ماں کا مقام قرآن وحدیث کی روشنی میں
*افتخاراحمدقادری
ماں ایک باشعور اور عظیم خاتون ہے- جو بچوں کی زندگی میں باد صبا کی مانند ہے- جو اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتی ہے- جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیتی ہے، اپنی خواہشات کو خاک میں ملا دیتی ہے، اپنی خوشیوں کا جنازہ نکال دیتی ہے جو خود نہیں کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے- لیکن آج معاشرے میں ایسے ایسے نوجوان پیدا ہوئے ہیں جو اپنی ماں کو گالیاں دیتے ہیں- برا بھلا کہتے ہیں- مارتے ہیں- یہاں تک کہ اس کے خود کے گھر سے بھگا دیتے ہیں- شاید انہی لوگوں کے لیے الله رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ولا تشركوا به شيئا وبالوالدين احسانا وبذى القربى واليتمى والمسكين والجار ذى القربى والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبيل وما ملكت ايمانكم ان الله لايحب من كان مختالا فخورا.اس آیتِ کریمہ میں الله رب العزت نے سب سے اہم فریضہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے پھر خویش و اقارب ہیں- دوسری جگہ ارشادِ ربانی ہے: وبالوالدين احسانا فاما يبلغن عندك الكبر احدهما او كلاهما فلا تقل لهما اف فلا تنهر هما.اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرو، انہیں بھلا برا مت کہو! یہاں تک کہ اف تک نہ کہو- انہیں مت جھڑکو بلکہ نرمی کے ساتھ پیش آؤ، ادب واحترام سے کلام کرو-
محترم قارئین! آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ آخر ایسا کیوں کر ہے؟ وہ بھی تو انسان ہے مگر اتنی تاکید کیوں دی جارہی ہے کہ تم اسے اف تک نہ کہو؟ جب یہ سوال آپ کے ذہن میں ابھرے گا تو ماں کا لطف و کرم آپ سے سوال کرے گا کہ بیٹا بھول گئے کیا؟ وہ میں ہی ہوں جس نے تمہیں اپنے جگر کے خون کا دودھ بناکر پلایا- وہ میں ہی ہوں جب تو بستر پر پیشاب کردیا کرتا تھا تو میں تمہیں دوسری جانب سلادیا کرتی اور جب تو دوسری جانب بھی پیشاب کردیا کرتا تو میں تمہارے پیشاب کیے ہوئے جگہ پر سوجایا کرتی تھی اور تجھے اپنے سینے پر سلایا کرتی تھی- بیٹا! وہ میں ہی ہوں جو تمہیں اپنے شکم میں نو مہینے تک بوجھ اُٹھائے لیے پھرتی رہی اور تمہارے وزن سے ہونے والے درد کو برداشت کرتی رہی-
اپنی ماں سے جھوٹی محبت کرنے والو! اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو کہ آج ہمارے سینوں میں اپنی ماں کے لیے کتنی محبت ہے؟ انہوں نے گلشنِ قلب میں کتنے پھول کھلائے ہیں پھر بھی ہم ان کے احسانات، شفقتوں اور محبتوں کے بدلے میں ہم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ ہم میں سے اکثر و بیشتر لوگ اپنے والدین کی نافرمانی کرتے اور اُنہیں تکلیف دیتے ہیں- اپنے والدین کی محبت کے لگائے ہوئے چمن کے پھولوں کو قدموں سے مسل دیتے ہیں پھر بھی ایک ماں اپنے بیٹے کو کبھی بددعا نہی دیتی- اگر کچھ کہتی بھی ہے تو دل سے نہیں کہتی بلکہ خداوند قدوس سے یہی دعا کرتی ہے کہ اے میرے رب! تو ہمارے لعل کو، تو ہمارے لخت جگر کو، نور نظر کو ہدایت کے ساتھ ہمیشہ سکون و راحت کی زندگی عطا فرما-
دوسرے مقام پر ارشادِ ربانی ہے جس میں الله رب العزت نے اپنےساتھ والدین کا بھی شکر ادا کرنے کا حکم دیا دیا ہے: ان شكرلى ولو الديك.میرا اور اپنے والدین کا بھی شکر ادا کرو- دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے: وقضى ربك وبالوالدين احسانا.تیرے رب نے فیصلہ کردیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرو-
حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: جاء رجل الى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم من احق الناس بحسن صحبتى قال امك قال ثم من قال امك قال ثم من قال امك قال ثم من قال ابوك.ایک آدمی آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آیا، عرض کیا، یارسول الله! لوگوں میں سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تیری ماں- پھر کون؟ فرمایا تیری ماں- پھر کون؟ اسی طرح تین مرتبہ آپ نے ماں فرمایا- چوتھی بار فرمایا کہ تیرا باپ ( متفق علیہ)
یہاں پر غور کرنے کی بات ہے کہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ماں کا مرتبہ باپ سے تین گنا زیادہ فرمایا ہے کیوں کہ ماں ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کے پیروں تلے جنت ہے- آج ہم اس ماں کو جس کو الله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے باپ کے مدمقابل تین گنا زیادہ مرتبہ دیا ہے، اس کو گالی دیتے ہیں اور مار پیٹ کر گھر سے بھگا دیتے ہیں-
اے نافرمان اولاد! لعنت ہو تم پر کہ تم نے ماں کو اس کے خود کے گھر سے بھگا دیا- دوسری جگہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:رغم انف ثم رغم انف ثم رغم انف من ادرك أبويه عند الكبر احدهما او كليهما فلم يدخل الجنه.اس کی ناپاک مٹی ہو، اس کی ناپاک مٹی ہو، اس کی ناپاک مٹی میں ہو جو اپنی ماں کو بڑھاپے میں پائے اور جنت میں داخل نہ ہو- ( رواہ مسلم)
والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والو! آگاہ ہو جاؤ کہ کلمہ شہادت پڑھنا نصیب نہ ہوگا- حضرتِ عبد الله بن سلام رضی الله تعالیٰ عنہ بستر مرگ پر تھے، سرکارِ دو عالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا آخری دیدار کرنا چاہتے تھے آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبد الله کے سرہانے جاکر فرمایا: اے عبد الله پڑھ اشهد ان لا اله الا الله.
مگر وہ نہیں پڑھ سکے- آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے اسی طرح تین مرتبہ پڑھنے کو فرمایا، مگر وہ نہ پڑھ سکے- آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ دنیا میں ان کے اعمال کیسے تھے اور ان کا مشغلہ کیا تھا؟ جواب دیا یارسول الله! الله کی قسم! جب سے انہوں نے مجھ سے نکاح کیا ہے، میں نہیں جانتی کہ سرکار عليك التحية والثناء کے پیچھے، ان کی کوئی نماز چھٹی ہو- ہاں ان کی ماں ان سے ناراض ہے-
آپ نے ان کی والدہ کو طلب فرمایا- فرمایا، اے ضعیفہ! اگر تم اپنے بیٹے کو معاف کر دوگی تو تمہارا حق میرے ذمہ ہے- اس ضعیفہ نے عرض کی یارسول الله! آپ اور آپ کے اصحاب گواہ ہیں کہ میں نے اسے معاف کردیا- اس کے بعد آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبد الله سے کلمہ شہادت پڑھواتے ہیں اور پڑھنے کے ساتھ ہی ان کی روح بھی پرواز کر جاتی ہیں- جب ان کی نمازِ جنازہ اور دفن سے فارغ ہوئے تو رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ جو شخص اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے اسے دنیا سے کوچ کرتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا نصیب نہ ہوگا-کیا ہم جنت نہیں چاہتے؟ جنت تو ماں کے قدموں تلے ہے، الجنة تحت اقدام امهات اگر ہم جنت چاہتے ہیں تو جس طرح ماں نے آپ کو بچپن میں پالا تھا اسی طرح آپ بھی ان کی خدمت کیجیے-
*کریم گنج پورن پور پیلی بھیت مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com