این ڈی ٹی وی کے ساتھ بات چیت میں جاوید اختر نے کہا کہ ہندوستان میں یہ افہام و تفہیم ہے اور اس تفہیم کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے جاوید اختر کہتے ہیں کہ میرا ایک دوست تھا، جس نے پاکستان کی موسیقی کی کیسٹ دیکھی۔ اس نے بڑی حیرانی سے مجھے بتایا کہ جاوید صاحب لاہور کی وہی سڑکیں ہیں جو ہمارے یہاں ہیں…‘‘ یہ لوگوں کا حال ہے۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔
جاوید صاحب پاکستان کے شہر لاہور میں منعقدہ فیض فیسٹیول میں پہنچے تھے۔ اردو شاعر فیض احمد فیض کی یاد میں 17 سے 19 فروری تک یہاں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں انہوں نے کہا، ‘ہم بمبئی کے لوگ ہیں، ہم نے دیکھا کہ ہمارے شہر پر کیسے حملہ ہوا۔ وہ لوگ (دہشت گرد) ناروے سے نہیں آئے اور نہ ہی مصر سے آئے تھے۔ وہ لوگ آج بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں۔ اس لیے اگر یہ شکایت ہر ہندوستانی کے دل میں ہے تو آپ کو برا نہیں ماننا چاہیے۔
پروگرام کے دوران ایک خاتون نے پوچھا کہ جاوید صاحب کیا آپ انڈیا جا کر وہاں کے لوگوں کو بتائیں گے کہ پاکستان بہت دوستانہ، محبت کرنے والا اور مثبت ملک ہے۔ ہم بمباری نہیں کرتے، پھول بھی پہنتے ہیں اور محبت بھی؟’
اس پر جاوید اختر نے جواب دیا کہ آج آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں بہت سچائی ہے لیکن یہ بہت افسوسناک ہے کہ لاہور اور امرتسر کے شہروں کے درمیان 30 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں۔ اس کے باوجود ان دونوں شہروں اور پورے ملک میں ایک دوسرے کے بارے میں معلومات کا فقدان حیران کن ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘یہ مت سوچیں کہ آپ ہندوستان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ عام ہندوستانی آپ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہاں آپ کے درمیان کس قسم کے لوگ بیٹھے ہیں، لیکن آپ نہیں جانتے… اور یہ مسئلہ دونوں طرف سے ہے۔ میں کبھی کبھی بہت حیران ہوتا ہوں، میں جو بھی سنتا ہوں۔
اسی دوران ایک نوجوان نے جاوید اختر سے پوچھا کہ آپ نے کہا کہ دونوں ممالک میں مسئلہ ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے جو اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ آپ کے خیال میں اس طرح کیا جانا چاہیے کہ آج کی نوجوان نسل سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس میں برداشت کا عنصر سمجھا جا سکتا ہے۔
اس کے جواب میں جاوید اختر نے کہا کہ ‘ہندوستان اور پاکستان دونوں میں ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ اس خطے میں امن ہو، دوستی ہو، تجارت ہو، ثقافتی تبادلہ ہو۔ وہ جتنی کوشش کر سکتا ہے کرتا ہے۔ لیکن آخر کار اقتدار وہی لوگ ہیں جو اقتدار میں ہیں، یہ صرف ان کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے آپ کتنی ہی کوشش کریں، وہ ایک واقعہ آپ کی تمام کوششوں کو برباد کر دے گا۔ میرا ماننا ہے کہ دونوں طرف کے لوگوں کو یہ دباؤ بنانا چاہیے کہ جو بھی ہو، ٹھیک ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:-
جاوید اختر نے پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کو آئینہ دکھایا، کنگنا رناوت کی تعریف
شبانہ اعظمی نے بچے کی تصویر شیئر کی، وہ ماہر قلم اور شاعری کا ماہر ہے- کیا آپ نے اسے پہچانا؟
Source link