ناموس رسالت کی پہرے داری ایک مسلمان کی پہلی ذمہ داری !!

ناموس رسالت کی پہرے داری ایک مسلمان کی پہلی ذمہ داری !!

ایک مسلمان کے لیے ناموس رسالت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔عزت و شان نبوت اس کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہے۔اب اگر کوئی آزادی اظہار رائے کے نام پر کسی مسلمان کے سامنے ان کے پیغمبر پر بھدے کمینٹ کسے۔خاکہ بناۓ۔توہین انگیز مواد نشر کرے۔تضحیک آمیز کارٹون شو کرے تو اسے راۓ کی آزادی ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔یہ آزادئ راۓ کا غلط استعمال کرنا ہے جو دنیا کی دوسری بڑی کمیونٹی کو اکسانے جیسا عمل ہے۔اور آپ کی یہ بہت بڑی حماقت و نادانی ہوگی کہ آپ کسی کو پروووک کرکے اس سے شانتی بناۓ رکھنے کی اپیل کریں۔ان سے امید رکھیں کہ وہ آپ کو ٹھکانے لگانے کے بجاۓ آپ کو سر پہ بٹھائیں گے۔

اگر کوئی مسلمان ایمانوئیل میکرون کو کہے کہ تیرا باپ بھڑوا تھا یا تیری ماں دھندے والی تھی تو لازما میکرون کو غصہ آنا چاہئے۔اگر نہیں آتا تو اس کا مطلب ہے رگوں میں دوڑتے لہو کی حرارت ختم ہے یا ضمیر مردہ ہوچکا ہے یا پھر اپنے باپ ماں کا وفادار نہیں ہے۔ایک جوشیلا بیٹا اپنے باپ ماں کی بےعزتی ہرگز گوارا نہیں کر سکتا۔اور دوسری بات یہ کہ کوئی گالی باز کی یہ کہ کر وکالت نہیں کر سکتا کہ بھئی اظہار راۓ کی آزادی کا حق اسے حاصل ہے اس لئے اگر اس نے تیری ماں کو گالی دی ہے تو اس نے اپنے حق کا استعمال کیا ہے جو جمہوریت کی پہچان ہے اور سیکولر اسٹیٹ کی نشان ہے۔یہ بات قطعا کوئی نہیں کہ سکتا کہ گالی باز کو راۓ کی آزادی کے آئینی دفعہ کے تحت گالی گلوچ کی آزادی دی جاۓ۔سب سے بڑی دقت ہے کہ یہی بات مغرب سمجھنا نہیں چاہتا۔

جب ایک آوارہ شخص اپنے ماں باپ کی ناقدری برداشت نہیں کر سکتا، ماں باپ کے خلاف نازیبا الفاظ سنتے ہی ایگریسیو ہوجاتا ہے تو پھر یہ یورپ و مغرب کس بنیاد پر مسلمانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے پیغمبرﷺ کی توہین و تضحیک کرتے رہیں گے اور مسلمان خاموش تماشائی بنے جھیلتے رہیں گے؟ دنیا کے ٹھیکیدار ممالک کے ذریعے رواداری اور تحمل و برداشت کا صرف ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ورنہ ان میں سے کوئی بھی روادار نہیں،کوئی متحمل مزاج نہیں۔یہ تب تک روادار ہیں جب تک ان کے موڈ کے مطابق چل رہا ہے جیسے ہی ان کے من کے خلاف ہوا سارا نقص اور نقض امن کا سارا خطرہ صرف اسلام اور اس کے پیغمبر سے لاحق ہوجاتا ہے۔

فرانس کے مصنوعات کا بڑا مارکٹ مسلم ممالک کے پاس ہے۔فرانس کی غنڈہ گردی پر نکیل کسی جا سکتی ہے اگر سارے مسلم ممالک ایمان و ملت کا مظاہرہ کر کے رسولﷺ سے اپنے اٹوٹ رشتے کی خاطر فرانس سے تجارتی و سفارتی تعلقات منقطع کر لیں۔کسی ملک کے مصنوعات کا بائکاٹ کرنا یا اس سے تجارتی و سفارتی تعلقات منقطع کرلینا مسئلہ کا حل ہے مگر یہ تب تک موثر نہیں ہوگا جب تک مسلم ممالک ایک پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گے۔

کسی بھی دشمن ملک کے مصنوعات کا بائکاٹ کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سرکاروں سے لے کر عوام تک اس کا کلیئر پیغام دے کہ ہم تیرے سامان کا بائکاٹ کرتے ہیں۔جہاں سرکاریں بائکاٹ کے موڈ میں نہیں ہیں عوام ان پر دباؤ بنائیں۔جب کہ آج ہمارا حال کچھ ایسا ہے کہ جیسے مودی بھکت چائنا کا ہینڈ سیٹ(ویوو،اوپو،شاؤمی) ہاتھ میں لے کر پوسٹ کرتے ہیں کہ چائنیز پروڈکٹس کا بائکاٹ کرو۔ٹھیک اسی طرح ہمارے کچھ مسلم ماڈرن لوگ فرنچ کٹ شیو اپنے چہرے پہ سجاۓ کہتے ہیں فرانچ پروڈکٹس کا بائکاٹ کرو۔یہ کتنا مضحکہ خیز معاملہ ہے کہ ہم رسول کے خلاف نازیبا الفاظ و ذلت آمیز خاکے سننا دیکھنا بھی نہیں چاہتے اور فرنچ اسٹائل کا نقشہ چہرے پر بناۓ فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔

علما و صوفیا نے جتنا زور لگایا کہ چہرے پہ داڑھی سجالو نور برسے گا ہمارے اپ ٹو ڈیٹ طبقہ نے اسی شدت کے ساتھ یورپ و مغرب کی اتباع میں سنت کا خون کیا ہے۔یہ فرنچ کٹ شیو ہند و پاک میں کافی مقبول رہا ہے۔آپ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ میرے یونیورسٹی کیمپس میں عربی شعبے کے ایک لیکچرار، اردو کے ایک پروفیسراور فارسی کے اکیلے صدر شعبہ بھی فرنچ کٹ شیونگ کے دلدادہ رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے جس زمانے میں میڈیا میں اور عوام میں مودی کے مہنگے ملبوسات زیر بحث تھے۔میڈیا مودی کے اسٹائلش ڈریسیز کی برانڈنگ بتاتے نہیں تھکتے تھے۔تبھی دس لاکھ کا سوٹ بھی میڈیا اور ہندو عوام کے لئے دیوی کا پرشاد بنا ہوا تھا۔پھر اس مہنگے ڈریس کی کروڑوں میں نیلامی میڈیا کے لئے ٹی آر پی بٹورنے کا سنہرا موقع بن کر آئی تھی۔انہی دنوں عید کے دن قریب تھے۔میرے لاج میٹ ایک ماسٹر تھے جو پٹنہ میں کوچنگ چلاتے تھے۔انہوں نے مجھے بچے کا کپڑا دکھاتے ہوۓ کہا کہ عید پر بیٹے کے لئے مودی ڈریس خرید لایا ہوں۔میں نے کہا یہ مودی ڈریس ہی کیوں؟ تو کہنے لگا ابھی تو اسی کا چرچا ہے۔جب کہ ہند کے مسلمان مودی کے لگاۓ گئے زخم کھا کر کراہ رہے تھے اور ہمارے درمیان بسنے والے کافی لوگ اپنے لیے اپنے بچوں کے لئے مودی ڈریس کی خریداری فرما رہے تھے۔

آج جدھر دیکھئے سوشل میڈیا خاص کر ٹویٹر پر بائکاٹ فرانس مصنوعات کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ چلاۓ جا رہے ہیں۔اس سے پہلے بھی ہم نے یورپ و مغرب کے کئی عیسائی ملکوں کے بائکاٹ کا نعرہ دیا تھا مگر وہ نعرہ صرف نعرہ ہی رہ گیا۔ڈنمارک کے خلاف بھی اسی طرح کا نعرہ چلایا گیا تھا ۔اسرائیل کے خلاف بھی چلتا رہتا ہے۔آپ یقین کریں اگر مسلم ممالک ایمانی ثبوت دیتے ہوئے فرانس کا بائکاٹ کر دے تو میکرون کی پتلون کھسک جاۓ گی۔مگر ہم ایسا کریں گے نہیں۔صرف ترکی کے چیخنے چلانے سے کیا ہوگا۔مشرق وسطی کو اس پر سوچنا چاہئے ایک نبی ایک دین ایک کتاب کے نام پر۔

مشتاق نوری
۲۷؍اکتوبر ۲۰۲۰


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:
  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

موسم گرما کے سیلاب کے بعد تقریباً 80 لاکھ پاکستانی اب بھی بے گھر ہیں: سفارت کار | موسم گرما کے سیلاب کے بعد تقریباً 80 لاکھ پاکستانی اب بھی بے گھر ہیں: سفارت کار

[ad_1] ڈیجیٹل ڈیسک، جنیوا۔ پاکستان میں گزشتہ موسم گرما کے سیلاب کے بعد اب بھی …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔