حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیری رحمة اللہ علیہ

حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیری رحمة اللہ علیہ

ازقلم: احمدرضا صابری
خادم جامعہ رحمانیہ نزد ارکاٹ درگاہ بیجاپور کرنا ٹک


ضلالت و گمراہی کی سیاہ بدلیوں میں بھٹکے ہوے انسانوں کونور ایمان عطا کرنے ظلم وطغیان کے سیلاب میں غرقاب انسانیت کو عدل وانصاف کے ساحل پر پہونچانے، قادر مطلق کی قدرت سے ناآشنا انسانیت کو اس کی قدرت سے روشناس کرانے، مقصد حیات و مقصد ممات کی یاد دہانی کے لئے اس روۓ زمیں پر بے شمار خاصان خدا مثل آفتاب مہتاب تشریف لاۓ اور گوں ناگوں صلاحیتوں کے ذریعے کفرو شرک کی وادیوں میں بھٹک رہے انسانوں کو عرفان الہی کا جام پلایا، صراط مستقیم پر دائمی استقلال بخشا، انہیں خاصان خدا میں کلیر شریف کو اپنے قدم میمنت لزوم سے شرف بخشنے والی ذات بادشاہ دوجہاں سلطان الاولیا حضرت مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری رضی اللہ عنہ ہیں۔

ولادت باسعادت
حضور صابر پاک رضی اللہ عنہ صحیح النسب سید ہیں آپ کے والد گرامی حضرت سید عبد الرحیم بن عبد السلام اور والدہ محترمہ ہاجرہ بنت جمال الدین عرف جمیلہ خاتون ہیں آپ کا سلسلہ نسب پدری حضرت سیدنا حسن مجتبی اور نسب مادری حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھم سے ملتا ہے آپ کی ولادت باسعادت 19 ربیع الاول 592ھ بروز جمعرات بوقت نماز تہجد ہوئی لیکن آپ کی جائے پیدائش میں مورخین کا اختلاف ہے تاہم مصنف کتاب ” السالکین ” کا کہنا ہے کہ آپ کی ولادت مبارکہ نانیہال یعنی علاقہ دیپال میں واقع قصبہ "کھوٹوال ” ضلع ملتان میں ہوئی۔

دایہ بصری بنت ہاشم کا بیان ہےکہ جس وقت آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو آپ کے جسم منور کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں ہو ئی جب میں نے غسل دینے کا ارادہ کیا تو میرے ہاتھ کانپنے لگے یہ دیکھ کر آپ کے والدہ ماجدہ نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے وضو کرلو پھر جسم کو ہاتھ لگاؤ چنانچہ میں نے وضو کر نے کے بعد غسل کرایا۔آپ کی والدہ ماجدہ کا بیان ہےکہ میں نے ایک نور دیکھا جو میرے نور نظر کی پیشانی کا بوسہ لیکر واپس ہو رہا تھا ۔

ولادت کے بعد آپ کا یہ معمول تھا کہ ایک دن دودھ پیتے اور اور اک دن روزہ رکھتے اور دو سال مکمل ہونے کے بعد آپ نے خود بخود شیر مادر پینا چھوڑ دیا اور دو یا تین دن ناغہ کر کے صرف اس قدر کھانا کھاتےجس سے زندگی کی رمق باقی رہے ۔ آپ بکثرت کلمہ طیبہ کا ورد فرماتے جب رات کو سوتے تو نیند کی حالت میں آپ کی زبان سے بے ساختہ لفظ "اللہ” جاری ہوتا اور اس وقت آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ سرخ ہو جاتا اگر اس حالت میں کو ئی شخص آپ کے جسم مبارک پر ہاتھ لگاتا تو وہ اپنے بدن میں آگ کی تپش محسوس کرتا ۔

تعلیم و تربیت
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کے زیر سایہ رہ کر شہر "ہرات” میں حاصل کی۔ چند مہینہ گزرے ہی تھے کہ والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدماجد کے وصال کے بعد والدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت پر مکمل توجہ دی تھوڑے ہی عرصے میں آپ نے قرآن مجید اور عربی فارسی کی مکمل کتابیں پڑھ لیں اور اعلی تعلیم کے لئے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ علوم ظاہری و باطنی سے آراستہ و پیراستہ ہو جائیں بابا صاحب نے سرکار مخدوم پاک کو اپنے زیر سایہ رکھ کر عربی فارسی کی مزید تعلیم دی اور تین سال کے عرصے میں حدیث تفسیر فقہ اور اصول فقہ وغیرہ تمام علوم و فنون کی تکمیل کرادی ۔

عبادت و ریاضت
آپ کے مجاہدہ کے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ آپ بارہ سال تک تقسیم لنگر کا فریضہ انجام دیتے رہے اور لنگر کا ایک دانہ بھی منھ میں نہ ڈالا کیونکہ آپ کو صراحةً کھانے کی اجازت نہ تھی کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کا جسم نحیف و ناتواں ہو گیا اور جب بھوک کی شدت برداشت سے باہر ہو جاتی تو جنگلوں میں جاکر پھول پھل کھاکر بھوک مٹاتے پھر تقسیم لنگر میں لگ جاتے ۔ یہ سلسلہ یونہی بارہ سال تک چلتا رہا جس کے سبب جسم اطہر پراستخواں ظاہر ہو گئے یہ حال دیکھ کر با با صاحب آپ سے بولے بیٹا علاؤالدین! تم صرف کھاناہی تقسیم کرتے ہو یاکچھ کھاتے بھی ہو؟ آپ نے جواب میں فرمایا بندہ کو کیا مجال کہ بغیر اجازت ایک لقمہ بھی منھ میں ڈالے اتناسنناتھا کہ بابا صاب نے آپ کو گلے سے لگایا اور فرمایا میرا علی احمد صابر ہے بس اسی روز سے آپ کا لقب صابر پر ہو گیا۔

آمد کلیر
آپ کی عمر کے 55ویں سال میں حضرت گنج شکر نے مخدوم پاک کو 15ذی الحجہ 652 ھ میں علیم اللہ ابدال کےساتھ جانب کلیر روانہ فرمایا۔ آپ یہاں تشریف لاکر   تاحیات دعوت و تبلیغ کا کام بحسن خوبی انجام دیتے رہے اورآپ سے انھیں ایام میں بہت سارے کرامات صادر ہوئیں جن کے مفصل بیان کتابوں میں موجود ہیں جیسے کلیر شریف میں زلزلہ آنا ،گم شدہ بکری کا مل جانا، کلیر میں آتش زدگی کا ہونا، جامع مسجد کا سرزمیں کلیر میں زمیں بوس ہونا، اور اپنا جنازہ خود پڑھانا وغیرہ ۔

رشدو ہدایت کایہ آفتاب و مہتاب 106 سال تک زمین پر نیر تاباں بن کر نور ایماں کی روشنی بکھیرتاہوا 13 ربیع الاول 690 ھ بروز جمعرات غروب ہوگیا۔ آپ آخری آرام گاہ سرزمین کلیر شریف ہے جو ضلع ہریدوار اتراکھنڈ (ہند)میں واقع ہے۔

ماخذ  ومراجع:
1 حقیقت گلزار صابری
مصنف علامہ حسن چشتی صابری مکتبہ جام نور

2 تذکرہ علی احمد صابر
مصنف علامہ عالم فقری مکتبہ رضوی کتاب گھر

3 سلطان الاولیا
مرتب: شہادت اللہ خاں ناشر انجامن محبان صابر


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔