خود کو انبیاء کا وارث بتانے والے علماء اپنے دائرۂ کار کی وسعت کو سمجھیں

خود کو انبیاء کا وارث بتانے والے علماء اپنے دائرۂ کار کی وسعت کو سمجھیں
تحریر: شاہد سعدی علیمی

آج کے معاشرہ میں علماء کو اسلام کا ترجمان سمجھاجاتا ہے اور وہ خود بھی اپنے آپ کو انبیا علیہم السلام کا وارث کہہ کر اپنے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے ماحول میں ان کی سرگرمیوں کا دائرہ کیا ہے اور کہاں تک پھیلا ہوا ہے؟کیا فقط درس و تدریس اور اذان و امامت کے فرائض انجام دینا ہی ان کا دائرۂ کار ہے؟ ایا مسجد و مدرسہ، اپنی قوم اور علاقے ہی ان کی سرگرمیوں کا دائرہ ہیں؟کیا مدارس کا قیام صرف اس لیے عمل میں آیا تھا کہ وہاں سے کتابیں پڑھانے والے مدرسوں، اذان و اقامت کا فریضہ انجام دینے والے مؤذنوں اور نمازوں کی امامت کا فریضہ انجام دینے والے اماموں کوفارغ کیا جائے؟
کیا یہ دین خانقاہوں، مساجد اور مدارس تک محدود ہونے کے لیے آیا ہے؟میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے ،علما کا حقیقی دائرۂ کار کافی وسیع ہے اور مرورِ زمانہ کے ساتھ وہ کافی سکڑ کر رہ گیا ہے، ورنہ ہمارے سامنے اسلاف کی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے سلطنتیں قائم کیں، عہدے حاصل کیے، بطور گورنر اپنے فرائض بھی انجام دیے، اور ساتھ ہی ساتھ فرائض و سنن کی بھی ادائیگی کی۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابو موسی اشعری، حضرت معاذ بن جبل، حضرت سلمان فارسی، عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ و تابعین کی زندگیاں مثالی نمونہ ہیں۔اگر علما انبیا کے سچے وارثین ہیں تو ان کی سرگرمیوں کا حقیقی دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس عملی دائرہ کو اللہ کے رسول نے صفا پہاڑی پر مکہ والوں کو جمع کرکے اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہوئے "ایھا الناس” کے خطاب سے واضح کر دیا تھا۔ اس خطاب کے سامعین گرچہ تھوڑے لوگ تھے لیکن اصلاً یہ خطاب کسی قوم، علاقہ یا طبقہ سے نہیں تھا بلکہ پوری نسل انسانی سے تھا۔بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ علم کی ایک جماعت دنیا کے حالات وواقعات سے بھی با خبر ہو، اس کو معلوم ہو کہ اصول سلطنت کیا ہیں؟ واقفیت و اطلاع،انتظام وتدبراور مصلحت اندیشی میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عمروبن العاص، خالد بن ولید، معاذبن جبل، ابو عبیدۃ بن الجراح رضی اللہ عنھم کے نقشِ قدم پر ہو۔لیکن بدقسمتی سے اس وقت علما کے ایک بہت بڑے طبقے کی صلاحیت فروعی مسائل میں لگ رہی ہے۔ ایسے علما کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی وہ مسائل ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے درمیان آپسی اختلافات کو جنم دیا ہے اور امت محمدیہ کے شیرازے کو بکھیر رکھا ہے۔ آپسی افتراق اور ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے کا یہ وقت بالکل متحمل نہیں ہے۔ بہت کام ہوچکا ہے ہندستان و پاکستان میں۔ کتب حدیث کی شرحیں لکھی جاچکی ہیں، مسلک حنفی، مسلک شافعی، اہل حدیث و غیرھم کو حدیث کے مطابق ثابت کیا جاچکا ہے اور ایک دوسرے کی تکفیر بھی بہت کر لی گئی ہے، اس کے لیے اب نئی بڑی کوشش کی ضرورت نہیں ہے، اب جو میدان سامنے ہے وہ چیلنج سے بھرپور، جو مسائل درپیش ہیں، ان کے لیے نئی تعلیم، ہمت و حوصلہ اور پختہ عزائم کی ضرورت ہے۔آج کے مسائل کل کے مسائل سے زیادہ پیچیدہ اور متنوع ہیں، آج کے چیلنجز ماضی کے چیلنجز سے بہت مختلف ہیں۔ ظلم و زیادتی کا دائرہ روز بروز بڑھتاجارہا ہے، مظلوموں، خاص کر اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ کھلے عام انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے۔ فرقہ وارانہ رنجش کی آگ کو بھڑکانے والے سیاسی بیانات سے بڑھایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اور کئی بار دیش دروہی کا بے بنیاد الزام بھی لگا دیا جاتا ہے۔ اسلام دشمنی کی آگ پھیلتی ہی جا رہی ہے۔ مدارس کے خلاف کھلے عام الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں۔ علماکے ظاہری حلیہ اور لباس پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے رہتے ہیں اور انہیں ملک کے امن و امان کے لیے خطرہ بتا یا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں کرونا وائرس کے معاملے میں تبلیغی جماعت اور ڈارھی کرتا والے مسلمانوں کے خلاف کس طرح جھوٹے الزامات تراشے گئے اور انہیں کرونا جہادی وغیرہ بتایا گیا وہ ہمارے سامنے ہے۔
لیکن ان تمام مسائل اور چیلنجز کا حل صرف مسجد اور مدرسہ میں بیٹھ کر نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں میدان عمل میں آنا ہوگا، اعلیٰ تعلیم اور جدید علوم سے آراستہ ہوکرا پنے حقوق کی قانونی لڑائی لڑنی ہونی ہوگی تب ہم اپنا کھویا ہوا تشخص و وقار اور سماج میں اپنا کھویا ہوا مقام و مرتبہ دوبارہ بحال کرسکتے اور اپنے سماجی، سیاسی، معاشی، اور علمی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔
وقت اس بات کا داعی ہے کہ علما اپنے آپ کو احساس کمتری اور دنیا کےتئیں اپنے ذہن و فکر کے تنگ دائرے سے نکلیں اورخاص کر قانون کی تعلیم حاصل کریں۔جو اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ شعبۂ قانون ایک ایسا میدان ہے جہاں علما ایک اہم کردار نبھا سکتے ہیں، جہاں وہ لوگوں کو اسلامی تعلیمات صحیح اور سہل انداز میں بتا سکتے ہیں، جہاں وہ اسلام کے تئیں لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے غلط تصورات کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ لوگوں کے ذہن میں اسلامی احکامات کے سلسلے میں پیدا ہونے والے اشکالات یا شبہات کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ اسلام کی جامعیت، عدل و انصاف اور مساوات جیسی غیر معمولی صفات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ ان کے قومی اور عالمی فوائد کو ابھی اجاگر کر سکتے ہیں۔

الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔


مزید پڑھیں:

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

جانئے کیرالہ بورڈ کے 12ویں کے نتائج کا اعلان کب ہوگا؟ – نیوز 18 ہندی۔

[ad_1] کیرالہ بورڈ ڈائریکٹوریٹ آف ہائر سیکنڈری ایجوکیشن (DHSE) بہت جلد 12ویں کے امتحان کے …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔