ساحل شہسرامی: علم وادب کا ایک اور شہ سوار چلا گیا_____
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
کچھ دیر قبل محب گرامی مولانا قاضی خطیب عالم صاحب، لکھنؤ نے بذریعہ واٹس اپ یہ خبر غم دی کہ جماعت اہل سنت کے معروف عالم دین، کئی علمی و تحقیقی کتابوں کے مصنف، کام کو زندگی اور زندگی کو کار آمد بنانے کا جذبہ رکھنے والے صاحب قلم حضرت مولانا مفتی ارشاد احمد رضوی المعروف ساحل شہسرامی صاحب(سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور) برین ہیمریج کی بنا پر انتقال کر گیے، سنتے ہی کلمہ ترجیع پڑھا؛
انا للہ وانا الیہ راجعون
مولانا ارشاد احمد رضوی ساحل شہسرامی (پیدائش 1972ء) بہار کے مردم خیز شہر شہسرام سے تعلق رکھتے تھے۔جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فضیلت اور تخصص فی الفقہ کیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا۔موصوف بڑی خوبیوں کے حامل تھے۔عالمانہ خو بو رکھتے تھے۔مزاج تحقیقی اور انداز بڑا عمدہ پایا تھا۔آپ کے نوک قلم سے کئی بڑے علمی کتابیں سامنے آئے جن میں تحفہ حجاز، خواجہ ہند کی صوفیانہ شاعری، امام احمد رضا اور شہسرام، شدھی تحریک اور صدرالافاضل، غیاث الدین حسن حیات اور شاعری، صادق شہسرامی حیات اور شاعری، متنبی ایک خصوصی مطالعہ، اوراد قادریہ، خانوادہ برکات کی علمی وادبی خدمات، دائرہ قادریہ بلگرام شریف،ملک العلما اور علماے شہسرام جیسی علمی اور ضخیم کتابیں تالیف فرمائیں۔اس کے علاوہ کئی اہم کتابوں کے تراجم/ترتیبات وغیرہ کا کام بھی انجام دیا۔ہزار سے فتاوی بھی تحریر فرمائے۔کئی اہم موضوعات پر کئی کتابیں زیر ترتیب تھیں، لیکن قضا وقدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، وہ شخص جو عمر کے اعتبار سے ابھی بہر حال جوان تھا یوں اچانک ایک ہنگامی بیماری کا شکار ہو کر علمی صفوں میں ماتم برپا کرکے اس جہان سے رخصت ہوگیا۔ان انتقال یقیناً جماعت اہل سنت کا بڑا خسارہ ہے۔قحط الرجال کے اس دور میں علمی شخصیتوں کا کم عمری میں داغ مفارقت دے جانا بہت بڑی خلا ہے۔رب کریم ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
17 محرم الحرام 1446ھ
24 جولائی 2024 بروز بدھ