قائدِ اہل سنت علیہ الرحمہ کی زندگی اور دورِ حاضر : سبطین رضا محشر مصباحی 

قائدِ اہل سنت علیہ الرحمہ کی زندگی اور دورِ حاضر

رئیس القلم ملک التحریر قائدِ اہلِ سنت  شاہکار سخن عاشقِ مصطفی حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ وہ ذاتِ بابرکات ہے جن کی قلمی اور علمی فیضان سے پورا عالمِ اسلام فیضیاب ہورہاہے جن کے قلم کی سیاہی کا ایک ایک قطرہ جہاں عشقِ سول اور اصلاحِ فکرو عمل میں روشن ہے  وہی ایک متحرک سماج و افراد کی تشکیل و تکمیل میں فروزاں ہے آپ کی علمی اور دینی کارنامے احیاے دینِ متین اور اشاعتِ اسلام میں مشکبار و سرشار ہے یعنی صاف اور سادہ لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آپ کی ذات مذہبِ اسلام کی نشر و اشاعت اور ابلاغ حق میں ہمہ جہت ہمہ گیر ہے جن میں سے ایک پہلو آپ بحیثیت ایک بہترین منتظم و مصلح بھی ہیں ، بقائے اہلِ سنت ، قوم مسلم کی زبوں حالی کی بحالی اور معاشرے کی تعمیر اور افراد کی ترقی میں آپ کا انقلاب آفریں کارنامہ موجودہ دور کے مسلمانوں کی تعمیرِ نو میں مکمل لائحۂ عمل ہے جس میں ورلڈ اسلامک مشن لندن ، اسلامک مشنری کالج کا قیام ، جامعہ مدینۃ الاسلام ، سرینا پولیٹیکل کونسل ، دعوتِ اسلامی وغیرہ جیسے تحریکیں و تنظیمیں نمایاں ہے_جس کے خاص مقاصدوں میں علم دین کی اشاعت، فروغِ اہلِ سنت و جماعت،  اور سماج بیداری کی مہم کے ساتھ ساتھ افراد کی باہمی تعمیر و ترقی بھی شامل تھیں _
قائدِ اہلِ سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ مشرقی یوپی کے ضلع "بلیا” کے "سید پورہ” نامی گاؤں میں سنہ ١٩٢٥ء میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کا نام غلام رشید ہے قلمی نام المعروف بہ ارشد القادری ہیں آپ کے والدِ محترم کا نام عبد اللطیف بن عظیم اللہ ہیں ، آپ نے ابتدائی درسی کتب والدِ ماجد اور جد امجد سے پڑھیں بعدہ ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں اٹھ سال تک محنت و لگن کے ساتھ پڑھتے رہے ، آپ کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے جلالۃ العلم حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ اکثر فرمایا کرتے تھے ” پوری زندگی میں ارشد القادری کی طرح بخاری شریف کی عبارت پڑھنے والا کوئی نہیں ملا "_( تذکرۂ رئس التحریر ،ص: ٣) آپ کو شرفِ بیعت فقیہِ اعظم ہند حضرت صدر الشریعہ الحاج مولانا محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے حاصل تھا ، حضرت قائدِ اہل سنت تقریبا ٧٧ سال کی عمر میں بروز ہفتہ ١٤ صفر المظفر ١٤٢٣ ھ بمطابق ٢٩ اپریل سنہ ٢٠٠٢ء کو اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف کوچ فرما گئے_ انا للہ و انا الیہ راجعون ( تذکرۂ رئیس التحریر ،ص: ٤)اسلام کی حقانیت اور دینِ متین کے محافظ دینی مدارس اور ان کے علما ہیں حضرت قائدِ اہلِ سنت علیہ الرحمہ نے بے شمار ادارے قائم فرمائے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں : 
مدرسہ فیض العلوم جمشید پور ، مدرسہ اسلامی مرکز رانچی ، جامعہ نظام الدین اولیا دہلی ، جامعہ مدینۃ الاسلام ڈین ہاگ ہالینڈ ، اسلامک مشنری کالج بریڈ فورڈ برطانیہ وغیرہ ان کے علاوہ ملک و بیرون ملک میں تبلیغی و تنظیمی و دینی ، ثقافتی ادارے و مساجد قائم فرمائے ان میں عالمی شہرت اور قابلِ فخر ادارے ورلڈ اسلامک مشن اور دعوتِ اسلامی بھی شامل ہیں _جس کی وجہ سے آپ کو بانی مساجد  مدارسِ کثیرہ بھی کہاجاتا ہے ( تذکرۂ رئیس التحریر ، ص: ٥ ) 
 دعوتِ دین کے فروغ و استحکام میں مؤثر ترین اسباب و ذرائع میں  عصری دانش گاہ ، مساجد و مدارس ،  تالیف و تصنیف ، خطابت و تقریر ، اور دعوتی تنظیم ہیں ، لیکن موجودہ دور میں دعوتی و اصلاحی تنظیم کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں ، قائدِ اہل سنت کی زندگی ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ملت کی ترقی و تعمیر اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبودی کی خاطر ملکی ، صوبائی ، یا کم از کم ضلعی سطح پر ایک ایسی تنظیم ہو جس کے مقاصد  فروغِ اہل سنت ، علم دین کی نشر و شاعت کے ساتھ موجودہ درپیش مسائل کا حل ہو  مشکلات کے ازالہ کی تدابیر اختیار کی جاسکیں اور اسی کے ذریعہ دینِ اسلام کی خدمت و فروغ اور مسلمانوں کی از سر تعمیر نو کے لیے لائحۂ عمل  کی نئی راہیں تلاش کی جائیں _ 
اگر اقوامِ عالم پر نظر ڈالی جائیں تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ کوئی بھی جماعت یا پارٹی اسی وقت ترقی پذیر ہوتی ہے جب اس کے افراد منظم طریقے سے اپنے مذہب کے نشر و فروغ کے لیے متحرک ہوتے ہیں اور اہداف کی تکمیل کے لیے انفرادی و اجتماعی طور پر سرگرم عمل رہتے ہیں ، جیسا کہ یہود و نصاریٰ قادیانی وہابی اور فرقِ باطلہ دعوت و تبلیغ اور اپنے افکار و نظریات کی تبلیغ و ترسیل میں شب و روز مصروف ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں تنظیم کے ذریعے  منظم منصوبہ بند طریقے سے سرگرم عمل ہونا ہے ، اس سے نتیجہ یہ نکلا یہ کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کے حالات کی ترجمانی میں ہماری  ایک ایسی تنظیم ہو جس کے مقاصد مسلمانوں کی اجتماعی نظم و نسق ہوں تاکہ اس کے ذریعہ دور حاضر میں در پیش مسائل و مشکلات سے لڑنے کی اجتماعی قوت ہو ، نت نئے مسائل کے حل میں گامزن ہو جس کی دعوت قرآن مجید بھی دیتا ہے کہ "چاہیے کہ تم میں ایک جماعت ایسی ہو جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتے رہے امر بالمعروف نہی عن المنکر کرتے رہے یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں _” (سورۃ آل عمران، آیت:١٠٤ ) 
تو معلوم ہوا کہ حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی زندگی بحیثیت ایک پہلو ایک بہترین منتظم و مصلح کی ہیں اگر اس طریقۂ کار اور دعوتی نکات پر عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ حضرت قائدِ اہل سنت علیہ الرحمہ کی روح بہت خوش ہوگی اور ان کا فیض ابرِ باراں بن کر ہمارے سروں پر سایہ فگن ہوگا _
سبطین رضا محشر مصباحی 
کشن گنج بہار ریسرچ اسکالر البرکات علی گڑھ

الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:
  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔