پٹنہ ہائی کورٹ نے بہار میں ذات پات کی گنتی پر عبوری روک لگا دی ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 3 جولائی کو ہوگی۔ نتیش حکومت کے لیے یہ ایک بڑا جھٹکا ہے۔ بہار میں ذات پات پر مبنی سروے کو ذات مردم شماری یا ذات کی مردم شماری بھی کہا جا رہا ہے۔ ذات پر مبنی سروے کو منسوخ کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں، لیکن عدالت نے فوری طور پر اس معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ بتا دیں کہ نتیش حکومت ذات پات کی گنتی کرانے کے حق میں رہی ہے۔ نتیش حکومت نے 18 فروری 2019 کو اور پھر 27 فروری 2020 کو بہار کی قانون ساز اسمبلی اور قانون ساز کونسل میں ذات پات کی مردم شماری کی تجویز پاس کی ہے۔
درخواست گزاروں کے وکیل دنو کمار نے یہ عرض کیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار ہائی کورٹ جا سکتے ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ ‘پبلسٹی انٹرسٹ لٹیگیشن’ معلوم ہوتا ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا کہنا ہے کہ یہ سروے عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اسی کی بنیاد پر حکومت مستقبل میں عوامی فلاح کی پالیسیاں بنائے گی۔
بہار میں ذات پات کی گنتی پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا بہار حکومت ذات پات کی گنتی کرانے کے لیے کارروائی کر رہی ہے، کیا یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے؟ کیا ہندوستان کا آئین ریاستی حکومت کو ذات کی گنتی کرنے کا حق دیتا ہے؟ کیا 6 جون کو بہار حکومت کے ڈپٹی سکریٹری کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن شماریات ایکٹ 1948 کے خلاف ہے؟ کیا قانون کی عدم موجودگی میں ذات کی گنتی کا نوٹیفکیشن ریاست کو قانونی طور پر اجازت دیتا ہے؟ کیا ریاستی حکومت کا ذات پات کی گنتی کرانے کا فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ فیصلہ کے ساتھ لیا ہے؟
قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہار حکومت نے گزشتہ سال ذات پات کی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا کام جنوری 2023 سے شروع ہوا تھا اور اسے مئی تک مکمل ہونا تھا لیکن اب ہائی کورٹ نے اس پر 3 جولائی تک روک لگا دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:-
مہاراشٹر: سانگلی ضلع میں المناک سڑک حادثہ، بس اور کار کے تصادم میں 4 افراد ہلاک
شرد پوار کی جگہ کون لے گا؟ این سی پی کے نئے صدر کے انتخاب کے لیے پارٹی قائدین کل ملاقات کریں گے: ذرائع
Source link