اضطرابی اور معاشی بحران کےاس دور میں ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں!
از:مولانامحمد عبدالمبین نعمانی قادری
مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے لیے کچھ اہم اصلاحی پیغامات پیش کیے جاتے ہیں۔ قومِ مسلم سے گزارش ہے کہ غور کریں، ہمت باندھیں اور ان پر عمل کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔
(۱) مسلمان خود نمازوں کی پابندی کریں اور دوسروں کو نمازی بنانے کی طرف بھی توجہ دیں، اور یہ کام پہلے اپنے گھر سے شروع کریں کیوں کہ ایمان و عقیدہ درست کرلینے کے بعد نماز سے غفلت بہت بڑا گناہ ہے۔ کارخانے دار حضرات اپنے مزدوروں کو بھی نماز کی تاکید کریں۔ بلکہ نمازی مزدوروں کو ترجیح دیں اور انہیں سہولت فراہم کریں۔ نماز سے اپنا قومی وقار بھی بحال ہوتا ہے اور فریضۂ خداوندی کی ادائیگی بھی۔ نمازی مسلمان کے اخلاق بھی بلند ہوتے ہیں۔
(۲) بہت سے سیٹھ حضرات مزدوروں کی مزدوریاں طے نہیں کرتے اور کام کرانے کے بعد من مانی مزدوری انہیں دے دیتے ہیں جو شرعاً جائز نہیں ،پہلے مزدوری طے کرلینا ضروری ہے اور اسی کے مطابق ادائیگی بھی لازم ہے۔ اور حتی الامکان مزدوری وقت پر ادا کریں۔ بہت سے کارخانے دار، پیسے ہوتے ہوئے بھی مزدوری دینے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں جب کہ حدیث میں آیا ہے کہ ‘‘ اُعْطُوا الْاجیرَ اجرہ قبل ان یجِفّ عِرقہٗ ’’(رواہ ابن ماجہ) پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدور کی مزدوری ادا کر دی جائے، (مشکوۃ ص ۲۵۸ باب الاجارہ، مجلس برکات مبارکپور) یعنی مزدوری دینے میں جلدی کی جائے، اس کے خلاف کرنا مسلمان کا شیوہ ہرگز نہیں،ایسا کرنا ظلم بھی ہے اور ظلم کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔
(۳) شراب اور جوے ناپاک ہیں اور گناہ کے کام ان سے خود بچیں اپنی اولاد کو بچائیں اور اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی ان سے دور رہنے کی تاکید کریں، نہ ماننے پر ان کا بائیکاٹ کریں ان کی تقریبات میں بھی شرکت نہ کریں۔
(۴) ضرورت پڑنے پر ہی ہوٹلوں میں جائیں، ضرورت پوری ہوتے ہی جلد تر واپس آئیں اور پھر دین یا دنیا کے کسی کام میں لگ جائیں، ہوٹلوں یا تفریحی مقامات پر وقت ضائع کرنا زندگی کو برباد کرنا ہے۔ حضور حافظِ ملّت علامہ شاہ حافظ عبدالعزیز محدث مراد آبادی علیہ الرحمۃ فرمایا کرتے: تضیع اوقات سب سے بڑی محرومی ہے۔غیر ضروری کاموں میں وقت ضائع کرنے والا کبھی سچا اور اچھا مسلمان نہیں ہوسکتا۔ حدیث شریف میں آیا ہے: مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ (ترمذی حدیث-۲۳۱۷، ابن ماجہ حدیث۳۹۷۶)
(۵) آج ہمارے گھروں کا ماحول خراب ہو چکا ہے۔ نہ مرد عورتوں کی کوئی نامناسب اور طبیعت کے خلاف بات برداشت کر رہے ہیں اور نہ عورتیں مردوں کی خلافِ مزاج کوئی بات برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ آج تو عورتیں بھی حاکم بن چکی ہیں، مرد تو حاکم ہے ہی۔ حاکم کو بھی چاہیےکہ رعایا کے حقوق کا خیال کرے۔ اس کے ساتھ نرمی کا برتاو کرے اور رعایا کو بھی چاہیے کہ حاکم کے وقار اور احترام کو پورے طور پر ملحوظِ خاطر رکھے۔ رعایا کا حاکم بن جانا یا اپنے کو حاکم تصور کر لینا خود ہی صحیح نہیں۔ اس کی حدیث میں برائی بیان کی گئی ہے کہ لَنْ یُفْلِحَ قَوْمٌ وَ لَّوْا اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنی عورتوں کو حاکم بنالیا۔ (بخاری:۴۴۲۵) یہ تو عورتوں کو حاکم بنانے کی ممانعت ہے اور اگر خود ہی عورتیں حاکم بن جائیں تو یہ اور زیادہ قبیح اور برا ہے۔ گھریلو جھگڑوں رگڑوں اور طلاق و مقدمے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ زوجین (عورت مرد) نے اپنے اپنے مقام اور مرتبے کو نظر انداز کر دیا ہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے چھوٹے سے گھر کی معمولی حکومت نہیں چلا سکتے، آئے دن اس میں رخنے پڑتے رہتے ہیں تو بھلا دوسروں سے ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم خود آپس میں انصاف اور رواداری کا سلوک نہیں کرتے تو دوسروں سے اس کی امید کیوں کرتے ہیں، ہم خود ٹھیک ہو جائیں پورا معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
(۶) حدیث گزر چکی کہ الدِّیْنُ الْنُصْحُ لِکُلِّ مُسْلِمٍ (کنز العمال) دین داری یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی خیر خواہی کی فکر اور کوشش کرے۔ یعنی ہر مسلمان دوسرے کی اصلاح کا حق رکھتا ہے بلکہ اس کی دین داری اس وقت مکمل ہوگی جب وہ دوسرے کی فکر کرے۔ آج کل یہ غیر اسلامی مقولے بڑے عام ہو چکے ہیں ‘‘اے شیخ اپنی دیکھ’’ اور ‘‘آپ کو میری فکر کیوں پڑی ہے آپ اپنا دیکھیے۔’’ اور ‘‘آپ کون ہوتے ہیں میری اصلاح کرنے والے’’اور ‘‘اپنا دامن دیکھیے میری آئے ہیں اصلاح کرنے۔’’ وغیرہ جملے بڑے طمطراق سے بولے جا رہے ہیں۔ اور اسے کمال سمجھا جاتا ہے۔
بھائی! کوئی کتنا ہی برا ہو اگر وہ میری بھلائی چاہتا ہے تو یہ ہمارے حق میں بہتر ہی ہے۔ اگر کوئی ہماری کوتاہی کو دور کرنا چاہتا ہے تو اس کا احسان مانو، اس کی کوئی کمی کوتاہی مت ڈھونڈو، ہاں بولنا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے میری اصلاح کی فکر کی، میری آنکھیں کھول دیں اس کا شکریہ۔ ان شاء اللہ میں اپنی اصلاح کی فکر اور کوشش کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اپنی فلاں فلاں غلطیاں درست کر لیں تا کہ آپ بھی گناہوں سے پاک ہو جائیں اور میں بھی۔ اصلاح حال کا یہ طریقہ صحیح اور خوب ہے۔ اور خود غرضی کی باتیں اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔
(۷) پڑوسیوں کے بڑے حقوق ہیں اسلام میں۔آج کا مسلمان انہیں بھی پامال کرتا نظر آرہا ہے۔ پڑوسیوں کے حقوق کا یہ حال ہے کہ اگر غیر مسلم پڑوسی ہو تو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم ہے۔ اسلام کے حدود میں رہ کر غیر مسلم پڑوسیوں سے بھی حسن اخلاق کا برتاو کیا جانا چاہیے۔ اس کے بڑے اچھے اثرات اور نتائج ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حسن سلوک کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس سے بڑے متعصب اور متشدد غیر مسلم بھی بسا اوقات متاثر ہو جاتے ہیں۔ اور جو معتدل مزاج ہوتے ہیں ان پر تو اچھے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پہلو بھی آج بڑی توجہ کا طالب ہے۔
(۸) مفلوک الحال بھائیوں کے لیےایک ‘‘غریب فنڈ’’قائم کریں جس کے ذریعے ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کی جائے۔ زکوٰۃ کی رقمیں بھی اس فنڈ میں شامل کی جا سکتی ہیں لیکن ان کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے، علماے کرام اور مفتیوں سے اس سلسلے میں ضرور رجوع کیا جائے جو طریقہ وہ بتائیں اس پر ہی عمل کیا جائے۔ اس فنڈ سے یہ کام کیے جا سکتے ہیں:
۱)غریب بیماروں کا علاج کرایا جائے۔
۲) بے سہارا قیدیوں کی رہائی کا انتظام کیا جائے۔
۳)غریب طلبہ کی مدد کی جائے چاہے وہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہوں یا دنیاوی لیکن نیک پارسا اور نمازی ہونا ضروری ہے۔
۴)ضرورت مند بیواؤں اور حاجت مند یتیم بچوں کی کفالت کی جائے۔
۵)جن غریب علاقوں میں مسجد کی ضرورت ہے وہاں سادی سی مسجد بنوادی جائے یا تعمیر میں حصہ لے لیا جائے، مساجدکو فضول خرچیوں سے بچانا بھی ضروری ہے، زیب و زینت اور میناروں کی ریس (مقابلہ آرائی) کوئی دینی ضرورت نہیں،یہ محض شوق کی چیزیں ہیں، اگر یہ بہ آسانی ہو تو حرج نہیں لیکن ان کاموں کے لیے جان کھپانا اور در در پھرنا بالکل مناسب نہیں۔
(۹) غیر سودی بینک قائم کیے جائیں، اس سلسلے میں بھی مفتیانِ کرام سے رہنمائی حاصل کرنی ضروری ہے تا کہ حرام کے ارتکاب سے بچا جا سکے۔
(۱۰) حکومت کے قوانین کی حتی الامکان پاسداری کی جائے، بلاوجہ قانون شکنی کر کے اپنے کو مصیبت کے حوالے کرنا عقل مندی نہیں، اس کے لیے سیاسی سوجھ بوجھ کی بھی ضرورت ہے، لیکن پارٹی کی سیاست سے بچنا بھی ضروری ہے، یوں ہی ملکی قوانین کی جانکاری بھی ہمیں ہونی چاہیے۔
(۱۱) ہنگامی صورتِ حال میں ہمیشہ ‘‘جوش پر ہوش کو غالب رکھنا’’ضروری ہے ورنہ اپنے ہی ہاتھوں اپنا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بے جا بہادری کا مظاہرہ بھی کبھی کبھی بڑا بھیانک اور نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
(۱۲) شادی بیاہ میں فضول اور غیر ضروری اخراجات سے بچنا بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ سادگی کے ساتھ شادیوں کی تقریبات انجام دیں اور جنہیں اللہ نے دولت سے نوازا ہے وہ مسلمانوں کے قومی فلاحی معاملات کے لیے فنڈ مضبوط کریں اور مسلمانوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔
(۱۳) غریب اور تنگ دست مسلمانوں کو کاروباری امداد دیں، انہیں تجارت اور امانت داری کا راستہ بتائیں، اور غریب مسلمان بھی محنت سے ہر کام انجام دیں۔
(۱۴) مسلمان تجارت اور کاروبار میں دیانت داری اور سچائی کا بھرپور لحاظ کریں، دھوکا دھڑی، خراب مال اچھا بتا کر فروخت کرنے جیسی بری خصلتوں سے پرہیز کریں، نفع کم لیں، مال زیادہ بیچیں۔کہ سُستی، فضول خرچی اور تضیعِ اوقات سے پرہیز کریں۔
(۱۵) جن غریبوں کے پاس رہنے کے مکانات نہیں ان کے تعاون کی بھی فکر کرنی چاہیے، بعض غریب افراد کثیر العیال ہو جاتے ہیں، بروقت کھانے، رہنے کا انتظام ہوتا ہے، لیکن مستقبل میں انہیں تنگی کا سامنا ہوتا ہے اور زمین و مکان کے اخراجات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ کسی غریبکے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ایسے ضرورت مند بھائیوں کی طرف بھی توجہ دینی بہت ضروری ہے۔وہ اس طرح کہ ان کی جزوی امداد کریں یا اہل ثروت حضرات انہیں مکانات تیار کر کے دیں۔
(۱۶) مسلمان صرف اچھا کھانے اور اچھا پہننے پر توجہ نہ دیں بلکہ اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں، حضور حافظِ ملّت علیہ الرحمۃ والرضوان فرمایا کرتے تھے:’’دینی، دنیاوی ہر طرح کے کام کا مدار صحت پر ہے۔’’بیمار آدمی زندہ رہ کر بھی مردہ معلوم ہوتا ہے اس کے لیے بے تحاشا کھانے سے بچنا اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔
(۱۷) موبائیل اور ٹی وی میں بے جا اور بے کار مشغولیت سے اپنے قیمتی اوقات کو بچائیں، واضح رہے کہ اس کا غلط استعمال شرعاً بھی ناجائز اور گناہ ہے اور دنیا کے لیے بھی مصیبت اور نقصان دہ۔
چھوٹے بچوں کو ہرگز موبائیل نہ دیں کہ اس کے نقصانات شمار سے باہر ہیں، خاص طور سے تعلیم اور اخلاق کا نقصان تو بالکل واضح ہے۔ دنیا کی ترقییافتہ قومیں اپنے بچوں کو موبائیل سے دور رکھتی ہیں۔ ہمیں اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہیے۔
نوٹ: کہنے کے لیے تو باتیں بہت ہیں۔ اتنی ہی گزارشات پر عمل کر لیا جائے تب بھی یہ ہماری ترقی اور کامیابی کے لیے بہت ہے۔
از : محمد عبدالمبین نعمانی قادری
بانی رکن المجمع الاسلامی ،مبارک پور اعظم گڑھ
الرضا نیٹ ورک کو دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ (۲)جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں:
[su_posts template=”templates/list-loop.php” posts_per_page=”5″ tax_term=”4″