…..آخر انصاف اپنے انجام کو پہنچا !!

…..آخر انصاف اپنے انجام کو پہنچا !!

غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی


سی بی آئی کی خصوصی کورٹ نے 30 ستمبر 2020 کو بابری مسجد انہدام کے جملہ "ملزمین” کو بری قرار دے دیا اس طرح 1949 سے شروع ہوا "عدالتی انصاف” اپنے انجام کو پہنچ گیا۔71 سال کے اس سفر میں بابری مسجد نے "انصاف” کے نئے نئے رنگ دیکھے۔1528ء میں تعمیر ہونے والی مسجد میں 1949 تک بلا ناغہ نمازیں ادا کی جاتی رہیں۔ برطانوی راج میں پہلی مرتبہ 1885 میں رگھبیر داس نامی شخص نے "سب جج” کی عدالت میں مسجد سے سو قدم کے فاصلے پر مندر کی اجازت مانگی جسے رد کردیا گیا۔ 1936 کے فرقہ وارانہ فساد میں بابری مسجد پر حملہ ہوا جس میں جزوی نقصان ہوا۔اس وقت ملک میں کانگریس کی عبوری حکومت تھی اور مرکزی اقتدار انگریزوں کے ہی پاس تھا۔ تاریخی طور پر یہ بات درست ہے کہ بابری مسجد پر تنازع انگریزوں نے ہی کھڑا کیا لیکن انہوں نے اپنے عہد میں مسجد کو نقصان نہیں ہونے دیا۔لیکن آزادی کے دو سال بعد ہی دسمبر 1949 کو رات کے اندھیرے میں مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئیں۔صبح شور مچا دیا گیا کہ بھگوان "پرکٹ” ہوئے ہیں۔
انصاف کا پہلا نمونہ اس وقت ظاہر ہوا جب ضلع انتظامیہ نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا جبکہ چار پجاریوں کے تقرر کے ساتھ ہندوؤں کو پوجا پاٹ کی اجازت دے دی گئی۔ اس طرح مسجد پر قبضے کی سرکاری کوششوں کا آغاز ہوا۔خدا جانے یہ کیسا انصاف تھا کہ صدیوں سے چلی آرہی نماز بند کردی گئی اور غیر قانونی طریقے سے رکھی گئی مورتی پر پوجا کی اجازت دے دی گئی۔

ضلع انتظامیہ کے جانب دارانہ رویے کے خلاف وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے یوپی وزیر اعلی کو خط لکھ کر مسجد کو مورتی سے پاک کرنے کا حکم جاری کیا لیکن مجسٹریٹ نے حکم ماننے سے انکار کردیا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک مجسٹریٹ وزیر اعظم کا حکم ماننے سے انکار کردے؟آخر وہ کون سا سہارا تھا جس کے بوتے مجسٹریٹ وزیر اعظم کے خلاف کھڑا تھا؟
حکم کی خلاف ورزی پر اس کے خلاف کوئی کاروائی کس لیے نہیں کی گئی؟

مسلمان انصاف کی آس میں در بدر پھرتے رہے لیکن مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ 31 جنوری 1986 میں ضلع جج ایم کے پانڈے کی عدالت میں بابری مسجد کا تالا کھولنے اور پوجا کی عام اجازت کا مطالبہ کیا گیا۔ جج صاحب کی "منصف مزاجی” کی داد دینا ہوگی کہ ایک دن کی سنوائی میں ہی انہوں نے تالا کھولنے اور پوجا کی عام اجازت دینے کا حکم جاری کردیا۔ اس حکم نامے کے پس پشت راجیو گاندھی کی منشا شامل تھی۔ تالا کھلنے کے تیسرے سال 1989 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے رام مندر کا شلانیاس (سنگ بنیاد) کرایا۔ اس سے قبل راجیو گاندھی کے کہنے پر ہی "راماین” نامی ٹی وی ڈرامہ شروع کرایا گیا جس نے عوامی ذہن کو رام مندر تعمیر کے لیے برانگیختہ کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد شدت پسندوں کا جنون بڑھتا گیا اسی جنون کا اثر تھا کہ31 اکتوبر اور 2 نومبر 1990 کو جنونی ہندوؤں کی بھیڑ نے مسجد پر حملہ کیا۔حفاظتی دستوں کی فائرنگ میں چند شرپسند ہلاک بھی ہوئے۔اسی اتفاقی حادثے نے ملائم سنگھ یادو کو مسلمانوں کا مسیحا بنا دیا اور آج تک ان کا کنبہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا رہا ہے۔

___ مسجد کے وجود پر خطرات بڑھتے جارہے تھے لیکن سیاسی پارٹیاں اور حکومتی ادارے اپنی ہی چال میں مست تھے۔ کوئی مسجد گرانے کے نام پر کامیاب تھا تو کوئی بچانے کے نام پر، ناکام صرف مسلمان تھے جن سے نہ صرف عبادت کا حق چھین لیا گیا تھا بلکہ ان کی نگاہوں کے سامنے مسجد کے مقدس منبر پر مورتی رکھ کر پوجا کی جارہی تھی۔ چالیس سال سے انصاف کی امید لگائے مسلمان اس وقت سہم گئے جب بی جے پی رہنما ایل کے اڈوانی نے "سوم ناتھ سے اجودھیا” کے لیے رتھ یاترا کا اعلان کیا۔ملکی حالات انتہائی کشیدہ اور خطرناک موڑ پر تھے لیکن حکومت اور قانونی ادارے بالکل خاموش تھے۔ رتھ یاترا جہاں سے گزری قتل وغارت گری کی آگ لگاتی گئی۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔دوسال تک قتل وخون کا بازار گرم کرنے کے بعد 1992 میں بابری مسجد پر "کار سیوا” کا اعلان کیا گیا جسے کچھ شرائط کے ساتھ سپریم کورٹ نے بھی منظوری دے دی۔ اس وقت یوپی میں بی جے پی اور مرکز میں کانگریس کی حکومت چل رہی تھی۔
‘کار سیوا’ ایک علامتی پوجا تھی جس میں "سرجو ندی” کے پانی سے مجوزہ مندر کے مقام کو دھونا شامل تھا۔ ایسے سخت ماحول میں کار سیوا کی اجازت سمجھ سے باہر تھی۔ لیکن "انصاف” مرکزی اور صوبائی حکومت کی یقین دہانیوں سے مطمئن تھا۔
‘کار سیوا’ کی اجازت ملتے ہی ملک بھر سے شدت پسندوں کے ٹولے اجودھیا کے لیے نکل پڑے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اجودھیا میں لاکھوں کار سیوکوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ حالات نہایت کشیدہ بن گئے تھے بابری مسجد بارود کے ڈھیر پر تھی،بی بی سی کے رپورٹر "رام دت ترپاٹھی” لکھتے ہیں:

"30 نومبر سے ہی اجودھیا کا ماحول گرم ہونے لگا تھا۔ کار سیوکوں نے وہاں کی مزاروں میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ ان حملہ آور کار سیوکوں کو مسجد کے پاس ہی ٹھہرایا گیا تھا۔”

4 دسمبر کو شرپسندوں نے بابری مسجد انہدام کی ریہرسل بھی کی تھی تاکہ کم وقت میں جلد سے جلد مسجد شہید کی جاسکے۔یہ ریہرسل بی جے پی کے ایک ایم پی نے کرائی تھی۔ انڈین ایکس پریس کے فوٹو گرافر "پروین جین” بھیس بدل کر اس ریہرسل میں پہنچے تھے۔ کار سیوکوں کے ساتھ کئی نیتا بھی منہ ڈھک کر مسجد توڑنے کی ریہرسل میں شامل تھے۔ لبراہن کمیشن نے بھی مسجد توڑنے کی ریہرسل کی بات اپنی رپورٹ میں شامل کی تھی۔
6 دسمبر کی صبح جب ‘کار سیوا’ شروع ہوئی تو لوگوں کے ہاتھوں میں رسّیاں، کُدال، پھاوڑے اور بیلچے موجود تھے۔ اسٹیج پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈران موجود تھے۔ اشتعال انگیز تقریریں اور نعرے بازی ہورہی تھی۔ تقریباً 11 بجے کار سیوکوں نے مسجد پر چڑھائی کردی۔دو بجے کے آس پاس پہلا گنبد شہید ہوا۔ گنبد گرتے ہی بی جے پی لیڈر اوما بھارتی مارے خوشی کے مرلی منوہر جوشی کے کندھوں پر چڑھ گئی تھی۔ ایک طرف مسجد پر حملے ہورہے تھے، دوسری جانب ایس پی فیض آباد چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔بعد میں یہی ایس پی، بی جے پی کا ایم پی بھی منتخب ہوا۔کہنے کو CRPF کی 200 کمپنیاں حفاظت کو تعینات تھیں۔مسجد شہید ہوتی رہی لیکن ساری فورس حکم کے انتظار میں بیٹھی رہی۔ شام پانچ بجے تک سارے گنبد گرا دئے گئے۔رات گئے تک سارے ملبے کو برابر کرکے ٹینٹ لگا کر مورتی نصب کی اور عارضی مندر بنا دیا گیا۔بابری مسجد کے ساتھ اجودھیا کی تقریباً 28/30 مسجدوں اور 300 سے زائد مکانوں پر حملہ کیا گیا لیکن افسران "سب کچھ کنٹرول میں ہے” کی رپورٹ کر رہے تھے۔سارے کام ہوجانے کے بعد اگلے دن CRPF نے کنٹرول سنبھالا اور کار سیوک اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔بعد میں وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی تعمیر کا بھروسہ دلایا لیکن جب بنی ہوئی مسجد ہی شہید کردی گئی تو شہید مسجد کے بننے کا یقین سوائے کانگریسی مسلمانوں کے، کسی کو نہیں تھا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ آخرکار 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے ثبوت نہ ہونے کے باوجود محض "آستھا” کی بنیاد اور اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے رام مندر کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ غنیمت یہ رہی کہ چیف جسٹس نے کچھ باتیں بہت واضح انداز میں صاف کردیں:
1- بابری مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر نہیں کی گئی تھی۔
2- 1949 میں مسلمانوں کو غیر قانونی طریقے پر نماز پڑھنے سے روکا گیا تھا۔
3-بابری مسجد کا انہدام سپریم کورٹ کی خلاف ورزی اور سخت مجرمانہ عمل تھا۔

*انصاف کے نئے نئے رنگ*
بابری مسجد کے ساتھ قانون وانصاف کی آنکھ مچولی 1949 سے شروع ہوئی۔ آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ 2019 تک جاری رہا۔ اس درمیان کانگریس/سوشلسٹ/کمیونل نظریات کی حامل پارٹیاں مرکز اور یوپی میں حکمراں رہیں۔ سبھی پارٹیوں میں ایک بات کامن تھی کہ "رام مندر بنانا ہے” بس بنانے کے طور طریقوں اور منصوبہ بندی میں فرق تھا۔اسی لیے 71 سالہ دور میں "انصاف” کے الگ الگ رنگ نظر آئے:
___ 421 سال سے جس مسجد میں نماز چلی آرہی تھی وہاں ایک مورتی رکھ دینے سے نماز بند اور پوجا شروع کرا دی گئی۔
___1949 تا 2019 مورتی رکھے جانے کو "غیر قانونی” قرار دیا جاتا رہا لیکن مورتی نہیں ہٹائی گئی۔
___مسلمان لگاتار نماز کی اجازت مانگتے رہے لیکن محروم رہے جبکہ ہندو فریق کی درخواست پر تالا کھول کر پوجا کی عام اجازت مل گئی۔
___معاملہ کورٹ میں ہونے کے باوجود نومبر 1989 میں شلانیاس (سنگ بنیاد) بھی کرایا گیا۔
___اڈوانی کی رتھ یاترا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے باوجود 1992 میں ‘کار سیوا’ کی اجازت دی گئی۔
___لاکھوں کار سیوکوں کو مسجد کے پاس ٹھہرا کر انہیں مشتعل کیا گیا لیکن حکومت وانتظامیہ تماشائی بنے رہے۔
___کار سیوکوں کے ہاتھوں کے پھاوڑے، بیلچے کُدال کسی نظر نہ آئے۔ اجودھیا کے مقابر ومساجد اور مسلم بستیوں پر حملے بھی کسی کو نظر نہ آئے۔
___6 دسمبر کو بابری مسجد کو دن کے اجالے میں شہید کیا گیا، سیکڑوں لوگ عینی شاہد تھے۔ دنیا نے دیکھا مگر "انصاف” کو ثبوت نہیں ملے۔مسجد گرنے کی خوشی میں اوما بھارتی کو مرلی منوہر جوشی کے کندھوں پر چڑھتے زمانے نے دیکھا مگر "انصاف” کی آنکھوں پر پڑی پٹی نے کچھ دیکھنے نہ دیا۔
___بابری کے قاتل آج بھی کھلے عام بابری مسجد انہدام قبول کر رہے ہیں لیکن "انصاف” کے کان ایسی آوازوں کو سننے سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔
رام مندر کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے چیف جسٹس گوگوئی نے انہدام بابری کو "مجرمانہ عمل” قرار دیا تھا اب یہ معمہ کون سلجھائے کہ جس مسجد کا انہدام مجرمانہ عمل تھا تو اس کے ملزمین کس لیے بری کیے گئے ہیں؟


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:
  • Posts not found

Leave a Comment