!!سیمانچل کا پیر پرستانہ مزاج بھی نا۔۔۔۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
کئی بار خانقاہی اسٹیجوں پر خطباۓ متصوفین کو کافی زور دے کر یہ کہتے سنا کہ شیخ کا ادب یہ ہے کہ اگر شیخ نے کہا کہ سامنے رکھی چیز کو پیچھے رکھ دو اور تم نے ایسا کر دیا۔پھر شیخ نے کہا ایسا کیوں کیا، تو یہ نہ کہو کہ آپ نے پیچھے رکھنے کو کہا تھا۔بلکہ یہ کہو کہ حضور مجھ سے خطا ہوگئی۔ورنہ خلاف ادب ہوگا۔بہت ممکن ہے یہ بات تصوف و سلوک کی کتب میں مل جاۓ مگر جس سچوئیشن میں، جس انداز سے بیان کی جاتی ہے وہ فہم دین سے بالکل مختلف ہے۔مذکورہ ادب نامہ بلا قید و شرط بیان کرنے کا انجام ہے کہ آج لوگ جائز سوال پوچھنے کو بھی شیخ کی توہین گردانتے ہیں۔یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ پیغمبر کی احادیث میں چھان پھٹک کرنا کہ صحیح ہے، حسن ہے، ضعیف ہے، غریب ہے، یا موضوع و مدلس ہے یہ فن کہلاتا ہے۔اس کے لئے اصحاب جرح و تعدیل کی جماعت کو خوش آمدید۔علم رجال کے شعبے کو پرتپاک خیرمقدم۔اصول حدیث و اسناد کے واضعین و مدونین کا دلی استقبال ہے مگر ہمارے شیخ سے متعلق کسی روایت و حکایت کو اگر کسی ناقد نے عقل و شرع کی کسوٹی پر چیک کرنے کا انتقادی جرم کیا تو ہماری بھنویں تن جاتی ہیں۔ہم آستین چڑھا لیتے ہیں۔شیخ پر نقد دیکھ کر سیخ پا ہوجاتے ہیں۔یہ کہتے ہوئے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں کہ یہ حق تجھے کس نے دیا۔شیخ پر نقد کرنے کی تیری اوقات نہیں۔وغیرہ وغیرہ۔
۲۰۰۶ میں بنارس فاروقیہ کا متعلم تھا۔ایک شیخ کا آنا ہوا۔نماز مغرب پڑھائی۔قرائت وہی مجہول۔بلکہ مکتب کے ابتدائی ناظرہ خواں سے بھی گئی گزری۔ ایک چھوٹے سے مولانا نے کہ دیا کہ "نماز نہیں ہوئی”۔بس اتنی سی بات پر مجنوں صفت مریدوں نے دھکے مار کر بے چارے کو مسجد سے باہر کر دیا۔وہ روتے ہوۓ چلا گیا مگر شیخ صاحب کے چہرے پر فاتحانہ مسکان بہت سے راز سربستہ کی چغلی کھا رہی تھی۔
مانا آپ شیخ و مرشد ہیں۔آپ قران کی تجوید و ترتیل کا خیال نہ رکھیں گے مگر دین کا کچھ تو بھرم باقی رہنے دیں۔آپ چاہیں تو کچھ بھی پڑھ دیں لکھ دیں۔سارا قلمدان آپ کے ہاتھ میں ہے۔آپ مقدس بھی ہیں۔آپ کی حیثیت عوامی نظر میں بوسہ گاہ کی ہے۔کون حرف اعتراض درج کرے گا؟بلا حیلہ و حجت آپ کی راۓ حتمی ہے اس پر کون نظر ثانی کا مشورہ دے سکتا ہے؟آپ پر مذہب کا کھول جو چڑھا ہوا ہے۔یہی نہیں، ہم تو آپ کے خانوادے،حاشیہ برداروں،ہم زلفوں کو بھی واجب التعظیم محترم مان کر ان کی خواہش و فرمائش پوری کرنا خود پر واجب سمجھتے ہیں۔بلکہ آپ کی ڈیوڑھی کے ان دربان و چپراسی کو بھی ہم نے قابل احترام جانا جن پر آپ کے دربار عالی کی نسبت کا ٹیگ لگ گیا ہے۔ہم نے عمل دیکھا نہ کردار، بس آپ کا مظبوط بیک گراؤنڈ دیکھ کر سب کو مقدس مان لیا۔جب سے آپ نے ہماری زندگی میں انٹری ماری ہے ہم نے نماز کے مصلے کو لپیٹ کر طاق پہ رکھ دیا ہے یہ سوچ کر کہ اب اس کا کیاکام۔اب تو بس چادر چومیں گے۔گاگر اٹھائیں گے۔دو چار چِلّے کرکے وظیفے پڑھ کے عشق کا قشقہ لگا لیں گے۔
آپ کبھی ناجائز کو جائز کہ دیں تب بھی ہم اسے دین کا احتیاطی پہلو مان کر قبول کر لیتے ہیں۔آپ نے مباحات ، مستحبات، مستحسنات کو واجبی عمل قرار دیا ہم نے ادھر گلے کا ہار بنا لیا۔آپ کی ہر قسم کی باتیں ہمارے لئے سنیت کی سند ہیں۔آپ شراب نجس کو شراب طہور لکھ دیں تب بھی ہم بلا چوں و چرا مان لیں گے۔ہم پاپی عام عوام اور آپ مقدس جو ٹھہرے۔ایسے میں اگر آپ بنام نزرانہ لاکھوں کا معاوضہ لے کر ہمارے گھر "پاکئ داماں کی حکایت” سنانے آئیں اور ہم آپ کی آؤ بھگت میں کوئی کسر نہ چھوڑیں بلکہ آپ کے لئے اپنے محلے کو پکنک سپاٹ بنا دیں اور آپ اپنی مقدس آمد کو "تبلیغی دورہ” کہیں تب بھی ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔یا آپ کا کوئی فیض یافتہ ۴۰-۵۰ ہزار کی فیس لے کر ایک گھنٹے کا خطاب سنانے آۓ اور اس "آنے جانے” کو تبلیغی اسفار میں شمار کرے تب بھی ہمیں کونسا احتجاج درج کرانا ہے۔آپ فرماں روا ہیں قلمدان بھی اپنا ہے کچھ بھی کہ دیں لکھ دیں۔آپ نے کہا ہے تو حق ہی کہا ہوگا۔آپ نے فرمایا کہ جب تک شیخ کی تعظیم نہیں،تمہاری نماز بھی مکمل نہیں۔ ہم نے سمجھ لیا کہ پہلے شیخ کو خوش کرو بعد میں فرصت ملے تو نماز پڑھ لیں گے۔ویسے بھی نماز تو آپ ہی کے گھر سے سیکھی ہے ملی ہے۔آپ کے ارشادات ہی ہماری زندگی کا وظیفہ ہیں۔آپ کی ہر طرح کی خاطر مدارات ہی زندگی کی کل جمع پونجی ہے تو پھر اعتراض کیسا؟
پر ایک بات تو ہے سفید شراب کو دودھ کا نام دینے سے یا دودھ والی چاۓ کو افیم لیکوڈ کہ دینے سے اس کی حقیقت بدل نہیں جاتی۔کسی عامی شخص کے بھولے پن سے فائدہ اٹھا کر انہیں اصل جنت کے خدائی تقاضے سے ہٹا کر اپنے مفاد کا سبز باغ دکھانا آئینی جرم بھی ہے اخلاقی جرم بھی ہے اور مذہبی جرم بھی۔فتدبروا۔
مشتاق نوری
۱۴؍ستمبر ۲۰۲۰