ترک سلطنت مخدوم پاک کی عظیم قربانی : شمس الزماں خان صابری

ـ تَرک سلطنـت مخدوم پاک کی عظـیم قربانی ـ

 شمس الزماں خان صابری


آج کل عبـقری اور نابـغہ کا لفظ بہت سستا ہوگیا ہے۔ ہر تیسرا چوتھا پڑھا لکھا آدمی خود کو عبقـری اور نابغہ کہـلوانے پر مصر ہےاور علامہ ہوناتو ہر ایک کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا کھیل بن گیا ہے۔ جس کی بـازار میں ذرا سی بکری ہوئی،وہ عبـقری بن جـاتـا ہے اور جس کو معمولی سی قوتِ ناطقہ ملی تو وہ نابغہ بن جاتا ہے۔ حالاں کہ سر منڈوانے سے کوئی قلندر اور یونان میں پیدا ہونے سے کوئی سکندر نہیں ہوجاتا ، آدابِ قلندری سے ہر شخص آگاہ نہیں ہوتا اور شانِ سکندری کا ہر شخص حامل نہیں ہوتا۔ اس لیے عبقری اور نابغہ صدی بھر میں معدودےچند ہی ہوتے ہیں ، مگرمیں اپنے مضمون کو جس ذات و صفات سے مزین کرنے جارہا ہوں ، وہ عبقری بھی ہیں اور نابغہ بھی۔

میرا موصـوف اپنی مذہبی صـورت کی جاذبیت، اپنے رنگ کی طلاقت، اپنی آنکھوں کی مروت، اپنے تـکلم کی موسیقیت ، اپنے تبسم کی حـلاوت، اپنے خاندان کی وجـاہت، اپنے مزاج کی شرافت اور اپنے کردار کی نجابت کے اعتبار سے ایک ایسے انسان تھے، جو کـرۂ خاکی پر صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ جو فکر ونظر کی تجلی، حسن وتدبر کا پیکر، عـزمِ محکم کی مضبوط چـٹان، حلم و بردبـاری کی بے نظیر تصویر ، ضبط و تحمل اورصبر و رضا کی جاذب نظر تنویر ، علم و فضل میں شہرۂ آفاق ، شریعت وطریقت کے بحرِ ذخار، ورع و تقویٰ کے شہ کار،میدانِ تصوف کے تاجدار، حق گوئی واعلائے کلمۃ الحق میں وحیدِ زماں ، آسمانِ ولایت وکرامت کے نیرِدرخشاں ، فلکِ تقدس وطہارت کے ماہِ تاباں ہیں ،جنھیں ساری دنیا حضرت محبوبِ یزدانی ، تارک السلطنت ، غوث العالم سیدنا شیخ اوحـدالدین اشرف جہاں گیر سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مـبارک نام سے جانتی ہے۔

آپ کو عالمِ اسلام قدوۃ الکبریٰ ، تارک السلطنت، محبوبِ یزدانی اور غوث العالم جیسے القاب سے یاد کرتا ہے۔ آپ کی پیـدائش بشارتوں کے مطابق ملکِ سمنا ن کے عالی شان اور عالی نسب گھرانے میں ’’بروایتِ لطائفِ اشرفی جلد اول ‘‘ آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں ہوئی۔ آپ جب 4 سال اور 6 ماہ کے ہوئے تو حضرت مولانا عماد الدین نے رسـمِ بسم اللہ خوانی کـرائی۔آپ نے چودہ سال کی عمر میں تمامِ علومِ معقول ومنقول سے فراغت حاصل کی ۔ اپنے والدِ محترم سید محمد ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کے اس دارِ فانی سے رحلت فرمانے کے بعد آپ 17 سال کی عمر میں ریاستِ سمنان کے وارث بنے اور تختِ حکومت پر مـتمکن ہوئے ، مگر چوں کہ آپ کا طبـعی میـلان فقر و درویشی کی جانب تھا اور تصوف وعرفان سے قلبی ارتباط تھا ، اسی ذوق کی بنا پر اور حضرت خضر علیہ السلام کی ترغیب سے آپ اپنے بھائی اعرف محمد کـو تختِ حکومت سپرد کرکے اپنے پیر ومرشد کی تلاش میں ہنـدوستان کی جانب کشاں کشاں نکل پڑے اور پـنڈوہ شریف درگاہِ شیخ میں پہنچ کر اپنے آپ کو ایسا منور کیا کہ آپ نے اپنی تصنیف وتالیف، تحریر وتحریک ، علم وحکمت اور مواعظِ حسنہ سے ہزاروں تاریک دلـوں کو روشن کیا اور آج بھی ایک زمانہ آپ کے فیضان سے مالامال ہورہا ہے۔

غوث الوقت حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے حالاتِ زندگی پر جب میں نظر ڈالتاہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی خدا کی راہ میں وقـف کردی اور اس میں آپ کی سب سے بڑی قربانی ترکِ سلطنت ہے کیوں کہ آپ نے جس وقت سمنان کے تخت کو خیر آباد کہا ، وہ آپ کی شـبابیت کا دور تھا ۔یہ عمر کا ایسا وقت ہوتا ہے ، جب ہر نوجوان کی خواہش عیـش وتنـعم کی ہوتی ہے ۔ ہر نوجوان کا دل یہی چاہـتا ہے کہ وہ لبـاسِ فاخـرہ میں نہـایت تزک واحتشـام سے سیر و تـفریح کے لیے نکلے۔ اکثر و بیشتر افراد کی اس عمر میں یہی خواہش ہوتی ہے کہ مجھے شہنشاہانہ شان وشوکت اورکوئی سیاسی عہدہ ملے ۔لیـکن ایک ایسا نوجوان جس کے پاس شاہی تخت و تاج ہو، عیش و آرام کے ہزاروں سامان مہیا ہوں ۔ وہ اگر حکـم دے تو صید وشکار کے لیے فوجی نوجوان اعلیٰ نسل کے گھوڑے لے کر تیار کھڑے ملیں ، وہ اگر پسند کرے تو مرغ و ماہی کے قابوں سے سجا دسترخوان ہر وقت اس کے سامنے لگا رہے۔

اس کے باوجود اگر کوئی شخص فقر و فاقہ اختیار کرے اور جنگل کی راہ لے تو لوگ یہی کہیں گے کہ ہو سکتا ہے ایسا شخص دنیا اور اس کی لذتوں سے ناآشنا ہو یا یہ کہیں گے کہ وہ اپنی دماغی طاقت کھو بیٹھا ہے لیکن وہ شخص جو صرف 7 سال کی عمر میں قرآن کی ساتوں قراءت کے ساتھ حفظِ قرآن کر چکا ہواور 15 سال کی عمر میں تمام علومِ متداولہ پر عبور حاصل کر چکا ہو۔ معقولات ومنقولات میں مہارتِ تامہ رکھتا ہو،دنیا کی اکثر زبانوں سے واقف ہو۔ جس کی پیدائش کی خبر اللہ کا ایک ولی دے اور جس کے ولی ہونے کی خبر رسول اللہﷺ دیں ۔ (سوانح مخدومِ سمناں )ایسا شخص اگر سلطـنت کو خیرآباد کہـے تو لوگ اسے خدا کا محبوب اور عاشقِ رسول ہی کہیں گے کیوں کہ اقتدار اتنی معمولی چیز نہیں جسے چھوڑ دیا جائے ، خـواہ کسی دیہات یا گاؤں کا اقتدار ہی کـیوں نہ ہو۔ اسی اقتدار کی خاطر لوگ انبیائے کرام کی تکذیب پر اتر آئے اور نـبیِ آخر الزماں صلی اللہ علـیہ وسـلم سے برسرِ جنگ ہوئے ۔ یہی وہ اقتدار ہے ، جس کی خاطر سگے باپ نے بیٹے کو تہہِ تیـغ کردیا ۔ اسی اقتدار کے حصـول کے لیے لوگوں کو نہ جانے کیا کیا سودے کرنے پڑےاور نہ جانے اس زمانے میں کیا کیا سودے کرنے پڑ رہے ہیں تو جاکر اقتدار حاصل ہورہا ہے ۔ اسی اقتدار کی خاطر لوگوں نے صلحائے امت کو کوڑے مارنے کا حـکم دیا اور رسـوا کیا اور بادشاہوں نے اسی اقتدار کی خاطر ہرے بھرے شہر اجاڑ دیے اور آبادیوں کو تہس نہس کردیا ۔ اسی تخت وسلطنت نے یزید کو اتنا حواس باختہ اور اندھا کردیا کہ اس نے نواسۂ رسول تک پر ہاتھ اٹھـانا گوارا کرلیا ۔ اسی اقتدار کے خاطر لوگ اس زمانے میں بھی مارا ماری کررہے ہیں ، لیکن ہزار جانیں قربـان مخدوم سید اشرف جہاں گیر سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ، جنھوں نے صـرف خدا کی رضا کے لیے اپنی عظـیم سلطنت کو چھوڑ کر فقر و فاقہ کی روش اختیار کی ، جس کے صلے میں رب تبارک وتعالیٰ نے ’’من کان لّٰلہ کان اللہ لہ ‘‘کے تحت آپ کو وہ سلطنت عطا فرمائی ، جو قیامت تک قائم رہے گی ، اسی کو محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے یوں فرمایا :

سمناں کا تخت چھوڑ کر غوث الوریٰ ہوئے
یوں سلطنت کے ترک نے سلطاں بنا دیا

آپ نے اپنی اس عظیم قربانی کے ذریعہ پوری قوم کو درس دے دیا کہ بھلائی صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا میں ہے۔ آدمی وہی کام کرے ، جس میں پروردگار اور اس کے محبوب کی خوشنودی ہو ۔ آپ نے ترکِ سلطنت کرکے رب کی رضا کی خاطر فقر وفاقہ اختیار کیا اور امتِ محمدیہ کےہر فرد کو یہ ذہن بھی دیا کہ وہی آزاد ہے، جسے نفس کی غلامی سے آزادی ملی۔ وہی صاحبِ مال ومتاع ہے ، جسے دل کی دولت نصیب ہوئی ۔ وہی عقلمـند ہے ، جس نے جان لیا کہ لالچ جان کا عذاب ہے۔ وہی طاقتـور ہے، جس نے اپنے نفس کی تسخیر کی اور اپنی انا کو ریزہ ریزہ کرکے قدموں تلے روند دیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام لوگوں کو مخدومِ پاک کچھوچھوی کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے فیـضان سے ہم تمام کو مالامال کرے ۔ آمین

Leave a Comment