تین طلاق کا مسئلہ اور ملکی سیاست
مفتی عبدالرحیم نشتر فاروقی:ایڈیٹر ماہنامہ سنی دنیا نبریلی شریف
آرایس ایس کے زہریلےخمیرسے اٹھنے والی بی جے پی جب اپنی شرمناک تگڑم بازیوںکے ذریعہ برسراقتدارآئی تھی ، اسی وقت یہ یقین ہوچلاتھاکہ ہندومسلم میںنفرتوںکی آبیاری کرنے والی یہ پارٹی مذہبی عداوتوں کی فصل ضرورکاٹے گی لیکن وہ اس میں اتنی جلد بازی کرے گی ،اس کااندازہ ہرگزنہ تھا، اس حکومت کے آتے ہی اس کے سائے میںگئورکچھاکے نام پر بے قصورانسانوںکاقتل عام کیاجانے لگا ،انھیںزندہ جلایا جانے لگا،لوجہادکے نام پرنئی نسل کوجیل کی سلاخوںکے پیچھے دفن کیا جانے لگا،ہندومسلم بھائی چارگی کی فضاکومنافرت کے زہرسے مسموم کرنے کی کوششیںہونے لگیں،غرض کہ مسلمانوںکوٹارگٹ کرنے کےنئے نئے طریقے اپنائے جانے لگے۔ مودی حکومت مسلم عورتوںکےساتھ انصاف کرنے کے نام پرتین طلاق کے خلاف ایک ایسابل لائی ہے جوعورتوںکو ’’تاڑسے ٹپکا،کھجورمیںاٹکا‘‘کے تحت مزید مشکلات کی آگ میں جھونکنےوالاہے،طلاق کے بعد توعورت ویسے ہی پریشان تھی ، اب اورکورٹ کچہری کی صورت میںپریشانیاںدوچندہو گئیں، پہلے کم ازکم سابقہ قانون اورگاؤںسماج کے دباؤمیںشوہرسے اخراجات تومل جاتے تھے جس سے عورت اپنااوراپنے بچوںکا گزاراکرلیاکرتی تھی،اب تووہ شوہربھی جیل میںہے ،گاؤںسماج کچھ دلائے بھی تو کس سے؟کون پرسان حال ہوگا؟اب توشوہر کے گھروالے بھی غم وغصہ میںہوںگےکہ اس نے ان کے کماؤ فردکوجیل میںبندکرادیااوراب چلی ہے گزارابھتہ کی فرمائش کرنے ،پہلے توکسی حدتک سسرال والوںکی ہمدردیاںساتھ ہوتی تھیںجنھیں اس نے خودہی شوہرکوجیل بھیج کرختم کردیں۔ بی جے پی حکومتیںعام لوگوںکی فلاح وبہبودکے لئے کام کرنے کے بجائے آج ملک میںہروہ کام کرہی ہیںجس سے ہندومسلم منافرت کے شعلے بھڑکیں ،کسان خودکشی کررہے ہیں، نوجوان نوکریوںکے لئے دربدربھٹک رہے ہیں،ملکی معیشت تباہی کے دہانے پرکھڑی ہے ،غنڈہ گردی نئے نئے رنگ و روپ اختیارکررہی ہے ،قتل وغارت گری شباب پرہے ،زندہ انسانوںکونذرآتش کیاجارہاہے،تعلیم کے نام پرلوگوںکااستحصال کیاجارہا ہے اورغریبوںکے لئے تعلیم توآج بھی ’’جوئے شیر‘‘ ہی کے مترادف ہے،کرپشن کی گرم بازاری ہے ،عورتوںکی عزت وآبروسرعام تارتارکی جارہی ہے،مہنگائی نے عوام کی کمرتوڑرکھی ہے،عام ہندوستانیوںکے بینک کھاتے ’’مودی جی کے پندرہ لاکھ‘‘کی ایک پھوٹی کوڑی کوبھی ترس گئے، یہ وہ ضروری مسائل ہیںجوچیخ چیخ کرحکومت کے ساتھ ساتھ عام ہندوستانیوںکوبھی اپنی جانب توجہ دینے کی فریادکررہے ہیں،لیکن مرکزی حکومت کوان سارے مسائل سے کہیںزیادہ اہم صرف مسلم عورتوںکے وہ معاملےنظرآرہے ہیںجن کا تعلق اسلامی احکام سے ہے، جیسے یہ تین طلاق کامعاملہ ۔ جب سےبی جے پی برسراقتدارآئی ہے ، عوام کے اصل مسائل چھوڑکراپنی پوری توانائی اِنھیںغیرضروری معاملوںکوہوا دینے میںصرف کررہی ہے ،یہ صورت حال کسی بھی جمہوری ملک کے لئے نہایت ہی خطرناک ہے،یہ حالات عام ہندوستانیوں سےاس امرپرسنجیدگی سے غورکرنے کاتقاضہ کررہے ہیںکہ کیا ہم نے نکاح وطلاق کے مسئلے حل کرنے کے لئے بی جے پی کو اقتدار سونپاتھا؟کیاہم نے کھانے پینے کا’’مینو‘‘بنانے کیلئے ہندوستان کی باگ ڈورمودی جی کے ہاتھوںمیںتھمائی تھی؟کیا ہم نے مندرومسجدبنانے کے لئے اس حکومت کومنتخب کیاتھا؟ اگرحکومت صحیح معنوںمیںعورتوںکے ساتھ انصاف کی خواہاںہوتی توعام عورتوںکے لئے فلاح وبہبود،ان کی عزت و آبروکی حفاظت کویقینی بنانے کے لئے اقدامات کرتی نہ کہ عورتوںکوہندومسلم کے خانوںمیںبانٹ کر؟حکومت کایہ عمل یہ واضح کرتاہے کہ اسے دراصل کسی سے کوئی ہمدردی ہے ہی نہیں،
خواہ وہ ہندوعورت ہویامسلم عورت!اسے توصرف ہندومسلم کارڈ کھیل کراپنی سیاسی روٹی سینکنی ہے اوربس!ورنہ مودی جی سب سے پہلے ان ۲۰؍لاکھ ہندوعورتوںکوانصاف دینے کی بات کرتے جنھیںان کے شوہروںنے بغیرکسی طلاق کے چھوڑرکھاہے ، انھیںاِن کی توکوئی فکرنہیںلیکن صرف ۲۹۰۰؍سومسلم عورتوںکی فکرانھیںکھائے جارہی ہے ؟جبکہ یہ وہی مودی جی ہیںجن کے دورحکومت میںاِن مسلم عورتوںکی سرعام عصمت دری کی گئی، زندہ حاملہ عورتوںکے پیٹ چیرکران کے بچے قتل کردئیے گئے ، ان کے بیٹوں،شوہروںاور سرپرستوں کوان کی آنکھوںکے سامنے زندہ جلادیاگیا،یہاںتک کہ مودی جی کے لوگوںنے قبروںسے نکال کرمسلم عورتوںسے’’بلاتکار‘‘ کرنے کی حیاسوزباتیںکیں، مودی جی !یہ وہ وقت تھاجب آپ مسلم عورتوں سے ہمدردی جتاتے،یہ وقت تھاان کوانصاف دلانے کا،اس وقت کہاںتھے آپ؟ اس وقت توآپ خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے اورآج اچانک آپ کے دل میںمسلم عورتوںسے ہمدردی کاطوفان امنڈنے لگا؟ جبکہ مسلم عورتوںکے ساتھ یہ معاملات پہلے ہی سے تھے ،اس میں نیاکچھ بھی نہیںہے جسے آپ نے آج پہلی باردیکھااوران کے ہمدردبن گئے۔
آپ اوربی جے پی کامسلم عورتوںسے ہمدردی کایہ کیسادوغلا معیارہے کہ جس وقت ان کے شوہروںکوزندہ جلادیاجاتاہے، سڑکوں پر دوڑا دوڑا کر ماردیا جاتاہے، ٹرینوں میںان کے لاڈلوںکو چاقوؤںسے گودکرموت کے گھاٹ اتاردیاجاتاہے، اس وقت آپ کے کانوںپرجوںتک نہیںرینگتی ،آپ کی زبان سے ہمدردی کے دوبول تک نہیںنکلتے ،لیکن جیسے ہی اسلامی احکام سے متعلق کوئی معاملہ سامنے آتاہے ،مسلم عورتوںسے آپ کی ہمدردی کے جذبات میںایسی طغیانی آتی ہے کہ بس دیکھتے بنتی ہے،اپنے خودکےاعمال کاجائزہ لئے بغیرمیدان میںکودپڑتے ہیں،مسلم بہنو! ہم نے اپنی والی کوبھلے ہی انصاف نہ دیاہومگر تمہیںتوضروردلائیںگےاوراس طرح دلائیںگے کہ تمہارے شوہرکوجیل میںبھیج کراس کے بھوت سے تمہاراگزارابھتہ دلائیں گے،اگراس کابھوت گزارابھتہ دینے سے انکارکردے توتم ہمت نہ ہارنا،بھلے ہی تمہارے روٹی کے بھی لالے پڑجائیںلیکن کورٹ کچہری کاچکرضرورکاٹناپریہ کبھی مت کہناکہ مجھےتوکھانے پینے تک کے لالے پڑے ہوئےہیں،یہ کورٹ کچہری کاخرچ کہاں سے لاؤںگی؟معاف کرنا!یہ توکرناہی پڑے گا،آخرتمہیںانصاف جو چاہئے ،بہنو!دراصل میری ہمدردی ذرادوسری طرح کی ہے جو تھوڑی دیرسے سمجھ میںآتی ہے ،اتنی دیرمیں!جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے،اس وقت بہنو!آپ کویہ سمجھ میںآجائے گاکہ جو اپنی ایک بیوی کوبیوی کی طرح نہیںرکھ سکا،جوخودایک کے ساتھ انصاف نہیںکرپایاوہ بھلادیش کی سیکڑوںمسلم عورتوںکوکیا خاک انصاف دلاپائے گا؟ارے یہ تومحض ایک جملہ بازی تھی جس کوتم بے وقوف مسلم عورتوںنے سچ سمجھ لیا،یہ سب جانتے ہیںکہ اپنے دیش میںجملہ بازی کاکھیل توچلتاہی رہتاہےاور ہم نے تو اس میدان میںباقاعدہ پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔
یہ بات ملک کاہرانصا ف پسندشہری جان چکاہے کہ حقیقت میں یہ مودی جی اوربی جے پی کی مسلم عورتوںسے ہمدردی نہیںبلکہ ایک چھلاوہ ہے ،ایک حربہ ہے مسلم پرسنل لامیںدخل اندازی کا،ایک چوردروازہ ہےمسلمانوںکو اسلامی احکام سے دورونفورکرنے کا،جوان کے اہم خفیہ ایجنڈوںمیں شامل ہے۔
کچھ اس بل کے بارے میں
سپرم کورٹ کےسینئروکیل کپل سبل کے مطابق حکومت کے ذریعہ پارلیامنٹ میںپیش کئے گئے طلاق ثلاثہ بل کے تین اہم عناصر ہیں(۱)ایک مجلس کی تین طلاقیںخواہ وہ کسی بھی طور پردی جائیں،کالعدم ہیں(۲)تین طلاق دینے والے کومجرمانہ سزادی جائے گی(۳)تین طلاق دیناناقابل سماعت اورغیر ضمانتی جرم ہوگا۔
ان کے مطابق حکومت نے اس بل میں طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ عمل قراردے کراس کی سخت سزامقررکرکے مسلم مردوں کونشانہ بنانے کی اپنی بدنیتی صاف ظاہرکردی ہے ،اب مسلم مردایک دیوانی معاہدہ توڑنے کامجرم ہوگاجبکہ نکاح کوئی مجرمانہ عمل نہیںہے،اس بل کادوسراسب سے خطرناک پہلویہ ہے کہ اس میںایساکہیںذکرنہیںہےکہ صرف مطلقہ ہی اپنے شوہر کےخلاف شکایت درج کراسکتی ہے ،بلکہ کوئی بھی یہ شکایت درج کراسکتاہے کہ فلاںنے اپنی بیوی کوتین طلاقیںدے دی ہیںاورشکایت درج کرلی جائے گی پھرشوہرگرفتارکرلیاجائے گا،صرف کورٹ سے ہی اسے ضمانت مل پائے گی ،اب یہ کورٹ کی مرضی پہ منحصرہے کہ اسے ضمانت دے یاجیل ہی میںرکھے، قانون کا یہ پہلو کئی پریشان کن مسائل کاپیش خیمہ ہے،مثلاًکوئی بھی شخص اپنی ذاتی پرخاش کے سبب شوہرکے خلاف جھوٹی شکایت درج کراکےاسے جیل بھجوادے گا۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حکومت کے مطابق جب طلاق واقع ہی نہیںہوئی توپھرشوہرکوجیل کیوںبھیجاجارہاہے؟ یعنی جرم ہواہی نہیں پھربھی سامنے والامجرم اورسزاکامستحق؟جب شوہرجیل میںہوگاتوپھرمطلقہ کونان ونفقہ کون دے گااورکہاں سے دے گا؟جب شوہرکوتین سال کے لئے جیل بھیج دیاجائے گا توبیوی لازمی طورپرسڑک پرآجائے گی،یعنی شوہرجیل میں، بیوی سڑک پر،مطلب پوری فیملی تباہی کے دہانے پر!تین سال تک عورت آخرکہاںرہے گی؟اس کی کفالت کی ذمہ داری کون لے گا؟کیایہی مسلم عورتوںکے ساتھ انصاف ہے کہ اس کے لئے واپسی کے سارے دروازے بھی بندکردیئے جائیں؟
حکومت کادعویٰ ہے کہ وہ مسلم پرسنل لامیںمداخلت نہیں کررہی بلکہ جنسی ناانصافی کاخاتمہ کررہی ہے ،اگرحکومت اپنے اس قول میںسچی ہے توسب سے پہلے ہماری ان ہندوعورتوںکو انصاف دلائے جوعام طورپراپنے گھروںسے بغیرکسی طلاق کے باہرنکال دی جاتی ہیںاورکورٹ سے انصاف پانے کے لئے در درکی ٹھوکریںکھانے پرمجبورہوجاتی ہیں،ان کی عمریںختم ہوجاتی ہیںلیکن انھیںانصاف نہیںملتا،مگران ہندوعورتوںکی فکرکسی کو نہیں،ان کاہمدردکوئی نہیں،کیایہ کسی ہمدردی کی مستحق نہیں؟
طلاق کے بعدمسلم عورتوںکوتویہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ان کے شوہرنے انھیںطلاق دے دی ہے ،اس لئےاب انھیں اس مسئلےسے ابرنے کی تدبیریںکرنی یاکرانی چاہئے ،لیکن بے چاری ہندوعورتوںکوتوکافی دنوںتک یہ بھی نہیںمعلوم ہوپاتاکہ ان کے پتی نے انھیںطلاق دے دی ہے ،وہ بے چاری اس خوش فہمی میںمبتلااپنی زندگی گزارتی ہیںکہ ان کاپتی ،ان کی دیکھ ریکھ کرنے والاموجودہے ،پتی کی طرف سے ملنے والی توجہات جب پہلے کے مقابلے میںکم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوجاتی ہیں تب ان پریہ رازکھلتا ہے کہ ان کے اس پتی نے توکافی دنوں پہلے ہی ان سے اپنارشتہ ناطہ توڑلیاہےجس کے نام کاسندوروہ اب تک لگاتی آرہی ہیں،کیوںکہ ان کوبغیرکسی طلاق کے ،کسی بھی بہانے سے گھرسے باہرکردیاجاتاہے۔
مودی جی !ان کاکیاقصورتھاکہ ان کے پتی نے جب جی میںآیا، انھیںبغیر طلاق دیئے اور بغیربتائے اپنی خوشحال زندگی ، گھربارسے دورکردیا؟ان کاکون پرسان حال ہوگا؟
ایک سروے کے مطابق مسلمانوںمیںتین طلاق کے واقعات محض ۲۹۰۰؍سوہیںجبکہ ہندوؤںمیںبغیرکسی طلاق کے یہ واقعات۲۰؍لاکھ سے زائدہیں،یعنی مسلم عورتوںکے مقابلے ۱۹؍لاکھ ۹۷؍ہزارایک سوہندوعورتوںکوبغیرطلاق کے چھوڑ دیا جاتاہے اوراس میںکسی کوبھی جنسی ناانصافی نظرنہیںآتی،اس معاملے میںکسی کوبھی جینڈرجسٹس کی فکرنہیںہوتی ،فکرکس کی کی جاتی ہے صرف ۲۹۰۰؍انتیس سوعورتوںکی جبکہ۲۰؍لاکھ عورتوں کوپس پشت ڈال دیاجاتاہے ،آخرکیوں؟دال میںضرورکچھ کالاہے بلکہ یہ کہنابجاہوگاکہپوری کی پوری دال ہی کالی ہے۔
کیسی اندھیرنگری ہے کہ ایک شخص کو۲۹؍زخم لگے ہیں جبکہ دوسرے شخص کاپوراجسم ہی زخموںسے چورہے،اب آپ ہی بتایئے کہ پہلےعلاج کاحقدارکون ہے ؟۲۹؍زخم والایازخموں سے چورجسم والا؟کوئی معمولی سی عقل والابھی یہی کہے گاکہ زخموں سے چورجسم والاہی پہلے علاج کاحقدارہے،اس کے باوجودبھی اگرکوئی ۲۹؍زخم والے کوہی پہلے علاج کا حقدارگردانے اورکہے کہ مجھے اس سے ہمدردی ہے کیوںکہ اس کے جسم پر۲۹؍زخم لگے ہیںتوپھرکوئی سرراہ چلنے والابھی یہ کہہ دے گاکہ کہیںتواندھا تونہیںہوگیا؟تیری مت تونہیںماری گئی ہے؟ارے تجھے ۲۹؍ زخم والانظرآگیااوریہیںیہ دوسراشخص جس کاپوراجسم زخموںسے چورچورہے، نظرنہیںآیا؟اگرتوسچ میں انصاف پسندہے توسب سے پہلے اُس کاعلاج کراجس کا پورا جسم زخموںسےچھلنی ہے،اگر نہیں! تونہ تواِس کاہمدردہے نہ اُس کا! اب یہ ہمدردی کاڈھونگ چھوڑاوربھاگ یہاںسے ۔
تین طلاق کے سلسلے میںکچھ لوگوںنے یہ کہاکہ تین طلاق کوتومذہب میںبھی ناپسندیدہ اوربراماناگیاہے توجوبات مذہبی طورپربری ہے ،وہ قانونی اعتبارسے اچھی کیسےہوسکتی ہے؟لہٰذا یکبارگی تین طلاقیں نہیںمانی جائیں گی۔
تواس سلسلے میںعرض ہے کہ بغیرشادی یانکاح کے کسی بھی لڑکالڑکی کا’’میاںبیوی‘‘ کی طرح رہناکسی بھی مذہب میں جائز نہیںسمجھاگیاہے تو پھر’’لیواِن ریلیشن شپ‘‘کوکس بناپر لیگل قراردیا ہے؟اسی طرح’’ہم جنس پرستی‘‘بھی کسی مذہب میں جائز و درست نہیںقراردی گئی ہےپھربھی اسے کس بناپر قانونی تحفظ حاصل ہے؟
ہندولامیںشادی سات جنموںتک کارشتہ ہے ،شایداسی لئے وہاںطلاق کاتصوربھی نہیں،لیکن قریب۵۰ــ۵۵؍سال پہلے خصوصی بل لاکرہندولامیںبھی’’طلاق‘‘کا’’پراؤدھان‘‘کیا گیا ،آخرکیوں؟جب طلاق اتنی ہی بری چیزہے توجس مذہب میںطلاق کاتصورتک نہیںاس میںطلاق کا’’وشیش پراؤدھان‘‘ کرنے کاکیامطلب ہے؟
مودی جی کہیںگے کہ صاحب ہم’’طلاق ‘‘کےنہیں’’تین طلاق‘‘کے خلاف ہیں،توہماراجواب ہوگا جناب !آپ نہ طلاق کے حق میں ہیںنہ تین طلاق کے خلاف !کیوںکہ آپ نے تو ’’جسودابین‘‘کوبغیرکسی طلاق کے چھوڑرکھاہے ،آپ نے انھیں نہ ایک طلاق دی نہ تین،اس سے تویہی ظاہرہوتاہےکہ آپ سرے سے طلاق ہی کے مخالف اوربغیرکسی طلاق کےبیوی کوچھوڑدینے کے حامی ہیں،آپ کوتویہ پرچارکرناچاہئے کہ مترو!خبرداربیوی کوکبھی طلاق مت دینا،اگرچھوڑناہی ہے توویسے ہی چھوڑدوتاکہ بیوی کویہ پتابھی نہ چلے کہ اس کے شوہرنے اسے چھوڑدیاہے، اس سے تم دنیااورسماج کی نظرمیںاچھے بھی بنے رہوگے اوربیوی تم پرہرجے خرخے کامقدمہ بھی نہیںکرسکے گی اورسب سے بڑی بات یہ ہےکہ طلاق دینے کے باوجودبھی تم طلاق یاتین طلاق کے خلاف عورتوںکے ہمدردبھی بن جاؤگے۔
مودی جی! آپ کی ’’کرنی‘‘آپ کی’’ کتھنی‘‘کاپول کھول رہی ہےاورآپ کا’’ڈبل رول‘‘ دنیادیکھ رہی ہے پھربھی ع شرم تم کو مگر نہیں آتی
طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بنانے میںآپ کی حکومت نے جس جلدبازی کامظاہرہ کیاہےاسے دیکھتےہوئے صاف طورپریہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انگلی کٹاکرشہیدوںمیںنام درج کرانے کے علاوہ حکومت کاکوئی اورمقصد تھاہی نہیں،ورنہ ’’تین طلاق واقع نہیںہوگی پھربھی شوہرکومجرم قراردے کر اسے تین سال کی سزا ہوگی‘‘جیسے مضحکہ خیزدفعات اور’’شوہرجیل میں رہ کربھی بیوی کوگزارابھتہ دے گا‘‘جیسی کمیوںکا وجودکیامعنی رکھتاہے ؟
دراصل حکومت کو عورتوںکےکسی بھی حقیقی مسئلہ سے کوئی سروکارنہیںورنہ آج ہمارے ملک میںعورتوںسے متعلق ہی ایسے بہت سارے مسائل ہیںجوفوری توجہ اورحل کئے جانے کے مستحق ہیںمگرمودی جی کواُس سے کیا؟انھیںتواپنے آقاؤںکو خوش کرناہے جووہ نہایت ہی کامیابی کے ساتھ کررہے ہیں، ملک کی جمہوریت دم توڑتی ہے توتوڑدے ،ہندوستان دنیامیں بدنام ہوتاہے توہوتارہے ،وہ توبس’’مست رہومستی میں،آگ لگے بستی میں‘‘گنگنائے جارہے ہیں۔
ایک اورضروری بات یہ ہے کہ ملک کی روایت رہی ہے کہ کسی بھی مسئلے پرقانون بنانے کے لئے اس معاملہ کے ماہرین کےمشورے کی روشنی میںایک بل کی ڈرافٹنگ عمل میںآتی ہے پھر حزب اقتداراسے لوک سبھامیںپیش کرتاہے،جہاںحزب اختلاف کے ساتھ ساتھ دیگرمتعلقہ افرادبھی اس پرسوال وجواب کرتے ہیں،تب جاکرکثرت رائے سے کوئی بل یاقانون منظور کیاجاتاہےاور اس عمل کومزیدیقینی بنانے کے لئے ۱۹۹۳ء میں باقاعدہ ایک ’’اسٹینڈنگ کمیٹی‘‘کی تشکیل بھی عمل میںآچکی ہے ، لیکن طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کے سلسلے میںایساکچھ بھی نہیںہواجبکہ اپوزیشن نے بارباراس کامطالبہ بھی کیا۔
دراصل یہ مسلمانوںکوتباہ وبربادکرنے کے لئے آرایس ایس کا ایک نیافارمولہ ہےجسے پوراکرنے کابیڑامودی جی نے اٹھایاہےاوروہ جمہوریت کی پرواہ کئے بغیررفتہ رفتہ اپنے اس مقصدکی طرف بڑھ بھی رہے ہیں،انھیںاس سے کوئی مطلب نہیںکہ ملک کہاںجارہاہے؟ عالمی سطح پرہندوستان کی کیاشبیہ بن رہی ہے؟ہندوستان کی جمہوریت اوراس کی گنگناجمنی تہذیب اپنی زندگی کی آخری سانسیںلے رہی ہے ،حدتویہ ہے کہ اب ملک کاسپریم کورٹ بھی اس خطرہ کومحسوس کرنے لگاہے ،مگر افسوس کہ آج حکمرانوںکاضمیراس قدرمردہ ہوچکاہے کہ یہ ساری باتیں ’’نقار خانے میںطوطی کی آواز‘‘ہی ثابت ہورہی ہیں۔
مسلمان ماضی اورحال کے آئینے میں
مسلمانو!بے حسی کی حدہوگئی ،اب توخواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ، موجودہ ملکی حالات تم سے اپنے اعمال کااحتساب کرنے کا تقاضہ کررہے ہیں،ذراماضی کے آئینے میںخودکودیکھو،تم اتنے بدل گئے ہوکہ اب خودکوبھی نہیںپہچان پاؤگے،تم خودسوچ میں پڑجاؤگے کہ کیایہ تمہی ہو؟کیاشکل بنالی ہے ،ماضی میںبشکل مسلمان تم ایسے تونہیںتھے،تمہاری شکل وصورت ،تمہارے اعمال اورتمہارےقول وکردارمیںاسلام مجسم نظرآتاتھا،تمہیںدیکھ کر لوگ اسلام کوجانتے اوراپناتے تھے،برائیاںتم سےکوسوںدور تھیں،تمہاری خوش اخلاقیوںکاچہاردانگ عالم میںچرچہ تھا، نیک نامیاںتمہارے گھرکی باندیاںاورکامیابیاںتمہاری چاکری کیاکرتی تھیں، دنیاتم سے طرزمعاشرت کی خیرات لیتی تھی، تمہاری زبان ہی لاکھوںکی ضمانت ہواکرتی تھی،تمہارے کردار پراغیاربھی ایمان لاتے تھے،تمہاری عدالت اورانصاف پسندی دشمنان اسلام بھی تسلیم کرتے تھے،دیگراہل مذاہب اپنے فیصلے تم سے کرایاکرتے تھے۔
آج کیاسے کیاہوگئے تم ؟ غیرتوغیرآج اپنے بھی تم پراعتماد نہیںکرتے ،تمہاری شکل وصورت ،تمہارے اعمال اورتمہارا قول وکرداردیکھ لوگ اسلام سے متنفرہورہے ہیں،برائیاں تمہاری پہچان بن گئیںہیں،بداخلاقیاںتمہاراشیوہ اورناکامیاں تمہارامقدربن گئیںہیں،دوسروںکو درس حیات دینے والی قوم آج ناکام زندگی کی علامت بن گئی ہے،جھوٹ ،غیبت،عیاشی ، شراب نوشی ،قماربازی،زناکاری،بدعہدی،بدتہذیبی،حق تلفی ، ناانصافی ،ماںباپ سے بدسلوکی،بیوی بچوںکے ساتھ ظلم وزیادتی اوربات بات پرطلاق بازی تمہاری زندگی کاحصہ بن گئی ہے ۔
اس پرستم یہ کہ تم نےاپنے خالص شرعی معاملات میں اغیار کو مداخلت کا موقع فراہم کیا ،جس کا نتیجہ ہے کہ آج غیر شرعی احکام تم پرتھوپنے کی جرأت کی جا رہی ہے، ان حالات کے تدارک کے لئے ایک صدی قبل ہی مفکر اسلام امام احمد رضاخاںقادری بریلوی نے یہ فکر دی تھی کہ مسلمان اپنےباہمی نزع کا تصفیہ شرعی طریقے سے کریں تا کہ اغیار کو کسی بھی شرعی معاملہ میںمداخلت کا موقع سرےسے مل ہی نہ پائے، آپ نےفرمایا تھا
’’ان معدود(چند)باتوں کے جن میں حکومت کی دست اندازی (مداخلت)ہو ،اپنے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے،اپنے سب مقدمات اپنے آپ فیصل کرتے، یہ کروڑوں روپئےجو اسٹامپ و وکالت میں گھسے جاتے ہیں، گھر کے گھر تباہ ہو گئے اور ہوئے جاتے ہیں ،محفوظ رہتے۔‘‘
اگراس مخلص مفکرکی بات پرعمل کرتے ہوئے تم نے نکاح وطلاق اوراپنےدیگر عائلی مسائل کے تصفیہ کے لئے کورٹ کچہری کے بجائے اپنےدارالافتااورو دارالقضا سے رجوع کیا ہوتاتویقیناً آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔
تمہاری انہی بداعمالیوںکانتیجہ ہے کہ آج ہرایراغیرا حکمت ودانائی سے بھرپوراحکامات شرع پرانگشت نمائی کررہاہے ،نہ تم اس درجہ احکام شرع کی ناقدری کرتے ،نہ کسی میں اسے تبدیل کرنے کی جرأت ارزانی ہوتی ،نہ تم اسلامی رعایت کاغلط فائدہ اٹھاتے ،نہ کسی کوتمہاری اسلامی زندگی تباہ وبربادکرنے کاموقع کاملتا،یہ جوکچھ بھی ہورہاہے ،سب تمہاری شامت اعمال کانتیجہ ہے ،یہ تمہاری ہی کاشت ہے جسے تم کاٹ رہے ہو،للہ!ہوش کے ناخن لو،زمانہ قیامت کی چال چل چکاہے ،اسے سمجھواوراپنی عظمت رفتہ کی بازیابی کے لئے مردحق آگاہ کی طرح میدان عمل میںکودپڑو،اب بھی وقت ہے ورنہ اگرتمہارایہی حال رہاتوبہت جلدصفحۂ ہستی سےمٹادیئے جاؤگے، شاعرمشرق ڈاکٹراقبال نے نصف صدی پیشترہی تمہاری اس حالت زارپرتمہیںتنبیہ کرتے ہوئے کہاتھا۔ ؎
نہ سمجھوگے تومٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں
تمہاری داستاںتک بھی نہ ہوگی داستانوںمیں