کووڈ ویکسین کی حلت و حرمت کا مسئلہ
مشتاق نوری
اسلام کا فقہی شعبہ تقاضاۓ انسانیت کے عین مطابق ہے۔وہ ہر زمانے میں انسانی ضرورتوں کو اول رکھتا ہے۔اسی لیے بڑے ناپ تول کر شریعت کے بنیادی مقاصد بھی پانچ رکھے گئے ہیں حفظ دین، حفظ نفس، حفظ نسل، حفظ مال، حفظ عقل،ان پانچوں مقاصد کا حصول اور بقا جن امور پر موقوف ہو وہ ضرورت ہے۔۔ اس طرح ضرورت صرف جان بچانے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں جس چیز سے لازما واسطہ پڑے وہ ضرورت ہی ہے۔اگر مقاصد شریعت کے پانچوں نقطوں پر غور کر لیا جاۓ تو تحفظ جان و مال کے ساتھ حفاظت دین و ایمان کا سامان بھی بہت ممکن ہے۔
انگریزی کی ایک کہاوت ہے Necessity is the mother of invention اس کی تفہیمی وسعت سے مستفاد ہے کہ انسانی ضرورت ہی ہر ایجاد و دریافت کی جننی(ماں) ہے۔ضرورت پڑی جبھی تو ویکسین کی کھوج شروع کی گئی۔مطلب انسانی ضرورت کو بہت اہمیت حاصل ہے دنیا میں بھی دین میں بھی۔اور ایک خدائی مذہب کو اتنا دریا دل ہونا ہی چاہیے کہ وہ انسانی اقدار و ضرورات کے پیش نظر لچک اختیار کرے۔
فقہی قاعدہ ہے "الضرورات تبیح المحظورات” یعنی ضرورت و مجبوری کی حالت میں ممنوعات بھی مباح ہوجاتے ہیں۔آپ انگریزی کی مذکورہ کہاوت اور فقہ اسلامی کے اس قاعدے کے معنی و مفہوم پر غور کریں تو پائیں گے کہ اگرچہ معانی میں اتنی قربت نہیں ہے لیکن انطباقی مفہوم میں زیادہ بعد و مغایرت بھی نہیں ہے۔”المشقۃ تجلب التیسیر” بھی قریب قریب وہی مفہوم رکھتا ہے۔
علما و فقہا خوب جانتے ہیں کہ کب ممنوعات و محظورات جائز و مباح کے درجے میں آجاتی ہیں۔انہیں ہم کیا سمجھائیں جو دارالافتا والقضا میں بیٹھ کر ابن عابدین شامی کی تنویر الابصار، رد المحتار، در مختار ،ابن نجیم کی الاشباہ والنظائر کی ورق گردانی کو اپنا وظیفہ بناۓ ہوۓ ہیں۔عقود رسم المفتی،کفایت المفتی جیسی درجنوں اصولی و فقہی کتب پر جن کی پینی نظر ہوتی ہے۔ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جب جان پر بن آۓ تو کلمۂ کفر کی اجازت ہے۔جب گلے میں لقمہ اٹک جاۓ کوئی پانی یا سیال اشیا نہ ہوں تو اتنی شراب پینے کی اجازت ہے جس سے لقمہ نیچے اتر جاۓ۔اگر کوئی حرام جانور نمک کے کان میں گر کر مرجاۓ پھر وہ اپنی ہیئت و حالت بدل دے تو اس نمک کا استعمال جائز ہے۔شراب جو حرام قطعی ہے سرکہ ہوجانے کی صورت میں جائز ہے۔اگر کسی نمازی کی پیشانی زخم آلود ہے وہ بنا زمین پر سجدہ کیے نماز پڑھ سکتا ہے اسے سجدے نہ کرنے کی ناصرف رخصت ہے بلکہ واجبی حکم ہے۔اگر یہ ساری صورتیں بہ حالت اضطرار ہیں تو کیا کووڈ کے علاج کا معاملہ اتنا ہی یا اس سے زیادہ سنگین نہیں؟کیا اس میں اضطراری کیفیت کا فقدان ہے؟ویکسین بنانے کے لیے میڈیکل سائنس دانوں نے کتنی سرکھپائی کی ہے کیا ہمارے علما و فقہا اس سے بے خبر ہیں؟ جب کہ ہمارے پاس کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔کوئی طبی حل یا متبادل بھی نہیں۔پھر ہم کس بنیاد پر ویکسین کی حلت و حرمت پر سوال اٹھانے کے مجاز ہیں؟
مان لیں کہ کسی ویکسین میں پورک جلیٹین شامل نہیں تو ہم اسے استعمال کر لیں گے، بصورت دیگر اگر ساری vaccines میں جلیٹین شامل ہو یا ہمارا ملک حلال ویکسین بنانے والی کمپنی سے کسی طرح کا کوئی قرار و معاہدہ نہ کرے تو ایسی صورت میں ہمارے معزز فقہا کیا فتوی دیں گے؟ کیونکہ کوئی بھی کمپنی حکومت کی اجازت و لائسنس کے بغیر ہم آپ سے تو ویکسین بیچ نہیں سکتی کہ الگ سے منگوا لیں گے، کیا تب بھی یہی گومگو کی کیفیت رہے گی؟ ہم یہاں استحالہ،استہلاک،انقلاب عین جیسے فقہی کلیے جزئیے بتانے نہیں بیٹھے صرف آپ کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔
فتوی کا مطلب ہے انسان کو دشواری سے بچانا، مس گائڈ ہونے سے بچانا۔لائف سپورٹ گائڈ لائن اِشو کرنا۔بالفرض اگر کل کسی متقی و پارسا مسلمان کا نور نظر بیٹا کووڈ انفیکٹیڈ ہوگیا، والدین کے سامنے مفتی صاحب کا حرام والا فتوی بھی ہے اور پورک جلیٹین سے بنی حرام ویکسین بھی۔تب ایسی صورت میں شاید کوئی ایک فیصد ہی چانس ہے کہ والدین کہے کہ میرے بیٹے کی سانسیں اکھڑنے دو، اس کے پھیپھڑوں(Breathing lungs) کو اضافی پریشر سے پھٹنے دو، ہم یہ حرام ویکسین نہیں لگائیں گے۔تب پھر فتوے کی کتنی اہمیت رہ جاۓ گی؟ 99.999 فیصد لوگ اپنے اہل و عیال کی زندگی کی مانگ کریں گے حرام و حلال کی بحث کی نہیں۔
یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ ملک میں کووڈ کی ویکسین آئی نہیں۔اور انڈیا نے تب تک کسی سے بھی کوئی ڈیل فائنل نہیں کی تھی یہ اور بات ہے کہ کئی مختلف ممالک نے ویکسین بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ایسے میں ہمارے مذہبی طبقہ کی ویکسین کی حلت و حرمت پر زور آزمائی اور خم ٹھونکائی ناصرف قابل افسوس ہے بلکہ فقہ اسلامی کے "نظام عالمی تعاون” (World support system) کے بھی عین خلاف ہے۔اس سے پھر سے علما کی شدت پسندی و ناروادارانہ طرز معاشرت کھل کے سامنے آگئی ہے۔میڈیا جو ہم سے پہلے سے ہی کھار کھاۓ بیٹھا ہے وہ دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ یہ لوگ ریاست کو یا دنیا کو ایک بڑی جنجال سے نکالنے میں تعاون نہیں کر رہے ہیں۔
کووڈ؍۱۹ علاقائی یا ملکی وبا(epidemic) نہیں۔یہ عالمی وبا(pandemic) ہے اس کی نازک صور تحالی، حساسیت، سنگین نوعیت، خطرناک روپ ریکھا کو دنیا بھر نے محسوس کیا ہے۔اب لازما مذہبی گائڈ لائن بھی اس کی نزاکتوں اور سنگین نتائج کے عین مطابق ہی ہونا چاہیے۔
اگر آپ دو چیز بہتر طریقے سے سمجھ لیں تو ویکسین کی حلت و حرمت پر بحث کی کوئی ضرورت شاید نہیں ہوگی۔(۱) اولا، کورونا ایک ایسی وبا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں کبھی ایسی وبا نہیں آئی تھی۔ایک ایسی وبا جو پورے عالم کو ایک ساتھ لپیٹے میں لے لے جس سے ساری دنیا کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور و مقید ہوکر رہ جائیں، اس سے قبل نہ کسی نے دیکھا نہ پڑھا نہ سنا تھا۔ہر شعبۂ حیات میں اتھل پتھل سی آگئی تھی۔نظام زندگی کی تیز رفتار گاڑی جیسے کسی اسپیڈ بریکر سے ٹکرا گئی ہو۔اس وبا سے دنیا بھر میں لوگوں نے کیسے کیسے دن دیکھے، کن حالات سے گزرنا پڑا ہم نے بھی دیکھا ہے سنا ہے۔بھارتی مسلمانوں کے لیے درجنوں مسائل کھڑے ہوۓ۔اور آج تک حالات نارمل نہیں ہوۓ ہیں۔جب کہ دس مہینے ختم ہوگئے۔ریلوے اور ہوائی اڑانیں اب تک بند ہیں۔تعلیمی اداروں پر تالے پڑے ہیں۔
(۲)دوئم، یہ کہ اسلام میں مفاد انسانی کے مد نظر سختی (rigidity) کے لیے کوئی جگہ نہیں بلکہ لچکدار رویہ (flexibility) کو ہی فوقیت و اولیت حاصل ہے۔یہ دین ہمیشہ انسانی جانوں کی قدر کرتا ہے۔اسلام انسانی تاریخ کا وہ تنہا محافظ مذہب ہے جو مسئلہ بعد میں بیان کرتا ہے پہلے انسانی فائدے کی بات کرتا ہے۔جبر و اکراہ بعد میں نافذ کرتا ہے پہلے انسانی سماج کا مفاد و مطلب سامنے رکھتا ہے۔بالفاظ دیگر یہ لکھوں کہ اسلام اپنے اندر نفاذ قوانین میں حد درجہ لچک رکھتا ہے۔اس میں تنوع، توسع،اعتدال پسندی، انسانی ہمدردی، احترام انسانیت، تحفظ خلائق، فکر انفس جیسے وہ سارے مواد بدرجۂ اتم رکھے گئے ہیں جو کائنات کی تعمیر و ترقی میں کام آ سکیں۔
اگر دین میں صرف سختی ہے تو پھر اس کا دین فطرت ہونا عبث ہو جاۓ گا۔کیوںکہ فطرت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ہر زمانے میں انسانی سماج کی ضرورتوں پر اپلائی کیا جا سکے۔خیر سے اسلامی فقہیات میں زمانے کے جدید چیلنجز کا سامنا کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بعض مفتیان عجلت پسند مسئلے کی نوعیت کو سمجھے بغیر خامۂ فتوی چلا دیتے ہیں۔
ایک زمانے میں پولیو ویکسین یا ڈراپ کے متعلق بھی اسی طرح کے حالات برپا تھے مجھے یاد ہے کہ بہار حکومت نے اخباروں میں جملہ مسالک و مکاتب کے علما و نمائندگان کے دستخط شدہ اعلان شائع کروایا تھا تاکہ مسلم سماج پولیو ڈراپ اپنے بچوں کو پلانے میں حکومت کا تعاون کرے۔حیرت بالاۓ حیرت کہ پولیو جیسی خطرناک بیماری کا حکومت مفت ٹیکہ لگاۓ اور ہمارے علما کو اعتراض ہو بڑا تعجب ہے۔ذی شعور معاملہ شناس لوگ اس سے الجھن میں پڑجاتے ہیں اس لیے کہ علما و مفتیان پہلے بھی افواہ اور شک کو بنیاد بنا کر مسئلہ بیان کر رہے تھے اور آج کووڈ ویکسین کے معاملے میں بھی وہی کر رہے ہیں۔جب کہ انہیں معلوم ہے کہ الیقین لایزال بالشک۔اور یہ جانتے ہیں
"اذا تعارض مفسدتان روعی اعظمہما ضررا بارتکاب اخفہما”جب دو مفاسد متعارض ہوں تو کم ضرر کا ارتکاب کرکے بڑے ضرر سے بچا جائےگا۔
چلتے چلتے یہ عرض کردوں کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہم جن ڈاکٹرز سے ویکسین کی صداقت کی پڑتال کروائیں گے جن سے اس کی ریئلیٹی چیک کروائیں گے وہ ہمیں صد فی صد درست ہی رپورٹ دیں گے؟اور کیا ملک میں بکنے والی سینکڑوں اشیاء خوردنی کے ساتھ ساتھ روز مرہ استعمال میں آنے والی چیزیں جن میں سور کے اجزا مکس ہیں، پھر کیوں ان کے متعلق ہم خاموش ہیں؟ فرانس سے درآمد E-code کی سینکڑوں چیزوں میں حرام اجزا مکس ہیں۔انڈین مارکٹ پر چائنا پروڈکٹس کا قبضہ ہے اور چائنا کے گوشت سب سے بڑا بازار ہے ایسے میں ہمارا اپنا کوئی لیب کیوں نہیں جہاں حرام و حلال کی جانچ ہمارے ہی لوگ کریں؟ کیا علما و فقہا کے لیے ضروری نہیں ہوجاتا کہ کسی ایسے سنگین مسئلے پر اس طرح محفل جمانے،بیان بازی کرنے سے پہلے ماہرین فقہ و افتا کے ساتھ حیاتیات،ادویات،طبعیات و کیمیا کے ماہرین و ریسر اسکالرز سے مشاورت کر لیں؟؟؟
مشتاق نوری
۴؍جنوری ۲۰۲۱
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں: