فخر القراء حضرت مولانا قاری ابو الحسن مصباحی : مبارک حسین مصباحی

 فخر القراء حضرت مولانا قاری ابو الحسن مصباحی

سابق شیخ التجوید الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور

از: مبارک حسین مصباحی
استاذ جامعہ اشرفیہ


یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

تجوید و قرأت کا فن مدارس و جامعات کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بعض مدارس اس کی جانب بھرپور توجہ نہیں فرماتے، اس کی اہمیت کے لیے دلائل پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ خود غورفرمائیں قرآن کی تلاوت کرنا ہر مسلمان کے لیے باعثِ سعادت ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ مخارج، صفات اور اوقاف کی رعایت کرنا بھی بڑی اہمیت کا حامل اور لازم ہے۔ مبلغِ اہلِ سنت حضرت مولانا محمد عبد المبین نعمانی دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:
”یہ بھی قابلِ توجہ ہےکہ تجوید القرآن یعنی صحت مخارج کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت فرض ہی نہیں بلکہ فرضِ عین ہے کیوں کہ اگر قرآن صحیح نہیں پڑھا گیا تو نماز ہی نہیں ہوگی۔ لہٰذا جیسے نماز فرضِ عین ہے اسی طرح تجوید بھی فرضِ عین ہے۔“

اب مدارسِ اسلامیہ اور جامعات کے ذمہ داروں سے ہم عرض کرتے ہیں کہ آپ لوگ جو شعبۂ تجوید و قرأۃ پر توجہ نہیں فرماتے بلکہ ایک عام شعبہ سمجھتے ہیں۔ بعض مدارس میں یہ ایک اہم اور بنیادی شعبہ کا وجود ہی نہیں ہے۔ آپ ذرا غور فرمائیں کہ بعض علما کو مسائل بتانے کی صلاحیت اور دعوت و تبلیغ کا ملکہ تو خوب ہوتا ہے لیکن اگر کہیں نماز پڑھانے کی گزارش کردی جائے تو یا تو امامت کے مصلے پر جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور بعض ہو بھی جاتے ہیں تو ان کی قرأت سن کے بعض باشعور مقتدی بھی حیرت و افسوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ عام لوگوں پر بھی صحیح قرأت کرنا فرضِ عین ہے جب کہ ہم لوگوں نے تو باضابطہ علومِ دینیہ کی تحصیل کی ہے اگر ہم ہی قرآن عظیم کی صحیح خواندگی نہیں کر پائیں تو کس قدر سر پیٹ لینے کا مقام ہے۔ اگر کہیں بحث چھڑ جاتی ہے تو ان کٹ حجتی کرنے والوں کو کون خاموش کرسکتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو ہماری اس تحریر سے کچھ اذیت ہو مگر یہ ایک سچائی ہے جسے دنیا کا ہر سچا مسلمان تسلیم کرتا ہے۔

امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:

اتنی تجوید(سیکھنا) کہ ہر حرف دوسرے حرف سے صحیح ممتاز ہو فرضِ عین ہے بغیر اس کے نماز قطعاً باطل۔عوام بےچاروں کو (تو)جانے دیجئے خواص کہلانے والوں کو دیکھیے کتنے اس فرض پر عامل ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سُنا ،کن کو؟ علما کو ،مفتیوں کو ،مدرسوں کو ،مصنفوں کو ،قُلۡ ہُوَ اللہُ اَحَدۡ میں اَحَدۡ کو اَہَدۡ پڑھتے ہوئے،اور سورۂ منافقون میں یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ کی یَعۡسَبُوۡنَ پڑھتے ہیں، ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاَحۡذَرۡہُمۡ کی جگہ فَاعۡذَرۡ، پڑھتے ہیں وَہُوَ الۡعَزِیۡز کی جگہ ہُوَ الۡعَزِیۡذ پڑھتے ہیں بلکہ ایک صاحب کو الحمد شریف میں صِرَاطَ الَّذِیۡنَ کی جگہ صِرَاطَ الظِّیۡنَ پڑھتے سنا ۔ کس کس کی شکایت کیجئے؟یہ حال اکابر کا ہے پھر عوام بےچاروں کی کیا گنتی ؟اب کیا شریعت ان کی بے پروائیوں کے سبب اپنے احکام منسوخ فرمادے گی؟نہیں نہیں ۔اِنَّ الۡحُکۡمَ اِلَّا لِلہِ۔ (ترجمہ کنز الایمان) حکم نہیں مگر اللہ کا۔ “(فتاویٰ رضویہ ۳/۲۵۳بتصرف)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتُ“ (آلِ عمران، آیت:۱۵۸)فخر القرا حضرت مولانا قاری ابو الحسن مصباحی ۱۴؍ رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق ۸؍ مئی ۲۰۲۰ء احمد آباد گجرات میں وصال پرملال فرما گئے، اس اندوہناک خبر سے جہانِ سنیت میں غم کی لہر پیدا ہوئی، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے طفیل آپ کی خوب خوب مغفرت فرمائے۔آمین۔
اِنَّ لِلہِ مأ اَخَذَ وَلَہٗ مَا اُعۡطَیٰ وَکُلُّ شَیْیٔ عِنْدَہٗ بِأَجَلٍ مُسَمًّی…… فَلۡتَصْبِرْ وَلِتَحْتَسِب.
فروغِ شمع تو باقی رہے گا صبحِ محشر تک
مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے

ولادت اور تعلیم و تربیت :
قصبہ بڑہل گنج .ضلع گورکھپور میں یکم جنوری 1954ء میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی، خاندان مذہبی اور باعزت ہے، ابتدائی تعلیم و تربیت مقامی مکتب میں ہوئی، 1963ء میں آپ کا داخلہ دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم، مبارکپور، ضلع اعظم گڑھ میں ہوا۔ یہاں آپ نے بڑی محنت سے تعلیم حاصل کرنا شروع فرمائی،آپ کے اساتذہ میں حسب ذیل شخصیات ہیں:
(1)- جلالۃ العلم ابو الفیض حضور حافظِ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادی علیہ الرحمہ[م: 1397ھ/ 1976ء]
(2)- مرتب فتاویٰ رضویہ حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ [م: 1391ھ/ 1971ء]
(3)- بحر العلوم حضرت مفتی عبد المنان اعظمی ،[م: 2012ء] سابق پرنسپل جامعہ اشرفیہ مبارکپور۔
(4)- قاضیِ شریعت حضرت علامہ محمد شفیع احمد اعظمی [: 7جمادی الآخرہ ِ1411ھ 25/دسمبر 1990: ] سابق استاذ و ناظم اعلیٰ جامعہ اشرفیہ مبارکپور۔
(5)- حضرت علامہ ظفر ادیبی مبارکپوری ،سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارکپور۔

(6)- حضرت علامہ مولانا اسرار احمد مصباحی دامت برکاتہم العالیہ ،سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارکپور۔
(7)- استاذ القرا حضرت قاری عبد الحکیم عزیزی ، صدر شعبۂ تجوید و قراءت ، جامعہ اشرفیہ۔

حضرت مولانا قاری ابو الحسن مصباحی نے درسِ نظامی کے دوران استاذ القرا حضرت قاری عبد الحکیم عزیزی گونڈوی (بلرامپوری) کی درس گاہ میں قرأت حفص کا کورس مکمل کیا، ماشاء اللہ تعالیٰ ہمارے بزرگ حضرت قاری عبد الحکیم عزیزی سے ہماری متعدد ملاقاتیں ہیں ۔آپ فطری طور پر نیک اور بلند اخلاق تھے، اپنے مرشدِ گرامی حضور حافظِ ملت نور اللہ مرقدہٗ کے زبردست شیدائی تھے، مرشدِ گرامی نے آپ کو چند اوراد و وظائف کی خصوصی اجازتیں بھی عطا فرمائیں تھیں۔ اب وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خوب مغفرت فرمائے اور رحمت و غفران کی بارشوں سے مسلسل شاد کام رکھے۔ آمین۔

حضرت قاری ابو الحسن مصباحی کی فراغت جامعہ اشرفیہ مبارکپور سے 1972ء میں ہوئی، حضور حافظِ ملت اور دیگر اساتذۂ کرام آپ سے بھر پور محبت فرماتے تھے۔1973ء میں 9 ماہ تک آپ نے قصبہ رتسڑ ضلع بلیا میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دئیے، اس دوران بھی اپنے استاذِ گرامی حضور حافظِ ملت نور اللہ مرقدہ اور دیگر اساتذۂ کرام سے عقیدت مندانہ رابطے برقرار رکھے، حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ نے حضرت مولانا قاری ابو الحسن کو مشورہ دیا کہ ہوسکے تو آپ قرأتِ سبعہ اور عشرہ کی تکمیل کے لیے لکھنؤ چلے جائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کے لیے وظیفہ جاری کر دیا جائےگا، یہ تو سب جانتے ہیں کہ لکھنؤ تہذیب و تمدن میں ہر دور میں مشہور رہا ہے۔ اس شہر کی شہرت تجوید و قرأت کے لیےبھی کافی بلندیوں پر تھی اور بفضلہٖ تعالیٰ آج تک ہے۔ فاضلِ اشرفیہ ہونا ان دنوں بھی اہمیت کا حامل تھا، خیر آپ اب پورے اطمینان کے ساتھ مدرسہ تجوید الفرقان لکھنؤ تشریف لے گئے، حضور حافظ ملت کا آپ کو لکھنؤ بھیجنا بھی آپ کے داخلے کے لیے معاون ثابت ہوا۔ ان دنوں وہاں تجوید وقرأت کے تاجدار قاری ومقری فخر القرا حضرت مولانا قاری ضیاء الدین مصنف ”ضیاء القرأت“ تھے، اور دوسرے اہم استاذ ان کے فرزند اور شاگرد رشید استاذ القرا حضرت مولانا قاری محب الدین الٰہ آبادی تھے، آپ نے پوری دلجمعی اور محنت کے ساتھ وہاں سبعہ و عشرہ کی تکمیل فرمائی، مدرسہ تجوید الفرقان لکھنؤ سے آپ کی فراغت ہوئی۔

یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے آپ ایک باصلاحیت فاضل اشرفیہ تھے، عربی اور فارسی زبانیں سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت حاصل تھی۔ حدیث، تفسیر، فقہ اور صرف و نحو کی کتابیں آپ نے عربی میں پڑھی تھیں، گلستاں اور بوستاں وغیرہ فارسی زبان میں تھیں،اس لیے بہت جلد آپ نے قرأت سبعہ اور قرأت عشرہ میں کمال حاصل فرمالیا، آپ کی باریک اور دلکش آواز تھی، جب آپ درسگاہ یا محفل میں قرأت فرماتے تو چھا جاتے تھے، ہر طرف سناٹا ہوجاتا تھا۔ آپ کے تجوید و قراءت کے فن کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔
*حضرت قاری ابو الحسن مصباحی اور جامعہ اشرفیہ* :
حضرت مولانا قاری ابو الحسن مصباحی نے جب قرأت سبعہ و عشرہ کی تکمیل فرمالی، بفضلہٖ تعالیٰ آپ ایک باصلاحیت فاضلِ اشرفیہ تھے، لکھنؤ سے فراغت کے بعد حضور حافظِ ملت نور اللہ مرقدہ نے اشارہ دیا اور انتظامیہ نے آپ کا تقرر کرلیا ۔
لگتا یہی ہے کہ ان دنوں سالِ اخیر میں بھی وقت ضرورت بعض طلبہ کو درسی و تدریسی یا امامت و خطابت پر لگا دیا جاتا تھا۔ یہی حال حضرت مولانا قاری ابو الحسن مصباحی کے ساتھ بھی ہوا ہوگا، یعنی آپ کو رتسڑ ضلع بلیا بھیج دیا گیا، بعد میں 1972ء میں آپ کی دستار فضیلت ہوئی ہوگی، اس کے بعد لکھنؤ بھیجا ہوگا اور اس کے بعد 29 شوال المکرم 1391ھ مطابق 24 نومبر 1973ء میں دار العلوم اشرفیہ میں آپ نے تدریس شروع کی ہوگی۔
آپ نے بڑی محنت سے درس دینا شروع فرمایا، آپ کے تلامذہ ملک اور بیرونِ ملک کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ استاذ گرامی صدر العلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہم العالیہ کی صدر المدرسینی کے دور سے شعبۂ تجوید و قراءت پرمزید خصوصی توجہ ہوئی، آپ نے درس نظامی کے ساتھ شعبۂ تجوید وقرأت میں پڑھنا بھی ضروری قرار دیا ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ بڑے بڑے علما، اکابر فضلا اور پیرانِ طریقت آپ کے شاگردوں میں ہیں۔ آپ کی باریک اور دلکش آواز اور پرکشش لہجہ تھا، ہم نے بارہا آپ کو درسگاہ میں قرأت فرماتے ہوئے سنا ہے اور ماشاء اللہ تعالیٰ حضور حافظِ ملت کے قل شریف اور دیگر مجالس میں بھی آپ کی دل آویز قرأت سماعت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔
مبلغِ اہلِ سنت حضرت مولانا محمد عبد المبین نعمانی قادری فرماتے ہیں:

”حضور حافظِ ملت نے آپ کو شعبۂ تجوید و قرأت کا استاذ بنا کر مسندِ تدریس پر بیٹھا دیا۔ پھر کیا تھا، آپ سکون و اطمینان کے ساتھ دنیا و مافیہا سے بے فکر ہوکر اپنے فرائض منصبی انجام دینے لگے اور کچھ دنوں کے بعد ایک ماہر استاذ تجوید کی حیثیت سے شہرت یافتہ بھی ہوگئے،آپ بڑے انہماک ، لگن اور دلچسپی کے ساتھ تجوید کا درس دیتے، مشق و ترتیل میں بھی آپ کو درک تھا، آواز باریک اور حسین تھی، مخارج کی ادائیگی میں بے مثال قدرت رکھتے تھے ”ض“ کا مخرج بہت مشکل ہے، بہت سے اچھے اچھے قاری اس کی ادائیگی میں عاجز و ناکام ہوجاتے ہیں لیکن قاری ابو الحسن ”ض“ کو اس کے صحیح مخرج سے بڑی خوبی کے ساتھ ادا فرماتے۔“
آپ ماشاء اللہ تعالیٰ متوسط قد و قامت، گول رُخِ زیبا اور داڑھی سے بھرا ہوا نورانی چہرہ، بلند پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں، مسکراتے لب، سفید یا کسی ہلکے رنگ کا کرتا، اس پر صدری ، بڑا رومال، مخصوص ٹوپی اور چوڑی موری کا پائجامہ چلتے تھے تو لگتا تھا کہ کوئی باوقار عالمِ ربانی ہیں، اگر کسی وقت شرفِ ملاقات حاصل ہوتا تو اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ استقبالیہ انداز سے نوازتے۔
یوں تو پورے جامعہ اشرفیہ میں آپ کے احباب تھے مگر چند سے بڑی بے تکلفی تھی، ہماری معلومات کے مطابق چند کے اسماے گرامی حسب ذیل ہیں:
(1)- استاذنا المکرم حضرت مولانا اسرار احمد مصباحی دامت برکاتہم القدسیہ سابق استاذ جامعہ اشرفیہ،
(2)-استاذِ گرامی عالی جناب ماسٹر آفتاب احمد خاں دام ظلہ العالی مبارکپوری سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور،
(3)- محب مکرم حضرت مولانا محمد محبوب عزیزی دام ظلہ العالی منیجر ماہنامہ اشرفیہ، جامعہ اشرفیہ مبارکپور،
(4)- استاذ الحفاظ حضرت حافظ و قاری جمیل احمد عزیزی دامت برکاتہم العالیہ سابق صدر شعبۂ حفظ جامعہ اشرفیہ
(5)- استاذ الحفاظ شاعرِاہلِ سنت حضرت حافظ محمد عمر ؔ مبارکپوری دامت برکاتہم العالیہ سابق استاذ جامعہ اشرفیہ۔
(6)-استاذ الحفاظ حضرت حافظ و قاری محمد نسیم دام ظلہ العالی سابق استاذ مدرسہ اشرفیہ سراج العلوم، نوادہ، مبارکپوروغیرہ۔
خوش اخلاقی اور ملنساری آپ میں خوب تھی۔ عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ فلاں مدرس نے فلاں مدرس کو یوں کہا ہے وغیرہ وغیرہ۔آپ کے تعلق سے ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کبھی کسی استاد یا طالب علم نے آپ کے تعلق سے کوئی ادنیٰ سی بھی مخالفت یا غیبت کی ہو، اسی طرح نہ آپ کے تعلق سے کبھی سنا حضرت قاری صاحب نے کسی کے بارے میں کبھی کچھ کہا ہو۔ انسان جب کسی دوسرے کے بارے میں غلط نہیں سوچتا تودوسرے لوگ بھی اس کے بارے میں غلط اور بے بنیاد تصور نہیں رکھتے۔ حضرت قاری صاحب بلا شبہ ایک نستعلیق اور شریف النفس استاد تھے، بد کلامی، چغلی یا کسی میں کسی بھی قسم کا نقص نکالنے وغیرہ کا آپ کا مزاج ہی نہیں تھا، سب سے مسکرا کر ملنا، مختصر گفتگو کرنا، گویا کہ کم کھانا، کم سونا اور کم بولنا آپ کی عادت میں شامل تھا۔ آپ انتہائی خوش گوار ماحول میں بہ حیثیت صدر شعبۂ تجوید و قرأت 2015ء میں جامعہ اشرفیہ سے ریٹائر ہوئے۔

*اخلاص و للہیت کی ایک زندہ مثال:*

چند روزقبل محب گرامی حضرت مولانا محمد محبوب عزیزی دام ظلہ العالی نے بیان فرمایا کہ حضرت قاری ابو الحسن مصباحی نے عرصہ تک دعوتِ اسلامی مبارکپور کے شبینہ مدرسہ میں درس دیا، اسی طرح اور بھی دو ایک جگہ یکے بعد دیگرے تجوید وقرأت کا درس دیا اور خاص بات یہ ہے کہ ان تمام جگہوں پر بلا معاوضہ درس دیا ۔یہ کوئی معمولی اجر و ثواب کا کام نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حبیب مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں،ابو داؤد اور بیہقی کی روایت ہے:”سَيَجِيْءُ اَقْوَامٌ يُقِيْمُوْنَہٗ کَمَا یُقَامُ القِدۡحُ یَتَعَجَّلُوۡنَہٗ فَلَا یَتَأَجَّلُوۡنَہٗ“ (مشکوٰۃ، ص:۱۹۱)بہت سے لوگ ایسےآئیں گے جو قرآن کو اس طرح درست کریں گے جیسے تیر سیدھا کیا جاتا ہے اس کا معاوضہ و اجرت دنیا کے اندر حاصل کرنے کی جلدی کریں گے وقتِ موعود آخرت کے لیے ثواب کی امید نہیں رکھیں گے۔دوسری حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:”مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ يَتَاكَّلُ بِہٖ النَّاسَ جَآءَ یَوۡمَ الْقِيَامَۃِ وَوَجۡہُہٗ عَظمٌ لَیۡسَ عَلَیۡہِ لَحۡمٌ“ جو قرآن پڑھے اور اس کا عوض لوگوں سے کھانا مانگے وہ قیامت کے دن اس طرح ہوگا کہ اس کا چہرہ ہڈی ہوکر رہ جائے گا اس پر گوشت نہ ہوگا۔

ان دونوں احادیث کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ تجوید کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا سب سے بڑی عبادت ہے ، مگر قاریوں کو چاہیے کہ وہ اپنا مقصد رضاے الٰہی جانیں اور آخرت کے اجر و ثواب پر نگاہ رکھیں، دنیاوی منفعت پر توجہ نہ دیں، جو حضرات ریا، شہرت، فخر و مباہات اور دنیاوی مفاد کے لیے تلاوت کرتے ہیں یا اسی غرض سے درس دیتے اور محفلوں میں پڑھتے ہیں وہ رضاے الٰہی اور اخروی اجر و ثواب سے محروم رہیں گے ، ہاں مگر اپنا محنتانہ لینا اور رزق حلال کے لیے حصولِ منفعت کچھ لینا بھی اجر و ثواب ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ایک بندۂ مومن کی نیت اخروی اجر عظیم ہونا چاہیے، کوئی بھی دینی کام محض دنیا کے لیے اصل مقصد سے ہٹ جانا ہے۔
حاصل یہ کہ حضرت قاری ابو الحسن مصباحی نے قرآنِ عظیم کے تجوید کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے میں میں زندگی بھر محنت اور جاں فشانی فرمائی، مبارک پور کے متعدد مقامات پر بلا اجرت بھی درس دیااللہ تعالیٰ بلا شبہ قرآن عظیم کا فیضان عطا فرمائے گا ۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

*مبارک پور میں اپنی قیام گاہ پر رہائش:*

عالی جناب ماسٹر آفتاب احمد خاں مبارکپوری قصبہ مبارکپور کی ایک شخصیت ہیں۔ آپ پہلے جامعہ ملیہ دہلی میں لکچرار تھے بعد میں حضور حافظِ ملت قدس سرہ نے جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں تدریس کے لیے مشورہ دیا ، آپ اپنے وطن مبارکپور تشریف لے آئے۔ اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شعبۂ انگریزی کے ہیڈ کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دینا شروع فرما دیں، ماشاء اللہ تعالیٰ حسنِ اخلاق اور کردار و عمل میں بہت بلند ہیں۔ ان کی درس گاہ میں ہم نے بھی انگریزی پڑھنے کا شرف حاصل کیا ہے۔ حضرت مولانا قاری ابو الحسن مصباحی علیہ الرحمہ سے ان کے گہرے تعلقات ہو گئےتھے، قاری صاحب کو اپنا مکان بنانے کے لیے زمین کی ضرورت تھی تو جناب ماسٹر صاحب سے ذکر کیا، ماسٹر صاحب کی کافی زمینیں خالی پڑی ہوئی تھیں، ایک بڑی زمین علی نگر چوراہے کے قریب ہے، آپ دونوں حضرات نے باہم گفتگو فرما کر علی نگر چوراہے کے قریب ایک قطعہ زمین حضرت قاری صاحب کے ہاتھ فروخت کر دیا، قاری صاحب نے ایک اچھا دو منزلہ مکان بنوا کر اس میں رہائش اختیار فرما لی۔
حضرت قاری صاحب بفضلہٖ تعالیٰ صاحبِ اولاد ہیں، اہلیہ محترمہ اوردو لڑکیاں ہیں، اور سات فرزند ہیں جن کے نام یہ ہیں (1) جناب ماہتاب حسن (2) جناب شبیہ الحسن (3) ڈاکٹر شاہد حسن (4) جناب فخر الحسن (5) جناب شمس الحق(6) جناب قمر الحسن (7) رئیس الحسن، سب ماشاء اللہ بڑے سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔

*احمد آباد کا سفر سفرِ آخرت:*

آپ کی اہلیہ محترمہ کی طبیعت خراب تھی، زیرِ علاج تھیں، احمد آباد میں آپ کی ہمشیرہ اور ان کی اولاد امجاد رہتی ہیں، ان سے مشورہ کیا ، انھوں نے فرمایا کہ آپ اہلیہ محترمہ کو لے کر احمد آباد تشریف لے آئیے، یہاں اچھا علاج ہو جائے گا۔ انھیں ہمشیرہ کے فرزند کے ساتھ آپ کی بڑی بیٹی بیاہی ہیں، آپ کے داماد محترم اور دختر نیک اختر بھی احمد آباد میں مقیم ہیں۔ خیر آپ 18 مارچ کو اپنی اہلیہ محترمہ اور تین بچوں کو لے کر احمد آباد تشریف لے گئے، حسبِ منشا اہلیہ کا علاج بھی ہو رہا تھا اور 27 اپریل 2020ء کو واپسی کا ٹکٹ بھی تھا، مگر افسوس اسی دوران خود آپ کی طبیعت خراب ہو گئی اور ہزار علاج اور دعا کے باوجود 14 رمضان المبارک 1441ء مطابق 8 مئی 2020ء کونمازِ مغرب کے بعد 7 بج کر 30 منٹ پر وصال پر ملال ہو گیا۔ احمد آباد کے شناسا حضرات اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں غم کی لہر دوڑ گئی، آپ کے تلامذہ ملک اور بیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں، سب نے اپنے اپنے طور پر اظہارِ غم اور ایصالِ ثواب کیا۔
ہم بھی دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہیں مولا تعالیٰ آپ کی دینی اور علمی خدمات قبول فرمائے اور مغفرت فرماتے ہوئے آپ کو جنت الفردوس میں بلند ترین مقام عطا فرمائے۔ اہلیہ محترمہ، اولاد امجاد اور اہلِ تعلق اور تمام پس ماندگان کو صبر و شکر کی ii7توفیق عطا فرمشائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ حبیبہ سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
الٰہی خوب دے دے شوق قرآں کی تلاوت کا
شرف دے گنبدِ خضرا کے سائے میں شہادت کا


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:
  • Posts not found

Leave a Comment