سیمانچل کا پیر پرستانہ مزاج بھی نا!
جی!سیمانچل کے مذہبی طبقے کا مزاج بھی غضب ڈھاتا ہے۔یہ صرف اپنے ممدوح پیر کی سنتا ہے باقی کسی کی نہیں۔بلکہ بعض مواقع تو ایسے دیکھے گئے ہیں کہ لوگ دین و سنیت کے واجبی حکم پر بھی پیر کی راۓ کو ترجیح دیتے ہیں۔جب کہ پیر صاحب خالص پیر صاحب ہے انہیں اسلامیات پر کوئی درک نہیں ہے۔دینیات کی گہری سوجھ بوجھ بھی نہیں ہے۔فقہیات سے کوئی قریبی رابطہ بھی نہیں۔بندوں کو خدا سے جوڑنے کا ایسا کوئی کام بھی ان کے کھاتے میں درج نہیں ہے جسے قابل ذکر سمجھ کر تحسین و آفرین کہا جاۓ۔حلقۂ ارادت کو بھی گروہی عصبیت کا زنگ لگا بیٹھے ہیں۔ان سب کے باوجود حلقہ بگوشاں اپنے ممدوح کے علاوہ دوسرے کو لائق اعتنا تو کیا بلکہ اسلام و سنیت کے اندر ماننے سے بھی نالاں لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیمانچل پیر پرستی کو لے کر کافی مشہور ہے بلکہ اہل حق ناقدوں کی نظر میں کافی بدنام ہے۔
ایک سال قبل ایک مخلص کی دعوت پر انڈیا نیپال سرحد کو جوڑنی والی ندی "میچھی” کے بے رحم ساحل پر آباد ایک گاؤں کے جلسہ میں شرکت کا موقع ملا۔ہم دو چار علما و خطبا بوقت مغرب ہی پہنچ گئے۔بائک ریت پر کھینچ کر لگ بھگ ایک کیلو میٹر ندی عبور کرنا کتنا مشکل ہے یہ وہی لوگ زیادہ جانتے ہیں جو ساحلی علاقوں میں بود و باش رکھتے ہیں۔کافی دیر چاۓ پانی کے لئے جب نہ پوچھا گیا تو ہمارے مخلص داعی نے گھر والے سے کہا کہ علما و شعرا آگئے ہیں ناشتہ واشتہ لے کر آیئے۔تو کہنے لگا کہ مولی صاحب!( ہماری سورجاپوری زبان میں عالم خواہ کسی پایے کا ہو انہیں مُولِی صاحب ہی کہتے ہیں۔ڈر ہے کہ اگر نام بگاڑنے،اور لسانی تسہیل کاری کا یہ عمل اسی رفتار سے چلتا رہا تو عنقریب میم مجہول کو معروف کرکے بے چارے "مولوی صاحب” کو کھیت کی "مولی صاحب” کر دیا جاۓ گا)جب تک پیر صاحب نہیں آئیں گے کچھ نہیں ہوگا۔اور حیرت یہ ہوئی کہ پیر صاحب رات کے دس بجے آۓ۔تب تک کے لئے فاقے پر بٹھا دیا گیا۔لوگ پیر صاحب سے پہلے ناشتہ کرانا بھی عقیدت کے خلاف سمجھتے ہیں۔
میں سمرقندیہ دربھنگہ کا طالب علم تھا ایک دن اپنے شہر ٹھاکر گنج میں جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔مگر دل کو کافی تکلیف ہوئی کہ اتنی بڑی مسجد کے امام صاحب کی قرائت پوری کی پوری مجہول تھی۔یہاں تک کہ بعض الفاظ و حرکات بھی چبا گئے تھے۔یہی بات میں نے اپنے گاؤں میں کہی تو مریدوں کا ایک طبقہ یہ کہ کر میرے خلاف صف آرا ہوگیا کہ فلاں پیر صاحب نے اسے امام بنایا ہے تم کیسے اسے غلط کہ سکتے ہو۔مطلب یہ تھا کہ تم لاکھ پڑھ لکھ لو غلط تمہی ہوگے پیر صاحب بہر حال سہی رہیں گے۔
مجھے یاد ہے کہ آج سے ۱۵؍سال قبل ایک پیر صاحب بدھان نگر بنگال جلسے میں تشریف لاۓ تو ایک گاؤں کے چنندہ افراد (اس وفد میں مولوی ٹائپ لوگ بھی تھے) میراث کا ایک استفتا مع افتا لے کر پہنچے اور پیر صاحب کے پاؤں دباتے ہوۓ پوچھنے لگے کہ حضور کیا اس فتوے پر عمل کیا جاۓ؟ عالی مقام نے تھوڑا دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا۔
اب یہ رواج عام ہوتا جارہا ہے کہ پیر صاحب اپنی اولاد کو پروموٹ کرنے کے لئے جلسوں، محفلوں میں بھاری بھرکم القاب و اداب کے ساتھ پیش کرواتے ہیں۔یہ سارا کام نقیب جلسہ بڑے خلوص سے کرتے ہیں۔(اگر اتنے ہی خلوص سے نقباۓ اجلاس نماز پڑھ لیں تو ولی ہو جائیں)ولی عہدِ خانقاہ، وارث فلاں،نائب غوث اعظم،جاں نشین اں حضرت جیسے بڑے القاب کے درمیان نعرے مار کر عوامی جلسے میں پیش کرتے ہیں۔ایسے میں سادہ ذہن عوام کے دل و دماغ پر کیا بیتے گی۔یہی نا کہ پیر صاحب کی طرح ولی عہد بھی مقدس ہے۔اسے بھی اب متبرک سمجھنا مریدین کی دینی ذمہ داری ہے۔مجھے ایک جلسہ یاد ہے جس میں ایک مدرسہ کے غریب طالب علم نے بہت خوبصورت لہجے، سحر انگیز آواز میں نعت پڑھی مگر ایک دو کو چھوڑ کر کسی نے نوٹس نہیں کی۔کچھ ہی دیر بعد "ولی عہد خانقاہ فلانیہ” کا اعلان ہوا۔آیا اور کھردری سی آواز و بے ہنگم لہجے اور مرے ہوے مخارج کے ساتھ کلام پڑھنے لگا لوگوں نے پیسوں کی بارش کر دی۔وا حیرتا! جب میں ایسا دیکھتا ہوں تو سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ اگر بنام انعام و اکرام کچھ پیسے اس غریب طالب علم کو مل جاتے تو اس کا بہت کچھ بن جاتا۔مگر سنی عوام کو یہ کس نے بتا دیا ہے کہ جنت کا برتھ صرف پیر یا خانوادۂ پیر سے ہی کنفرم ہوسکتا ہے اسی لئے وہیں لٹاؤ۔باقی کو چھوڑو۔
کہانیاں بتانا،بات لمبی کرنا،تحریر کو بھاری کرنا مقصد نہیں صرف اس خطے کے پیر پرستانہ مزاج کا لازمی جائزہ بتانا مقصود ہے جہاں ایک سے ایک عالم ،قاری و حافظ نے اپنی پہلی صبح دیکھی۔جس خطے کے نابغۂ روزگاروں نے برصغیر ہند و پاک کے فقہی و فنی شعبے کو کمال بخشا۔جہاں وہ عبقری پیدا ہوۓ جنہیں فاضل بریلوی کے فتاوی رضویہ پر نا صرف بحث کرنے کا، بلکہ اس کا بالاستیعاب افہام و تفہیم کا حق بھی حاصل تھا۔مگر ہاۓ رے مردم خوری! کتنے آۓ چلے گئے لوگ کسی کا نام تک نہیں جانتے۔خواجہ علم و فن علامہ مظفر حسین صاحب جن کے علمی و فقہی کمال کا ایک جہاں معترف ہے، میرے علاقے سے تیس چالیس کیلو میٹر کی دوری پر پیدا ہوۓ مگر آج تک لوگ ان سے ناواقف ہیں۔فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن صاحب جو اپنی حیات کے آخری پڑاؤ پر ہیں (اللہ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ حیات دراز بخشے)انہیں بھی یہ سیمانچل نہ جانتا ہے نہ پہچانتا ہے۔ان کے علمی قد کی بات تو الگ رہی۔لوگ یہ بھی گمان رکھتے ہیں، نہیں بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ حشر میں ہمارا سارا جائز ناجائز پیر صاحب دیکھ لیں گے تو ہمیں عالموں کی کیا ضرورت ہے۔جب کہ یہ کہنے میں میں حق بجانب ہوں کہ آزادی کے بعد سے اب تک جو اس خطے کے چہرے پر کچھ نکھار آیا ہے وہ انہی علما کی جاں گسل محنت اور بے لوث خدمت کا نتیجہ ہے۔ورنہ پیروں نے سلسلہ کے نام پر صرف حلقہ بنایا ہے۔مخصوص پٹہ کا حلقہ،مخصوص رنگ کی ٹوپی حلقہ اور خاص قسم کے ملبوس کا حلقہ،خاص وظیفے کا حلقہ، خاص فاتحہ کا حلقہ۔
باباؤں کا معیار اتنا اونچا کیسے ہوا، علما کی قدر کا گراف اس قدر تنزل کا شکار کیونکر ہوا؟ تو اس کے دو بڑے اسباب ہیں۔اولا تو یہ کہ وہ علما جو علاقے میں رہتے ہیں انہوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر (ممکن ہے تھوڑی سی منفعت و مفاد کے لئے ہو)پیروں کی اتنی تعریف کردی ہے کہ پیر کے سامنے باصلاحیت و باعمل علما کے قد بھی بونے پڑ گئے ہیں یا بیکار ہی لگتے ہیں۔اس ہوشربائی ماحول سے فائدہ اٹھا کر مذہبی عیاروں نے لوگوں کو پیر پرستی کا ایسا جام جم پلا دیا ہے کہ لوگ انہیں مقدس مان کر علما کو عضو معطل سمجھ بیٹھے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ کبھی بھی پیروں نے علما کو وہ حق نہیں دیا جس کا وہ حامل و قابل ہیں۔ بر سر منبر و اسٹیج مذہبی لبادے میں معصوم دکھنے والا یہ دیندار طبقہ علما کے لئے دو چار لفظ بولنے سے بھی کتراتا ہے۔یہی سبب ہے کہ علما کی ان دیکھی سب سے زیادہ اسی خطہ میں ہوتی ہے۔یعنی بنا جرم کے علما کی عزت و احترام کو پیر پرستی و طبیعت پسندی کی ہوسناک سولی پر چڑھا دیا گیا ہے۔علما کی عزت و منزلت کی لاش بےگور و کفن جھول رہی ہے اور مریدین پیر صاحب کے اقبال و تقدس میں مناقب و قصیدے سن کر سر دھن رہے ہیں۔اے مردم خیز سیمانچل! تیری مردم خوری پر رونا آیا۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشتاق نوری
۱۲؍ستمبر ۲۰۲۰
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں
- Posts not found