اعلیٰ حضرت تو اعلیٰ حضرت ہی ہیں!!
از :غیاث الدین احمد عارف مصباحی
خادم التدریس : مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو، لکشمی پور مہراج گنج (یوپی)
امام اہلسنت،مجددِدین وملت،عظیم البرکت،عظیم المرتبت،امام اہلسنت،پروانہ شمع رسالت،عالم شریعت،واقفِ اسرا حقیقت، پیر طریقت، رہبر شریعت،مخزن علم وحکمت،پیکر رشد وہدایت،عارف شریعت وطریقت،غواص بحرحقیقت ومعرفت،تاجدار ولایت،شیخ الاسلام والمسلمین، حجۃ اللہ فی الارضین، تاج الفحول الکاملین، ضیاء الملۃ والدین،وارث الانبیاء والمرسلین،سراج الملۃ والدین، زبدۃ العارفین والکاملین،آیۃمن آیت اللہ رب العالمین،معجزة من معجزات رحمتہ للعالمین، تاج المحققین،سراج المحققین حامی السنن،ماحی الفتن ،بقیۃالسلف،حجۃ الخلف، مجدد اعظم،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ذات ستودہ صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے عشق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تجدیدی و اصلاحی کارناموں کی وجہ سے شہرہ آفاق شخصیت کے حامل ہیں۔ عرب وعجم کے اصحاب علم وفضل اور ارباب طریقت ومعرفت نے بالاتفاق آپ کوفرید عصر اور یکتائے روزگار تسلیم کیا ہے، عوام ہوں یا خواص، اپنے ہوں یا بیگانے، سب آپ کی عظمت کے یکساں قائل ومعترف ہیں۔البتہ حاسدین ومنافقین کو ہم کسی خانے میں نہیں رکھتے کہ چمگادڑ کو دن میں سورج نظر نہ آنا اس کا اپنا فطری نقص ہے،سورج کا اس میں کیا قصور؟
ولادت :
آپ کی ولادت 10/شوال المکرم 1272ھ بمطابق 14/جون 1856عیسوی بروز شنبہ بوقت ظہر بریلی شریف کے محلہ جسولی میں ہوئی ۔ آپ کا پیدائشی نام” محمد ” اور تاریخی نام ” المختار“ ہے ۔ جدامجد حضرت مولانا شاہ رضا علی خان نے آپ کا اسم شریف "احمدرضا“ رکھا۔ خود سرکار اعلیٰ حضرت نے اپنی ولادت کا سن ہجری اس آیت کریمہ سے استخراج فرمایا۔أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ ۖیعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ رب العزت نے ایمان نقش فرمادیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی ہے۔(سورۃ المجادلہ 22) ۔
بچپن کی تعجب خیز ذہانت:
اللہ رب العزت اپنے مخصوص بندوں کی پیشانی میں بچپن ہی سے معرفت کا نور ہویدا فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت علامہ بدرالدین قادری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب "سوانح اعلیٰ حضرت” میں یہ واقعہ درج فرمایا ہے کہ : آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بسم اللہ خوانی کی رسم کے موقع پر ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا. آپ کے استاد محترم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی نے حسب دستور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے بعد الف ب ت ث ج وغیرہ حروف تہجی پڑھانا شروع کیا. آپ پڑھتے گئے مگرجب لام الف کی نوبت آئی تو خاموش ہوگئے اور لام الف(لا) نہیں پڑھا . استادنے دوبارہ کہا. میاں صاحبزادے کہو لام الف مولانا نے کہا یہ دونوں حرف (الف اور لام) تو میں پڑھ چکا ہوں .اب دوبارہ کیوں پڑھا یا جارہا ہے؟ محفل بسم اللہ خوانی میں آپ کے دادا جان مولانا شاہ رضا علی خان موجود تھے فرمایا بیٹا استاد کا کہا مانو. جو کہتے ہیں پڑھو. اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان قدس سرہ نے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے لام الف پڑھا لیکن جد امجد کے چہرہ کی طرف مستفسرانہ نگاہ ڈالی. جد امجد مولانا شاہ رضا علی خان نے بھانپ لیا کہ گویا یہ ننھا بچہ کہہ رہا ہے کہ آج کے سبق میں فرمایا۔حرُوف مفردہ کا بیان ہے پھر ان کے درمیان ایک مرکب لفظ کیسے آگیا. اگرچہ بچے کی ننھی عمر کے اعتبار سے لام کے ساتھ الف ملا نے کی وجہ بیان کرنا قبل از وقت بات تھی ، اس وقت بچہ کی عمر تو ضرور ننھی تھی مگر اس کا ادراک و شعور بفضلہ تعالیٰ ننھا نہیں اس لئے آپ کے دادا نے فرمایا بیٹا شروع میں سب سے پہلا حرف جو تم نے پڑھا ہے وہ حقیقت میں ہمزہ ہے الف نہیں اور اب لام کے ساتھ جو حرف ملاکر تم پڑھ رہے ہو وہ الف ہے لیکن چونکہ الف ہمیشہ ساکن رہتا ہے اور تنہا ساکن حرف کو کسی طرح پڑھا نہیں جا سکتا اس لئے لام کے ساتھ الف کو ملا کر اس کا بھی تلفظ کر دیا گیا . مولانا نے فرمایا کہ اگر یہی مقصود تھا کہ الف کا تلفظ کرا یا جائے. تو اسے کسی بھی حرف کے ساتھ ملا سکتے تھے مثلاً "ب” یا "جیم” یا "دال” کے ساتھ بھی ملا کر الف کا تلفظ کیا جا سکتا تھا لیکن ان سارے حروف کو چھوڑ کر لام کے ساتھ الف ملا کر اس کی ادائیگی کرائی گئی. ایسا کیوں؟ لام سے الف کا خاص رشتہ کیا ہے؟ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ سوال سن کر جد امجد نے جوشِ محبت میں آپ کو گلے لگالیا اور دل سے دعائیں دیں پھر فرمایا بیٹا لام اور الف کے درمیان صورۃً اور سیرۃً بڑا گہرا تعلق ہے. لکھنے میں دونوں کی صورت اور شکل ایک دوسرے کی طرح ہے دیکھو "لا” ۔ اور سیرۃً یوں تعلق ہے کہ لام کا قلب "الف” ہے اور "الف” کا قلب”لام” ہے یعنی ل ا م کے بیچ میں”الف” اور ا ل ف کے بیچ میں” لام” ہے گویا:
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
یعنی اے مرشد تجھ میں فنا ہو کر میں تُو ہوا تُو میں ہوا میں جسم بنا اور تو روح ہوا تاکہ کوئی شخص اس کے بعد یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں تُو اور ہے. ظاہری نگاہ میں تو حضرت جد امجد مولانا شاہ رضا علی خان قدس سرہ نے اس الف لام کے مرکب لا نے کی وجہ بیان فرمائی مگر باتوں ہی باتوں میں اسرار و حقائق، رموز و اشارات کے دریافت وادراک کی صلاحیت اعلیٰ حضرت کے قلب و دماغ میں بچپن ہی سے پیدا فرمادی جس کا اثر بعد میں سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اعلیٰ حضرت اگر شریعت میں سید نا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدم بقدم ہیں تو طریقت میں سرکار غوث الاعظم کے نائب اکرم ہیں۔
عربی میں گفتگو:
ساڑھے تین سال کی عمر میں عربی زبان میں ایک بزرگ سے فصیح کلام فرمایا
ناظرہ قرآن پاک:
چار برس کی ننھی سی عمر میں آپ نے قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا.
پہلاخطاب :
ربیع الاول شریف کی تقریب کے مبارک موقع پر منبر پر رونق افروز ہوکر بھت بڑے مجمع کی موجودگی میں ذکر میلاد شریف پڑھا، اس وقت آپ کی عمر مبارک چھ سال تھی ۔
ہدایۃ النحو کی شرح :
آٹھ سال کی عمر میں علم نحو کی درسی کتاب ” ہدایۃ النحو ” کی عربی شرح تحریر فرمائی۔
پہلا فتویٰ:
آٹھ سال کی عمر میں وراثت کا پہلا فتویٰ تحریر فرمایا جسے دیکھ کر والد بزرگوار اس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا : ان کو ابھی نہ لکھنا چاہیے مگر ہمیں اس جیسا کوئی بڑا لکھ کر دکھائے تو ہم جانیں ۔
تائید الہی:
جناب سید ایوب علی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گھر پر ایک مولوی صاحب قرآن پڑھانے آیا کرتے تھے۔ مولوی صاحب کسی آیۃکریمہ میں بار بار ایک لفظ بتا تے مگر آپ کی زبان سے نہیں نکلتا تھا۔ وہ ’’ زَبَرْ‘‘ بتاتے آپ ’’زَ یر ‘‘ پڑھتے تھے، یہ کیفیت جب آپ ؒکے دادا نے دیکھی تو آپ کو اپنے پاس بُلایا اور کلامِ پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتِب نے غلطی سے زیر کی جگہ زبر لکھ دیا تھا، جو آپ کی زبان سے نکلتا تھا وہ صحیح تھا۔
اعلیٰ ترین ذہانت:
امام اہل سنت علیہ الرحمہ کا اپنا بیان ہے کہ استاد جب مجھے سبق پڑھا دیا کرتے تو ایک دومرتبہ کتاب دیکھ کر میں کتاب بند کر دیتا، جب استاد سبق سنتے حرف بحرف لفظ بلفظ سنا دیتا، وہ روزانہ یہ حالت دیکھ کر سخت تعجب کرتے ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ احمد میاں ! تم آدمی ہویا جن ؟کہ مجھے پڑ ھا نے میں دیر لگتی ہے اور تمہیں یاد کرتے دیر نہیں لگتی ۔ میں نے عرض کی ’’ خدا کا شکرہے میں انسان ہی ہوں، اللہ کا فضل وکرم شاملِ حال ہے ‘‘۔
مسلم الثبوت "کا مسئلہ :
10 سال کی عمر میں جب آپ اپنے والدسے’’ مسلم الثبوت ‘‘پڑھ رہے تھے کہ والد صاحب کے تحریر کردہ اعتراض و جواب پر نظر پڑی جو آپ نے ’’مسلم الثبوت ‘‘پر کیا تھا۔ آپ نے اس اعتراض کو رفع فرمایا اور متن کی ایسی تحقیق فرمائی کہ سرے سے اعتراض ہی واردنہ ہوتا تھا۔جب پڑھاتے وقت والدکی نظر آپ کے لکھے ہوئے حاشیہ پر پڑی اتنی مسرت ہوئی کہ اٹھ کر سینے سے لگا لیا اور فرمایا احمد رضا! تم مجھ سے پڑھتے نہیں ہو بلکہ پڑھاتے ہو۔
بچپن کا مثالی روزہ:
جب بچپن میں آپ نے پہلا روزہ رکھا تو ٹھیک دوپہر میں چہرے پر بھوک کے آثار ظاہر ہونے لگے،والدصاحب نے دیکھا تو کمرے میں لے گئے اور فرنی کا ٹھنڈا پیالہ اٹھا کر کھانے کو دیا ! آپ نے کہا میرا تو روزہ ہے ۔ والد صاحب نے کہابچوں کے روزے یوں ہی ہوا کرتے ہیں کمرہ بند ہے نہ کوئی آسکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے ۔ تو آپ نے عرض کی کہ’’ جس کا روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔
بغداد شریف کا ادب:
6 بر س کی عمر میں آپ نے معلوم کر لیا تھا کہ بغداد شریف کدھر ہے ۔پھر اُ س وقت سے تا دمِ آخر کبھی بھی بغداد شریف کی جانب پاؤں نہیں پھیلایا۔
درس نظامی :
اردو فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد حضرت مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے میزان منشعب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی پھر آپ نے اپنے والد ماجد تاج العلماء سند المحققین حضرت مولانا نقی علی خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےعلم قرآن، علم تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، کتب فقہ حنفی، کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، اصول فقہ، علم العقائد و الکلام جو مذاہب باطلہ کی تردید کے لئے ایجاد ہوا، علم نجوم علم صرف علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم منطق، علم مناظرہ ، علم فلسفہ مدلسہ، ابتدائی علم ہیئت، علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، ابتدائی علم ہندسہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی
دستار فضیلت:
تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869 ء کو آپ فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے.
فتویٰ نویسی:
اسی دن مسلئہ رضاعت سے متعلق ایک فتوی لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا. جواب بالکل صحیح تھا. والد ماجد نے اسی وقت سے فتوی نویسی کی جلیل الشان خدمت آپ کے سپرد کردی.
ا س طرح آپ نے تیر ہ سال دس مہینے اور چار دِن کی عمر میں 14شعبان 1286ھ کو اپنے والد ماجد علامہ نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغاز کیا ، 7بر س بعد تقریباً 1293ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔پھر جب 1297ء میں والد ماجد علیہ الرحمہ کا انتقال ہوا تو کلی طور پرآپ فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے اور تادم آخر یہ اہم فریضہ انجام دیتے رہے ۔
بیعت، اجازت وخلافت
1295ھ میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اپنے والد ماجد "حضرت علامہ نقی علی خاں” علیہ الرحمہ اور "تاج الفحول حضرت مولانا عبد القادر بدایونی” علیہ الرحمہ کے ہمراہ مارہرہ شریف گئے، جب اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ مارہرہ شریف پہنچے، اور آستانۂ عالیہ برکاتیہ پر حاضری ہوئی، وہاں کے صاحبِ سجَّادہ "حضرت سیدنا ومولانا آلِ رسول مارہروی” قدس سرہ سے اعلیٰ حضرت قبلہ اور ان کے والد ماجد کی پہلی ملاقات ہوئی، تو انہوں نے اعلیٰ حضرت قبلہ کو دیکھتے ہی جو الفاظ فرمائے تھے وہ یہ تھے:
"آئیے ہم تو کئی روز سے آپ کے انتظار میں تھے”۔
وہاں حضرت علامہ مولانا سید شاہ آل رسول احمدی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے،آپ کے پیرومرشد نے بیعت فرماتے ہی آپ کو تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی۔
کثیر علوم پر مہارت:
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اتنے علوم و فنون میں مہارت تامہ حاصل تھی کہ ہم میں سےاکثراُن کے اسما سے بھی ناواقف ہیں چہ جائیکہ ان کا علم ہو چنانچہ سیدریاست علی قادری صاحب نے اپنے مقالہ ’’امام احمد رضا کی جدید علوم وفنون پر دسترس‘‘ میں ثابت کیا ہے کہ:’’اعلیٰ حضر ت علیہ الرحمہ کو ایک سو پانچ علوم وفنون پرمہارت تامہ حاصل تھی ۔ ‘‘
وہ لکھتے ہیں :امام احمد رضاعلیہ الرحمہ نے ایک ہزار کے لگ بھگ کتب و رسائل تصنیف کئے ،جن میں 105سے زائد علوم کا احاطہ کیا گیاہے۔ جس کی تفصیل انھوں نے یوں بیان کی ہے :
(1)علم القرآن(2)قرأت(3)تجوید(4)تفسیر(5)علم حدیث (6)تخریج(7)فقہ (8)علم الکلام(9)علم العقائد(10)علم البیان (11)علم المعانی (12)علم المناظرہ (13)فتویٰ نویسی (14)سیرت نگاری (15)فلسفہ(16)منطق(17)تنقیدات(18)فضائل و مناقب (19)ادب (20)شاعری(21)نثر نگاری (22)حاشیہ نگاری(23)اسماء الرجال(24)علم الاخلاق (25)روحانیت (26)تصوف (27)سلوک(28)تاریخ و سیر(29)جدول (30)صرف و نحو (31)بدیع (32)علم الانساب (33)علم الفرائض (34)ردات (35)پندو نصائح (36) مکتوبات(37)ملفوظات (38)خطبات (39)جغرافیہ (40)تجارت (41)شماریات (42)صوتیات (43)مالیات (44)اقتصادیات (45)معاشرت (46)طبعیات (47)معاشیات (48)ہیئت (49)کیمیا (50)معدنیات (51)فلکیات (52)نجوم (53)جفر (54)ارضیات (55)تعلیم و تعلم (56)علم الحساب (57)زیجات (58)زائر چہ (59)تعویذات (60)طب (61)ادویات (62)لسانیات (63)رسم الخط (64)جر ح و تعدیل (65)ورد و اذکار (66)ایمانیات (67)تکسیر (68)توقیت (69)اوفاق (70)علم ریاضی (71)بنکاری (72)زراعت(73)تاریخ گوئی (74)سیاسیات (75)علم الاوقات (76)ردِّموسیقی (77)قانون (78)تشریحات (79)تحقیقات (80)علم الادیان (81)ماحولیات (82)علم الایام (83)تعبیر (84)عروض و قوانی (85)علم البر والبحر (86)علم الاوزان (87)حکمت (88)نقد ونظر (89)تعلیقات (90)موسمیات (91)شہریات (92)علم المناظر (93)نفسیات (94)صحافت (95)علم الاموال (96)عملیات (97)علم الاحکام (98)علم النور(99)ما بعد الطبعیات (100)عمرانیات (101)علم ِ رمل (102)لغت (103)استعارہ (104)حیاتیات (105)
(امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری از ڈاکٹر سراج احمد بستوی مطبوعہ فرید بک سٹال لاہورص59تا64)
اعلٰی حضرت کی شاعری:
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی شاعری اس درجہ کمال کی ہے کہ بڑے سے بڑا شاعر بھی آپ کا کلام پڑھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ محض اور محض عطائے الہی اور فیضان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر بالفرض آپ نے علمی ورثے کے بطورصرف شاعری ہی چھوڑی ہوتی تو یہی آپ کے فضل وکمال کی گواہی کے لئے کافی ووافی تھا۔ اس حوالے سے ایک بڑا پر لطف واقعہ ہے ۔ملاحظہ فرمائیں :
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے منجھلے بھائی استاذِ زمن حضرتِ علامہ حسن رضا خا ن صاحب ’’حسن ‘‘بریلوی فنِّ شاعری میں حضرت داغ دہلوی کے شاگر د تھے،استاذِ زمن کی جب چند نعتیں جمع ہو جاتی تھیں تو اپنے صاحبزاد ے حضرت مولانا حسنین رضا خان کے بدست اپنے استاد حضرت داغ دہلوی کے پاس اصلاح کے لیے روانہ فرماتے تھے۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ استاذ زمن کا کچھ کلام لےکر مولانا حسنین رضا خان صاحب دہلی جارہے تھے، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے دریافت فرمایا کہ کہاں جانا ہو رہا ہے مولانا حسنین رضا خان نے عرض کیا والد صاحب کا کلام لیکر استاد داغ دہلوی کے پاس جا رہا ہوں ۔ اعلیٰ حضرت اُس وقت وہ نعتِ پا ک قلمبند فرما رہے تھے جس کا مطلع ہے:
اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلائے دیئے ہیں
جس راہ چل دئے ہیں کوچے بسادئیے ہیں
ابھی مقطع نہیں لکھا تھا، فرمایا لیجئے! چند اشعار ہو گئے ہیں،ابھی مقطع نہیں لکھا ہے ،اس کو بھی دکھا لیجئے گا۔
چنانچہ مولانا حسنین رضاخان صاحب دہلی پہنچے اور استاذ الشعر اء حضرتِ داغ دہلوی سے ملاقات کی، اپنے والد ِماجد استاذِ زمن کا کلام پیش کیا۔حضرتِ داغ دہلوی نے اِس کی اصلاح کی، جب اصلاح فرماچکے تو مولانا حسنین میاں صاحب نے اعلیٰ حضرت کا وہ کلام بھی پیش کیااورکہا یہ کلام چچا جان اعلیٰ حضرت نے چلتے وقت دیاتھا اور فرمایا تھا کہ یہ بھی دکھاتے لائیے گا۔
حضرتِ داغ نے اس کو ملاحظہ فرمایا،مولانا حسنین میاں صاحب فرماتے ہیں:حضرت داغ اُس وقت نعت پاک کو گنگنا ر ہے تھے اور جھوم رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے، پڑھنے کے بعد حضرت داغ دہلوی نے فرمایا اِس نعتِ پاک میں تو کوئی ایسا حرف بھی مجھے نظر نہیں آتا جس میں کچھ قلم لگا سکوں، اور یہ کلام تو خود لکھا ہوا معلوم ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ کلام تو لکھوایا گیا ہے ،میں اس کلام کی فن کے اعتبار سے کیا کیا خوبیاں بیان کروں بس میری زبان پر تو یہ آرہا ہے کہ:
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں
اور فرمایا اس میں مقطع تھا بھی نہیں ،لیجئے مقطع بھی ہو گیا ،نیز اعلیٰ حضرت کو ایک خط لکھا کہ اس نعت پاک کو اپنے دیوان میں اس مقطع کے ساتھ شامل کر یں اس مقطع کو علیحدہ نہ کریں نہ دوسرا مقطع کہیں ۔
سبحان الله اسی لئے تو پاکستان کے ایک بہت بڑے دانشور،محقق و مصنف،ادیب وشاعر حضرت علامہ صاحبزادہ پیر واحد حسین رضوی دام ظلہ العالی لکھتے ہیں :
وہ جس کو شعر وسخن کا گھمنڈ ہو واحد
تم اس کو جاکے تھما دو "حدائق بخشش”
تصانیف:
امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے مختلف علوم وفنون پر مشتمل کم وبیش ایک ہزار کتابیں لکھی ہیں۔ 1286ھ سے 1340ھ تک لاکھوں فتوے لکھے، لیکن افسوس! کہ سب کو نَقل نہ کیا جاسکا، جو نَقل کرلیے گئے تھے ان کا نام ” العطایا النبّویۃ فی الفتاوی الرضویۃ ”رکھا گیا ۔ فتاویٰ رضویہ (جدید) کی 30 جلدیں ہیں جن کے کُل صفحات: 21656 ، کل سُوالات وجوابات: 6847 اور کل رسائل: 206 ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،ج ۳۰،ص ۱۰، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)
وفات حسرت آیات:
اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی وفات سے چارماه بائیس دن پہلے خود اپنے وصال کی خبر دے کر ایک آیت مبارکہ سے سال وفات کا استخراج فرمایا تھا۔ وہ آیت مبارکہ یہ ہے:وَ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِاٰنِیَۃٍ مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ اَکۡوَابٍ کَانَتۡ قَؔوَارِیۡرَا۠ ﴿ۙ15﴾اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کوزوں کا دور ہو گا جو شیشے کے مثل ہو رہے ہوں گے۔
25 صفر 1340ھ مطابق 1921ء کو جمعہ کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق 2 بج کر 38 منٹ پر عین اذان کے وقت ادھر موذن نے حی الفلاح کہا اور ادھر آپ علیہ الرحمہ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ مزار مبارک بریلی شریف میں ہے اور روحانی فیضان آج بھی جاری وساری ہے ۔
ماخذ ومراجع:
سوانح اعلیٰ حضرت (ازعلامہ بدرالدین قادری علیہ الرحمہ ۔
حیات اعلیٰ حضرت (از ملک العلما ظفرالدین علیہ الرحمہ)
سیرت اعلیٰ حضرت( از مولانا حسنین رضا خان) ۔
’’امام احمد رضا کی جدید علوم وفنون پر دسترس (مقالہ سیدریاست علی قادری
تجلیات امام احمد رضا( از مولانا امانت رسول قادری )
(سوانح امام احمد رضا۔
فیضان اعلیٰ حضرت (از حافظ محمد ریحان رضا قادری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیاث الدین احمد عارف مصباحی نظامی
مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو، لکشمی پور، مہراج گنج یوپی