سیمانچل کا پیر پرستانہ مزاج بھی ناــــ ۔۔!!
علما حق گو ہو جائیں تو سارا سسٹم سدھر جاۓ۔
پیری مریدی سسٹم کے خلاف لکھنا مطلب پیروں اور ان کے عقیدت مندوں، اندھ بھکتوں سے لڑائی مول لینا ہے۔یہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔جب کہ مجھ جیسا زندہ دماغ آدمی کا قلمی و فکری پیکار صرف اس نظام کے خلاف ہے جو اسلام کی اصل روح سے یکسر متصادم ہے۔جو دین تو نہیں مگر دین کے نام پر پروسا جارہا ہے۔جو در اصل طبیعت کی ہوسناکی کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔اہل خانقاہ اور خانقاہی مراسم کے اس طریقۂ کار کے خلاف جنگ ہے جس میں حب جاہ و منصب نے جڑ پکڑ لی ہے۔اس سسٹم سے ہمیں خدا رکھے کا بیر ہے اور رہے گا جہاں خلوص کی بجاۓ فلوس نے گھر کر لیا ہے۔کیوںکہ روحانیت یکسر غرض سے مبرا چیز کا نام ہے۔جہاں غرض اول ہے روحانیت اور فیضان نام کی کوئی بھی چیز، بس دھوکا ہے ڈھکوسلا ہے۔
ایک چھوٹا سا آدمی جس کی کوئی بنی بنائی فیلڈ نہیں۔جس کے کوئی فالوورز نہیں۔جس کے پاس وسائل و ذرائع نام کی کوئی چیز بھی نہیں۔جو ایک مولوی نما مدرسہ مسجد کا چکر کاٹنے والا آدمی ہے۔جسے لوگ کسی گھاٹ کے نہیں سمجھتے۔جس کے پاس دنیاوی ٹھاٹ باٹ بھی نہیں ہے اگر وہ اپنی حیثیت سے بڑے لوگوں سے الجھ بیٹھے تو دنیا شناس لوگ کہیں گے کہ یہ بڑا بے وقوف ہے۔پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر لے رہا ہے۔یہ سب سوچتے سوچتے کہیں دور نکل جاتا ہوں کہ آخر میں بھی تو اسی سسٹم کا ایک پارٹ ہوں۔مجھے بھی تو روزگار کے نام پر چند پیسے کمانا ہے۔گھر چلانے کی ذمہ داری جو ہے۔پھر ان بڑوں سے لڑائی کیسی؟ سوچتا ہوں کہ چھورو یار جو ہورہا ہے ہونے دو تم کیوں اس سوچ میں گھلے جارہے ہو۔بعض دفعہ میرے مخلص احباب نے نیک مشورے بھی دیئے کہ نوری بھائی! عوام پر اس مقدس جماعت کی پکڑ بہت سخت ہے اس لئے اس سے آنا کانی گھاٹے میں ڈال دے گی۔آپ کہیں کے نہیں رہوگے۔یہ اپنی تقدیس و تبرک کا دھونس جما کر آپ کا سماجی و معاشی مقاطعہ بھی کروا سکتی ہے۔مگر میں نکلا پھٹے حال قیس کہاں پتھر کھانے سے ڈرتا۔کیسے اصولوں سے سمجھوتا کرتا۔دل کو ڈھارس بندھانے کے لئے یہ کیا کم ہے کہ کل جب منصف مزاج مورخ لکھے گا تو یہ بھی لکھے گا کہ کوئی تو تھا جو قطرہ ہو کر بھی سمندر کی بے ہنگم اٹکھیلیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھا۔
ایک نقیب، جلسہ دینے والے پیر صاحب کے لئے "فاضل عرب و عجم” کا خطابی سابقہ ہمیشہ استعمال کرتا تھا۔میں نے کہا کہ میری نظر میں یہ خطاب صرف فاضل بریلوی کو جچتا ہے۔پھر کیا ہوا پیر صاحب تک یہ بات پہنچی انہوں نے مریدوں کے جلسوں میں میرے داخلہ پر پابندی لگوا دی۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس پیر صاحب کے ذریعے میں سال میں دسوں جلسے کرتا تھا۔میرے حق گو مزاج سے رہا نہ گیا آخر وہ بات کہ دی جو خوشامد پسند مزاج یار کو گراں گزرتی ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ "جی حضوری” کے رسیا لوگ "نقد بجا” بھی برداشت نہیں کر پائیں گے۔
میری کل کی تحریر (سیمانچل کا پیر پرستانہ مزاج بھی نا)نے کافی لوگوں کو نئے اینگل سے سوچنے کی ہمت دی ہے۔ زاویۂ فکر بدلنے پر مجبور کیا ہے۔جو لوگ آنکھ ملانے کو جرم خیال کرتے تھے انہیں سر اٹھا کے مسائل پر بات کرنے کا حوصلہ بخشا ہے۔کہ اب اس مقدس سسٹم کے خلاف بھی بولا جاسکتا ہے۔یہ کوئی مرفوع القلم گروہ نہیں۔اسے بھی اپنی جواب دہی طے کرنی ہوگی۔طبقۂ اشراف بھی ربانی قانون میں جواب دہ ہے۔
کئی احباب کے فون آۓ۔خاص کر جو سیمانچل کی اس پسماندگی سے کڑھن محسوس کرتے ہیں اور سماج میں تبدیلی کے منتظر ہیں۔کل بعد عصر ایک نئے نمبر سے فون آیا۔علیک سلیک کے بعد میرا ایڈریس پوچھنے لگے۔پتا بتاتے ہوئے پوچھا آپ کون، تو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے کہنے لگے کہ میں مولانا جمال الدین پونے سے۔دوران گفتگو بتایا کہ وہ بھی ٹھاکر گنج سے ہیں۔اور اس مقدس سسٹم سے نالاں ہیں۔انہوں نے مزید ایک واقعہ بتاتے ہوئے مجھے اور غلطاں و پیچاں چھوڑ دیا۔کہا کہ نوری صاحب!اس لاک ڈاؤن کے باوجود ٹھاکر گنج کی مرکزی جامع مسجد میں ایک پیر صاحب کے مدرسہ کے لئے اور اسی احاطۂ مسجد میں چلنے والے تین کمرے پر مشتمل ۱۰-۱۲ بچے کے مدرسہ کے لئے چندے کا اعلان ہوا۔حیرت کہ پیر صاحب کے مدرسہ کے لئے ۶۵؍ ہزار کا چندہ ہوا جب کہ ان کا کوئی نمائندہ بھی نہیں تھا۔ اور اسی مسجد کیمپس کے مدرسہ کے لئے صرف تین ہزار کا چندہ جمع ہوا۔انہوں نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت! پیر لوگ چاہتے ہی نہیں کہ علاقے میں بڑا ادارہ بنے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ ان کے لاکھوں کا چندہ بند ہوجاۓ گا۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میرا علاقہ ٹھاکر گنج اتنا فیاض ہے کہ مرید ہوکر بھی پیروں کے نام پر کاشت کاری کی دسوں ایکڑ زمین وقف کر رکھی ہے۔دان دکشنا کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔مگر جب بات اپنے علاقے کی آتی ہے تو اس کی فیاضی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔یہ کتنے بڑے صدمے کی بات ہے کہ اس مسلم اکثریتی ضلع میں ایک بھی اس قابل کا ادارہ نہیں جہاں جماعت ثالثہ رابعہ کی ہی تعلیم و تدریس کا معقول انتظام ہو۔
ایسے میں اگر کسی نے چھوٹا سا مکتب نما مدرسہ چلا بھی لیا تو سارا کریڈٹ پیر صاحب کے سر باندھ دیا جاتا ہے۔سوچئے کہ سال بھر مدرسین پڑھاتے ہیں۔پھر چندے کی ذمہ داری بھی انہی کی۔بچوں کے طعام و قیام کا سوچنا بھی انہی کا کام ہے۔تعمیر و توسیع کا بار بھی انہیں ہی سمبھالنا ہے۔پھر بھاڑے پر بلاۓ گئے اناؤنسر،خطبا و شعرا بلکہ انتظامیہ بھی ہمارے ان محنت کش مدرسین کی اس قربانی کو بالاۓ طاق رکھ کر مدرسے کے عروج و ترقی کا سارا سہرا پیر صاحب کے فیضان اور ان کے قدوم میمنت کو کیوں دے جاتے ہیں؟
نام نہاد مقدس طبقہ سارا کریڈٹ اپنے نام کرکے دوسرے کی حق تلفی کا مقدس جرم نہیں کر رہے ہیں؟۔کیا یہ انصاف ہے؟یعنی کام کرے کوئی نام کماۓ کوئی۔اسی لئے میں کھلے دل و دماغ سے علما سے عرض کروں گا کہ اگر آپ کی عقیدت کو ٹھیس لگتی ہے تو مجھے سب و شتم کیجیے اور ضرور کیجئے، لیکن کیا اس نڈھال صورتحال سے نظریں بچا کر نکل لینے سے مسئلے حل ہوجائیں گے؟اے گروہ علما! علاقے کی اس پسماندگی کے ذمہ دار آپ بھی ہو۔نہیں بلکہ آپ ہی ہو! آپ جس دن حق بولنے لگے اسی دن بجلی کے چراغوں سے سجے اشرافی محلات میں تاریک ماتم ہوگا اور سماج کی ان گلیوں میں سپیدۂ سحر بیدار ہوگا جنہیں شب دیجور بھگانے کے لئے مٹی کے دیئے بھی میسر نہیں۔
اب اگر کوئی عقیدت زدہ انسان کہتا ہے کہ یہ سب میرے پیر کا فیضان ہے تو اس سے بڑی اندھ بھکتی اور کیا ہوگی۔میں پورے اعتماد کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ علاقہ ٹھاکر گنج پر پیروں کا کوئی فیضان ویضان نہیں ہے۔بنام ترقی جو کچھ بھی ہے یہ سب علاقے کے ہی باشعور علما و دانشوران کی محنت کا نتیجہ ہے۔کوئی کرے تو کرے، لیکن میں عقیدت کو سر چڑھا کر، قطعا حقیقت سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔(واضح رہے کہ مجھے بزرگوں کے فیضان سے کبھی انکار نہیں ہے)
(ان شاءاللہ سیمانچل کے حالات پر میری زیر ترتیب کتاب مزید نئے گوشوں پر بحث کرے گی)
مشتاق نوری
۱۳؍ستمبر ۲۰۲۰