_____وقت ہے خود کو بدلنے کا !!
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
ہندو احیا پرستی اس وقت سونامی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ملک کے بیش تر حصوں میں مسلم دشمنی کا بھوت سروں پر چڑھ کر ناچ رہا ہے۔فرقہ پرستی سے کوسوں دور رہنے والا خطہ جنوبی ہند بھی شمالی ہندوستان کے انگاروں کی تپش محسوس کر رہا ہے۔شمالی ہند ہی کے تجربات سے پورے ملک میں مسلم مخالف ماحول سازی کی جارہی ہے۔
گذشتہ چند مہینوں میں ایسی کتنی ہی خبریں اور ویڈیو نگاہ سے گزرے جن سے اندازہ ہوا کہ مسلم دشمنی کا زہر جوانوں، بوڑھوں، عورتوں، اَن پڑھوں اور تعلیم یافتہ جیسے طبقوں بھی میں گہرے تک بیٹھ گیا ہے۔ان کے نوجوان ٹوائلٹ میں مسلم بادشاہوں کے فوٹو لگا رہے ہیں۔مسلم بادشاہوں کے ناموں سے منسوب ہورڈنگ/بورڈوں پر پیشاب کر رہے ہیں۔نئی عمر کے لڑکے/لڑکیاں مسلسل شدت ونفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔کل ملا کر ہندو کمیونٹی کا ایک بڑا طبقہ خصوصاً نوجوانوں کی اکثریت اس وقت فرقہ پرستی کے خمار میں اتنی مد مست ہے کہ اسے تعلیم کی فکر ہے نہ روزگار کی، اسے بس مسلم دشمنی کے نام پر ہڑدنگ مچانے کی چھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے۔یہی وہ موقع ہے جب ہم اپنے نوجوانوں ان ہنگاموں سے ہٹا کر تعلیم ولیاقت کے حصول پر لگا دیں تو ان شاء اللہ اگلے بیس پچیس سالوں میں حالات کافی حد تک بدل سکتے ہیں۔
ہمارے مسائل____
یوں تو ہمارے یہاں مسائل کا انبار ہے،لیکن چند بنیادی مسائل ایسے ہیں کہ جن کو حل کر لیا جائے تو دیگر مسائل کو حل کرنا کافی آسان ہوجائے گا۔سر دست ہماری قوم ان دو مسئلوں سے زیادہ دو چار ہے:
1۔تعلیمی کمزوری
2۔فضول خرچی
تعلیمی اعتبار سے مسلمان بھارت کی سب سے کمزور قوم ہیں۔سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں میں تقریباً ستاون فیصد(57.3) آبادی ہی تعلیم یافتہ ہے یعنی تقریباً تینتالیس(43) فیصد لوگ اَن پڑھ ہیں۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ تعلیم یافتہ کا پیمانہ صرف اتنا ہے کہ انسان ضرورت بھر پڑھنا لکھنا جانتا ہو۔اس کا مطلب ڈگری ہولڈر ہونا نہیں ہے. ڈگری کو پیمانہ بنائیں تو مسلمانوں میں پونے تین فیصد(2.75) افراد ہی گریجویٹ یا اوپر کی تعلیم رکھتے ہیں جب کہ انٹر کرنے والوں کی تعداد بھی صرف بائیس (22) فیصد ہے۔
____تعلیمی کمزوری اور حل
جمہوری ممالک میں کامیابی کا راستہ تعلیم سے ہو کر نکلتا ہے۔مسلمانوں کو کومیاب ہونا ہے تو انہیں اپنے نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنانا پڑے گا۔شرح خواندگی بڑھانے کے لیے ہمیں دو محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
🔹اولاً اپنی بستیوں میں ترجیحی طور پر پرائمری اسکول/جونئر ہائی اسکول اور انٹر کالجوں کا قیام کیا جائے۔جہاں پہلے سے اسکول چل رہے ہیں انہیں معیاری تعلیم پر ابھارا جائے، ضرورتاً اخلاقی دباؤ بھی ڈالا جائے۔سرمایہ دار طبقے کو اسکولی لائن میں انویسٹ کرنے پر ابھارا جائے۔انہیں اسکول کے مالی/سماجی اور قومی فوائد بتائے جائیں۔اچھے منتظم کو تلاشا جائے اور معیاری تعلیم اور اچھے ماحول کا بندوبست کیا جائے۔
🔸دوسرے جو مدارس/مکاتب ٹھیک ٹھاک سی عمارتوں میں چل رہے ہیں، انہیں بی ایس اے(B S A) یا اقلیتی وزارت سے پانچویں تک کی منظوری ضرور دلائیں، تاکہ بچہ مکتبی تعلیم کے ساتھ ساتھ پرائمری تعلیم بھی حاصل کرلے۔یہ کام ذرا بھی مشکل نہیں ہے، ہمارے علاقے میں اسی پیٹرن کے کئی ادارے قائم ہیں اور اچھی طرح چل رہے ہیں۔خود ہماری فیملی میں اسی طرز کا ایک ادارہ پچھلے بیس سال سے حسن و خوبی کے ساتھ چل رہا ہے۔
____فضول خرچی اور اس کا حل
مسلمانوں کی خراب عادتوں میں فضول خرچی سب سے نمایاں ہے۔معاملات اجتماعی ہوں یا انفرادی فضول خرچی دونوں طرف برابر جاری ہے۔اجتماعی معاملات میں شادی بیاہ اور موت و غمی شامل ہیں۔ان مواقع پر فضول خرچیوں کی ایسی ایسی رسمیں موجود ہیں جنہوں نے قوم مسلم کو غربت و تنگ دستی میں بری طرح جکڑ رکھا ہے۔انفرادی سطح پر ہمارے نوجوانوں میں ہوٹلنگ، پکنک، بائک رائڈنگ جیسے شوق شامل ہیں۔باپ کے پیسوں پر پلنے والا نوجوان ہر دوسرے تیسرے دن یاروں کے ساتھ ہوٹلنگ پر نکل جاتا ہے۔ہر مہینے دو مہینے میں کسی تفریحی مقام پر پکنک کا پروگرام بنا لیا جاتا ہے۔جب کہ ہر روز دیر رات تک بائک رائڈنگ کا سیر سپاٹا بھی اسی فضول خرچی کا لازمی حصہ بنا ہوا ہے۔یہ ساری فضول خرچیاں اس وقت ہو رہی ہیں جب کہ حکومت ہند کی 2013 کی رپورٹ کے مطابق مسلمان بھارت کی سب سے غریب قوم ہیں۔اکتیس فیصد(31) مسلمان دائرہ غربت سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ملک میں پندرہ فیصد آبادی ہونے کے باوجود بھکاریوں میں پچیس (25) فیصد مسلمان ہیں۔نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے مطابق یومیہ آمدنی میں مسلمان سب سے نچلے پائیدان پر ہیں۔
اس خراب حالت کے باوجود بھی اگر ہمارے یہاں فضول خرچیاں کم نہیں ہو رہی ہیں تو اپنی بربادی کے لیے کسی بھی حکومت یا سماج کو ذمہ دار ٹھہرانا سراسر نادانی ہے۔سچ تو یہ ہے ہم خود ہی اپنے دشمن بنے بیٹھے ہیں!!
اس محاذ پر ہمیں بڑی محنت کی ضرورت ہے۔سماجی سطح پر خوشی و غمی کی رسموں کو بتدریج گھٹایا جائے۔فوری خاتمہ تو بے حد مشکل ہوگا لیکن بتدریج گھٹانے میں زیادہ دشواری نہیں ہوگی۔یہ کام برادری کی سطح پر کرنا زیادہ آسان ہوگا۔اگر اس محاذ پر چند اہل ثروت کو سمجھا لیا جائے تو کام کافی آسان ہو جائے گا، کیوں کہ کسی امیر کا رسم و رواج سے پہلوتہی کرنا سماج پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔
انفرادی سطح پر والدین اپنی اولادوں کو فضول خرچی کے شوقوں سے روکیں۔علما اس کے متعلق تقریروں میں بہ حکمت ذہن سازی کریں۔اس کی خرابیاں اور اس کے نقصانات واضح کریں۔فوری نہ صحیح لیکن مسلسل کوشش کی جائے تو چند سال میں اس کے اثرات محسوس ہونے لگیں گے۔
یہ بھی یاد رکھیں!
یہ سب کام تحریر لکھنے یا پڑھنے جتنا آسان نہیں ہے۔اس لیے یہ امید نہ رکھیں کہ مہینے چھ مہینے میں حالات بدل جائیں گے؟
میاں! آج کل تو بخار بھی مہینے ڈیڑھ مہینے سے پہلے نہیں جاتا تو سالوں کی خراب رسمیں اور عادتیں دو چار مہینوں میں جانے والی نہیں ہیں لیکن صحیح علاج، مناسب پرہیز اور لگاتار دیکھ بھال ہوتی رہی تو ان شاء اللہ یہ موذی بیماریاں ضرور دور ہوجائیں گی۔
وقت کا پہیہ ایک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اغیار نے اپنے نوجوانوں کو ہماری دشمنی میں پاگل بنا دیا ہے، اگر ہم اپنے نوجوانوں کو لا یعنی جواب اور مقابلے سے ہٹا کر تعلیم وہنر مندی میں لگا دیں تو مظلومی و مایوسی کے سارے بادلوں کو چھانٹ سکتے ہیں۔
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا
10 رمضان المبارک 1446ھ
11 مارچ 2025 بروز منگل