ایک کرے تو "لوجہاد”دوسرا کرے تو "گھر واپسی”، کہاں سے آتا ہے اتنا دوغلاپن!!
سبطین رضا مصباحی کشن گنج بہار
ان دنوں ایک افسانوی اصطلاح موضوعِ بحث ہے جو محض ایک پروپگنڈا ہے جس کی تشہیر بنیادی طور سے کسی خاص دھرم یا ذات کو ٹارگیٹ کرنا ہے اسے اچھال کر فرقہ وارانہ رنگ دے کر اس مذہب کے افراد کو مشکوک و مجروح کرکے معدوم کرنا ہے جس سے سماج میں ان کی حیثیت پر کیچڑ اچھا لاجائیں _
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس میں کتنی سچائی ہے! تو سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ آخر یہ سازشی تھیوری ہے کیا ، اور اس کو کس نے خیالی جامہ پہناکر قومی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور اس جھوٹی پروپگنڈا کی ترویج سے مقصد کیا ہے ، اس گڑھی ہوئی اصطلاح کو "لوجہاد” کا نام دیا گیا ہے جس کو ہندو انتہاپسندوں نے ایک سازش کے طور پر پھیلایا ہے جس سے بھارتی معاشرہ کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش ہے لوگوں کو ہندتوا پر مرکوز کرنے کا کام ہے یہ خیال سب سے پہلے2009 میں ہندوستان میں توجہ کا مرکز بنا جب کیرلا اور کرناٹک میں بڑے پیمانے پر اس طرح کے دعوے آرہے تھے بعدہ وقتا فوقتا ایک دو واقعہ اچھال کر لوجہاد نامی مذموم اصطلاح گڑھی گئی اس مروجہ اصطلاح یعنی "لوجہاد” کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لڑکے اپنے نام مخفی رکھ کر غیر مسلم لڑکیوں سے شادی رچاتے ہیں اور بعد میں جبرا اسلام کرنے کے لیے دباؤ ڈالاجاتا ہے اس افسانوی اصطلاح "لوجہاد” کو اسلام کے مقدس اصطلاح "جہاد” سے جوڑ توڑ کر پیش کرنے میں سنگھی تنظیمیں کوشاں ہے سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیمیں اور اسی کے پروردہ لوگ بھی اس جھوٹے پروپگنڈا کو خوب پھیلارہے ہیں نیز مسلم لڑکی سے شادی کرنے پر دولاکھ روپیے اور قانونی امداد کا اعلان بھی کرچکے ہے جس کو قانونی شکل دینے میں یوپی حکومت نے سبقت بھی حاصل کرلی ہے اور لوجہاد پر قانون بنانے پر آرڈینس کی منظوری بھی مل چکی ہے اور اب بی جے پی زیرِ اقتدار صوبے بھی اسی نقشِ قدم پر ہے ان باتوں کی تناظر میں یہ بات تو صاف معلوم ہوا کہ اس گڑھی ہوئی اصطلاح کے ذریعے جہاں سماجی ہم آہنگی خراب ہوئی ہے وہی قومی یکجہتی میں بھی درار آئی ہے جس سے ایک خاص مذہب کے متعلق نفرتی رجحان و تاثر عام ہوا ہے _
اگر لوجہاد کی یہی حقیقت ہے جس سے لوجہاد متعارف ہوا ہے تو جان لیں کہ مذہبِ اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات اورمسلمانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے لوجہاد اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں _اسلام کی امن پسند تعلیمات اور جبر و تشدد سے متعلق زاویہ نظر یہ ہے کہ بنیادی طورپر اسلام میں جبر و زبردستی نام کی نہ کوئی چیز ہے اور نہ اس کی گنجائش ہے اگر ایسا ہوتا تو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و سلم فتحِ مکہ کے وقت اپنے ماننے والوں یہ حکم دیتے کہ اسلام مخالف قبائل پر دباؤ ڈالا جائیں تاکہ وہ اسلام قبول کرلیں لیکن محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کبھی نہیں کیا تو جو پیغمبر حاکمِ اسلام ہوکر جبر کو پسند نہیں کرتے تو اس کی امت محکوم ہوکر جبر کیسے کرسکتی ہے واضح ہوا کہ اسلام میں لوجہاد نام کی کوئی چیز نہیں ، دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ عاقدین یعنی دولہا دلہن کے درمیان کوئی موانع نہ پائی جائیں جو نکاح کی صحت میں مانع ہو جیسے مسلم لڑکا اور اپنی بھانجی یا بھتیجی بالکل اسی طرح ایک مسلم لڑکا کسی غیر مسلم عورت سے شادی نہیں کرسکتا چوں کہ یہ بھی موانع نکاح سے ہیں ان تمام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ لوجہاد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور یہ مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈا ہے خود اسلام اس کا مخالف ہے اور یہی سے اس پورے طور سے اس بات کا بھی ثبوت فراہم ہوگیا کہ لوجہاد محض ایک بہانہ ہے اصل تو مسلمان نشانہ ہے جن کے لیے اسلام کی عالمگیر برتری اور تیزی سے پھیلنا سر درد بناہوا ہے عجیب و دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی مسلم کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اسے لوجہاد کہاجاتا ہے لیکن کوئی غیر مسلم لڑکا کسی مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اسے گھر واپسی اور قومی یکجہتی سے تعبیر کرتے ہیں سادہ لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کریں تو لوجہادی اور تم کرو تو گھر واپسی اب اکیسوی صدی کا انسان اتنا اندھ بھکت تو نہیں ہوسکتا جو ایسی عصبیت بھرے باتوں کا مانیں یوگی حکومت کا لوجہاد کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف منسوب کرنا صاف مسلم دشمنی ہے اور ریاستی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے _
سبطین رضا مصباحی کشن گنج بہار
فاضل جامعہ اشرفیہ مبارک پور
Like this:
Like Loading...
Related