مولانا اختر مصباحی کے انتقال کا تاریخی پس منظر ان کے والد کی زبانی !

مولانا اختر مصباحی کے انتقال کا تاریخی پس منظر ان کے والد کی زبانی ـ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــجب سے ان کی طبیعت علیل ہونے کی خبر آئی تب سے دل یہی کہہ رہا تھا وہ اچھے ہوجائے نگے اسی لیے انتقال کی خبر سے یقین نہیں ہورہا تھا بہر کیف رنجیدہ دل، نمناک آنکھیں اور کانپتے انگشت کے ساتھ ان کے نمبر پر فون لگایا آپ کے والد مولانا ہدایت اللہ صاحب نے فون اٹھایا بغیر ان کے لب کشاء ہوئے مجھے یقین ہوگیا کہ ہمـارے محب، فیس بک اور ٹیوٹر کے اچھے متحرک ساتھی جواں سال عالم دین اپنے اہل خانہ کو روتا بلکتا چھوڑ گئے ـــ

آپ کے والد نے مجھ سے کہا عزیزم شمس الزماں خان صابری صاحب دوبار موت کی غشی طاری ہوئی اور افاقہ ہوا دوسری بار افاقہ کے بعد بیٹے مولانا اختر مصباحی نے خلفاء راشدین اور دگر صحابہ کرام کی عظمت و فضیلت پر آدھے گھنٹے کی تقریر کی جس سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے، مناظر حسین بدایونی کا مشہور زمانہ کلام بھی سنایا، پھر تاریخی جملے ارشاد فرمائے اور کہا یاد رکھیے آپ لوگ ” زندگی اہم نہیں ہے بلکہ زندگی کارنامے اہم ہیں” یہ جملہ کہکر آپ کے والد رونے لگے اور سن کر ہمـاری بھی آنکھیں اشک بار ہوگئیں، واقعی مولانا اختر مصباحی صاحب جہاں مصلح و مبلغ تھے وہیں کہنہ مشق مدرس اور اچھے قلم کار بھی تھے کئی کتابوں پر آپ نے کام بھی کیا اور کئی کتابوں پر کام جاری بھی تھا، آپ کے والد مولانا ہدایت اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ عزیزم شمس الزماں خان صابری صاحب ہمـارے فرزند زندگی کے اس آخـری حصے میں ہم سب کو پریشان حال دیکھ کر کہا آپ لوگ کیوں رو رہے ہیں بعد مرنے کے تو دیدار آقاء دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا یہ تو ہمـارے لیے خوشی کے لمحات ہیں پھر یہ کہکر سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا کلام ” زمین و زمان تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے” سنایا اس کلام کے بـعد ” صبح و طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑہ نور کا” یہ مکمل کلام سنایا اور اس کلام کا مقطع پڑھتے ہوئے اپنی آنکھیں ہمیشہ ہمیش کے لیے بند کرلی ـ

اے رضاء یہ احمد نوری کا فیض نور ہے
ہوگئ میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا

شمس الزماں خـان صـابری
” سنی سنٹر ناگپور”

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔