں یقین رکھتے ہیں۔جن کا مطمح نظر ملت ہوتی ہے۔جو ملنے، جوڑنے، ساتھ چلنے اور مقصد کو اولیت دیتے ہیں۔

دور جوانی میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود بھی اپنی صلاحیتوں کو کما حقہ نہیں پہچان پاتے، بھلے ہی ہم ان کا استعمال کیوں نہ کر رہے ہوں، لیکن جوانی کا دور ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس طرف دھیان کم ہی جاتا ہے لیکن خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جوان جو پیدائشی چمک لیکر پیدا ہوتے ہیں، یا کوئی ایسا مربی اور سنگ تراش مل جائے جو انہیں نکھار کر جوہر قابل بنا دے۔علامہ اعظمی قسمت کے دَھنی اور مزاج کے دُھنی تھے۔طبیعت میں پیدائشی چمک تھی۔حافظ ملت جیسے مربی اور علامہ ارشد جیسے جوہر شناس نے انہیں مناسب موقع اور پلیٹ فارم دیا۔جسے انہوں نے اپنی دُھن، لگن اور خود اعتمادی سے تاریخ بنا دیا۔
برطانیہ میں اپنی پہلی تقریر کے ضیاع اور علامہ ارشد کی خفگی پر انہوں نے اگلے جلسے کی بابت بڑے اعتماد سے کہا تھا:
"اگر پندرہ منٹ میں پندرہ نعرے نہ لگواؤں تو مجھے (انڈیا) واپس کر دیجیے گا۔”
(روبروئے قمر: 19)

علامہ ارشد جیسی جہاں دیدہ اور دیدہ ور شخصیت کے سامنے یہ بات اتنے یقین سے وہی جوان کَہ سکتا تھا جسے اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہو۔جو لوگوں کے مزاج پرکھنے کا ہنر اور نبض شناسی کا مادہ رکھتا ہو۔جیسا کہا ویسا ہوا، علامہ اعظمی کی اگلی تقریر نے ان کی اور ورلڈ اسلامک مشن کی تقدیر طے کر دی۔ورلڈ اسلامک مشن کی عمارت چالیس ہزار پونڈ کے قرض تلے دبی ہوئی تھی۔اسی کی ادائیگی اور خدمت کے لیے علامہ اعظمی کو انڈیا سے برطانیہ بلایا گیا تھا۔علامہ اعظمی کی مفکرانہ خطابت اور اخلاص و للہیت نے ورلڈ اسلامک مشن کو جلد ہی قرض کے بوجھ سے نکال کر اپنی مستقل عمارت کا مالک بنا دیا۔

ترقی اور اعزاز

ترقی اور اعزاز دیکھنے/سننے میں بہت چھوٹے اور آسان سے لفظ معلوم ہوتے ہیں لیکن جب تک ان لفظوں کے پیچھے سالوں کی محنت، بلا کا جنون اور خود کو فنا کر دینے کے مراحل طے نہ ہوں یہ لفظ آسانی سے آپ کی قامت زیبا پر سجائے نہیں جاتے۔اسٹیج کی طرف بڑھتے علامہ اعظمی کے قدم، ان کے استقبال کو بڑھتے ہاتھ، زباں پر ان کے قصیدے یوں ہی نہیں آگیے ہیں اس کے لیے علامہ اعظمی جیسی شخصیت کو cheetham hill کے بیلٹ اسٹریٹ میں دو روم کے چھوٹے سے مکان میں بچوں کو پڑھانے، پنج وقتہ امامت کرنے۔قبل فجر دروازہ کھولنے، اذان دینے، بعد عشا دروازہ بند کرنے جیسے محنت طلب کام مسلسل تین سال تک انجام دینا پڑے۔وہ انسان جسے سننے کے لیے ہزاروں کا مجمع جمع ہوتا ہو۔جس کی تقریر کا عوام سے زیادہ خواص کو انتظار رہتا ہو، ایسی شخصیت نے مقصد کے لیے امامت، مؤذنی، مدرسی اور چوکی داری جیسے محنت طلب کام تن تنہا انجام دئے۔مشہور شخصیت اور ذاتی وجاہت کو درکنار ایسا کام کس طرح انجام دے پائے، اس کی بابت آپ فرماتے ہیں:
"ذات کی نفی کے بغیر اگر آپ اپنی انا کے کونے میں بند رہے تو آپ کوئی کام نہیں کر سکتے۔پہلے آپ کو فنا کرنا ہوگا کہ دانا خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے، اس کے بعد ہی کوئی کام ہوگا۔” (روبروئے قمر: 21، 22)

تھکاوٹ نہیں سکون ہے!

مسند خصوصی پر تشریف فرما علامہ اعظمی کے چہرے پر چمک کے ساتھ ساتھ ایک خالی پن بھی محسوس ہو رہا ہے۔شاید نگاہیں مولانا شاہد رضا نعیمی جیسے رفیق سفر کو تلاش رہی ہوں۔دل کے نہاں خانہ میں کہیں یہ خواہش ابھری ہو کاش علامہ ارشد حیات ہوتے۔سیکڑوں کی بھیڑ میں علامہ شاہ احمد نورانی کی کمی محسوس کر رہے ہوں۔ممکن ہے علامہ نیازی کا سراپا نگاہوں میں گھوم گیا ہو۔آج کا یہ اعزاز علامہ اعظمی ہی کا اعزاز نہیں بل کہ اکابرین کے اس بھروسے کا اعزاز ہے جو انہوں نے علامہ اعظمی پر جتایا تھا۔اعتراف خدمات کا اوارڈ اصل میں اکابرین کے اس خلوص کا اعتراف ہے جو انہوں نے نسلوں کی تربیت کے لیے پیش کیا تھا۔قابل مبارک باد ہیں حضرت مفتی ایوب اشرفی شمسی، جنہوں نے علامہ اعظمی کی نصف صدی پر محیط خدمات کے اعتراف میں ڈائمنڈ جوبلی کانفرنس کا انعقاد کیا۔اور اکابرین کے اعتماد و خلوص کو مسند خصوصی پر بٹھا کر اپنا قد اور معیار بلند کیا۔خوش نصیب ہے ہر وہ شریک جو اس یادگاری تقریب کا حصہ بنا۔امید کرتے ہیں کہ علامہ اعظمی کے طے کردہ خطوط نسل نو کے لیے مشعل راہ بنیں گے۔ان کی داستان مشقت و عزیمت بیٹھتے دلوں کو قوت عطا کرے گی۔ان کا وجود تاریخ کا روشن چراغ بنے گا۔

محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو
بے کاوش سینہ نہ کبھی نام وری دی

27 محرم الحرام 1447ھ
23 جولائی 2025 بروز بدھ

شائع کردہ: الرضا نیٹ ورک

alrazanetwork

Recent Posts

نتیش کی واپسی بہار کی سیاست کا نیا مرحلہ: عوامی مفاد اور قیادت کی آزمائش

نتیش کی واپسی بہار کی سیاست کا نیا مرحلہ: عوامی مفاد اور قیادت کی آزمائش… Read More

2 ہفتے ago

15000روپے سے کم کے 5G اسمارٹ فونز (Best 5G Phones Under 15000)

فہرست:  ₹15000 سے کم میں بہترین 5G اسمارٹ فونز  2025: مکمل ریویو اور خریدنے کا… Read More

2 مہینے ago

Bimonthly Al Raza (International) July August 2025 ( جولائی، اگست ۲۰۲۵)دوماہی الرضا انٹرنیشنل

Bimonthly Al Raza (International) July August 2025 ( جولائی، اگست ۲۰۲۵)دوماہی الرضا انٹرنیشنلDownload Read More

3 مہینے ago

مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں تو مذہب کی بنیاد پر پابندی کیوں؟

مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں تو مذہب کی بنیاد پر پابندی کیوں ؟ (جب… Read More

4 مہینے ago

راہل گاندھی کی یاترا، ووٹ چوری اور بہار میں ایس آئی آر

راہل گاندھی کی یاترا، ووٹ چوری اور بہار میں ایس آئی آر شمس آغاز ایڈیٹر،دی… Read More

4 مہینے ago